پچھلے دنوں مجھے اپنے رنگ کے حوالے سے بڑی فکر لاحق رہی، کسی نے بتایا کہ گورا گورا لگ رہا ہے۔ فکر مجھے اس بات کی تھی کہ جس نے مجھے اس حال میں دیکھا تھا اسے پتا نہیں تھا کہ میں ایک پروگرام کی ریکارڈنگ سے آرہا ہوں اور میک اپ ابھی جوں کا توں چہرے پر موجود ہے۔ساری رات اسی سوچ میں گذری کہ آخر کوئی تو ایسا طریقہ ہوگا جس سے میں گوروں کی فہرست میں شامل ہوجاؤں۔ بات چونکہ بہت پرائیویٹ تھی اس لیے میں نے کافی سوچ وبچار کے بعد فیصلہ کیا کہ کل شہر کے سب سے اچھے مردانہ پارلر میں جاؤں گا اور وہاں سے انشاء اللہ کچھ بن کے ہی نکلوں گا۔ یہ میرا پہلا تجربہ تھا تاہم مجھے یقین تھا کہ میرا بے پناہ اعتماد میرا ساتھ دے گا اور میں کامیاب لوٹوں گا۔ پارلر کے اندر قدم رکھتے ہی دو نازک اندام حسینائیں مسکراہٹوں کے پھول برساتی میری طرف لپکیں‘ ایک کمبخت نے تو نری بنیان پہن رکھی تھی، میں بوکھلا کر الٹے قدموں واپس بھاگا، یقیناًمیں غلطی سے کسی زنانہ پارلر میں گھس آیا تھا۔ تاہم میری حیرت کی انتہا نہ رہی جب حسیناؤں کی جوڑی نے مجھے باور کرایا کہ یہ مردانہ بیوٹی پارلر ہی ہے۔ میں نے جھجکتے ہوئے ان سے پوچھا کہ ’’باجی پھر آپ یہاں کیا کررہی ہیں؟‘‘۔۔۔ایک نے گھور کر میری طرف دیکھا ، پھر سنبھل کر مسکرائی اور بولی’’ہم باجی نہیں باجے ہیں‘‘۔ بخدا یہ سنتے ہی طبیعت یکدم مکدر سی ہوگئی۔اچانک مجھے یاد آیا کہ مجھے تو اعتماد کا مظاہرہ کرنا ہے تاکہ ان کو شک نہ پڑے کہ میں پہلی دفعہ یہاں آیا ہوں۔ میں نے لاپرواہی سے ’باجے‘ کی طرف دیکھا’’ لگتا ہے آپ یہاں نئے آئے ہیں، پہلے آپ کو کبھی نہیں دیکھا‘‘۔
اب کی بار دوسراباجا بولا’’ڈیئر ہم دونوں اس بیوٹی پارلر کے مالک ہیں‘‘۔ میرے پیروں تلے زمین نکل گئی تاہم اعتماد کا دامن پھر بھی نہیں چھوڑا اور کنپٹی کھجاتے ہوئے کہا’’آئی تھنک! وہ دوسرا پارلر تھا۔۔۔خیر۔۔۔اب آپ کو بھی آزما لیتے ہیں‘‘۔
پہلا باجا بولا’’تھینک یو سر۔۔۔کیا کروائیں گے؟‘‘
’’جی مجھے رنگ گورا کروانا ہے‘‘۔۔۔میں نے اطمینان سے کہا ۔ میری بات سنتے ہی دونوں نے حیرت سے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور مجھے اندازہ ہوگیا کہ مجھ سے کوئی فلک شگاف بونگی سرزد ہوگئی ہے۔ جلدی سے ذہن پر زور دیا کہ رنگ گورا کروانے والے طریقوں کو کیا کہتے ہیں؟ محلے کے بیوٹی پارلر کے باہر لکھے جملے دماغ میں لانے کی کوشش کی اور پھر اللہ نے بڑی مہربانی کی کہ ایک نام ذہن میں آہی گیا، میں نے پراعتماد مسکراہٹ کے ساتھ کہا’مجھے ویکس کروانی ہے‘‘۔
’’کیا؟؟‘‘ دونوں پہلے حیران ہوئے ، پھر خوشی سے نہال ہوگئے ’’اوہ گاڈ۔۔۔آپ تو ہمارے ہی فیملی کے نکلے۔۔۔‘‘
’’کک۔۔۔کیا مطلب‘‘؟؟ میرا ماتھا ٹھنکا۔۔۔!!!
’’مطلب یہ کہ بہت دنوں بعد کوئی Male ویکس کروانے آیا ہے۔۔۔‘‘ یہ سن کر مجھے یہ تو سمجھ نہ آئی کہ ویکس کیا ہوتی ہے تاہم اتنا ضرور اندازہ ہوگیا کہ یہ کام مردوں والا نہیں، میں نے جلدی سے پینترا بدلا، کچھ مزید سوچا اور قدرے غصے سے کہا’’آپ لوگ دھیان سے بات کیوں نہیں سنتے، میں کہہ رہا ہوں کہ میں نے چہرہ بلیچ کروانا ہے‘‘۔ دونوں پھر ہکا بکا رہ گئے۔۔۔!!!
’’آپ ایک ہی دفعہ آپریشن کیوں نہیں کروا لیتے‘‘ ایک نے تجویز دی۔۔۔!!!
’’’مجھے کھٹکا سا ہوا کہ کچھ گڑبڑ ہورہی ہے۔۔۔میں نے مزید بات بڑھانا مناسب نہیں سمجھا اور گہرا سانس لے کر کہا’’آپ چھوڑیے سب باتیں، مجھے اچھی طرح پتا ہے میری ضرورت کیا ہے، میر’ا پیڈی کیور ‘ کر دیجئے۔۔۔!!!
’’آہا۔۔۔‘‘ دوسرا باجا جھوم کر بولا۔۔۔’’سٹارٹ وہیں سے لیں گے‘‘
’’اوکے‘‘ ۔۔۔میں نے کندھے اچکائے۔۔۔’’تو شروع کیجئے‘‘۔ میرے اتنا کہنے کی دیر تھی کہ انہوں نے مجھے ایک آرام دہ کرسی پر بٹھایا اور میرے پاؤں کے نیچے ایک ٹب سا لاکر رکھ دیا ۔ مجھے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ یہ رنگ گورا کرنے کا کون سا طریقہ ہے، کچھ تذبذب ہوا تو احتیاطاً پوچھ ہی لیا’’بھائی صاحب! چہرے کا پیڈی کیور کب کریں گے؟‘‘یہ جملہ جونہی میرے منہ سے نکلا اچانک ایک گہری خاموشی چھا گئی، کچھ دیر موت کا سناٹا رہا، پھر ایک باجے کی آواز سنائی دی’’آپ رنگ گورا کروانے آئے ہیں؟‘‘
’’نہیں ۔۔۔تیری پینٹ نوں تروپا لان آیاں‘‘ میں غصے سے چلایا۔۔۔’’ظاہری بات ہے پارلر آیا ہوں تو رنگ ہی گورا کروانا ہے‘‘۔
دونوں نے معنی خیز نظروں سے ایک دوسرے کی طرف دیکھا ،ایک بولا’’ سر! فیشل کروائیں گے یا سکن پالش؟‘‘
’’لاحول ولا قوۃ۔۔۔پالش کیوں کرواؤں، میں کوئی بوٹ ہوں؟۔۔۔وہ دوسرا کیا نام بتایا ہے؟‘‘
’’سر! فیشل‘‘
’’ سر فیشل رہنے دو۔۔۔تم ’منہ فیشل‘ کردو۔۔۔‘‘
’’سر وہ منہ پر ہی ہوتاہے۔۔۔یہ بتائیں ہربل فیشل کرنا ہے یا امپورٹڈ؟‘‘
’’ابے میں نے رنگ گورا کروانا ہے، جو مرضی کردو۔۔۔‘‘ میرے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا۔۔۔!!!
دونوں نے تیزی سے کچھ کریمیں نکالیں، مجھے کرسی پر بٹھایا اور حکم دیا کہ آنکھیں بند کرلوں۔ میں نے حکم کی تعمیل کی، اس دوران مجھے صرف اتنا پتا ہے کہ میرے چہرے پر پتا نہیں کیا کیا الا بلا لگایا جاتا رہا، اس کے بعد ان میں سے ایک نے میری کرسی کے پیچھے کھڑے ہوکر میرے چہرے کو ملنا شروع کر دیا، عجیب سی الجھن ہونے لگی، پہلے تو میرا خیال تھا کہ ایک منٹ میں بات ختم ہوجائے گی، لیکن جب دس منٹ ہونے کو آئے تو مجھے دال میں کالا نظر آیا، بدبختوں نے میری آنکھیں بھی بند کروا رکھی تھی، میں نے انتہائی چالاکی سے تھوڑی سی آنکھ کھول لی، سامنے شیشے پر نظر پڑتے ہی میرے ہاتھوں پیروں سے گویا جان ہی نکل گئی۔۔۔سامنے کوئی بھوت بیٹھا تھا جس کا سارا چہرہ آٹے کی طرح سفید تھا۔ میرے حلق سے ایک زوردار چیخ نکل گئی۔قریب تھا کہ میں بے ہوش ہوجاتا، لیکن عین اسی لمحے مجھے دوسرے باجے نے آکر سنبھالا اور پندرہ منٹ طویل دلاسے کے بعد سمجھایا کہ ’اس طرح تو ہوتاہے اس طرح کے کاموں میں‘۔۔۔!!!
میں نے فیشل تو کروا لیا لیکن حرام ہے جو میرے رنگ پر کوئی اثر پڑا ہو۔اس سے زیادہ اچھا رزلٹ تو ’گائے سوپ‘ دے جاتاہے ‘ ۔ میں نے فیصلہ کر لیا ہے کہ اب میں کبھی پارلر نہیں جاؤں گا‘ اگر آپ کے ذہن میں کسی اچھے پارلر کا نام ہے تو ضرور بتائیے تاکہ میں ایڈریس نوٹ کرلوں اور وہاں کبھی نہ جاؤں۔۔۔!!!
یہ تحریر اس لِنک سے لی گئی ہے۔
“