اشرف ہتھوڑی سے میں نے ساری زندگی خوف ہی کھایا۔ قبلہ لڑائی کے بہت شوقین تھے۔ ایک دفعہ ہم دونوں گول گپے کھا رہے تھے کہ اچانک کسی طرف سے زور زور سے بولنے کی آوازیں آئیں۔ چونک کر دیکھا تو دو لڑکے آپس میں لڑ رہے تھے‘ غالباً موٹر سائیکل کی ہلکی سی ٹکر ہو گئی تھی۔ ایک لڑکا لمبا تھا اور دوسرا چھوٹا… دیکھتے ہی دیکھتے دونوں میں لڑائی شروع ہو گئی۔ اشرف ہتھوڑی نے گول گپے کی پلیٹ وہیں چھوڑی اور اس سے پہلے کہ میں اسے روکتا‘ وہ بھاگ کر لڑائی میں کود پڑا۔ اب صورتحال یہ تھی کہ اشرف ہتھوڑی کو کچھ پتا نہیں تھا کہ کون سا لڑکا صحیح ہے اور کون سا غلط‘ لہٰذا موصوف باری باری دونوں کو گھونسے مارتے جا رہے تھے۔ دونوں لڑکے پہلے تو کچھ سمجھ ہی نہ پائے کہ یہ تیسرا بندہ کون ہے اور کس کا حمایتی ہے‘ تاہم سوا تین منٹ بعد جب انہیں پتا چلا کہ یہ دونوں کو ہی مارنے پر تلا ہوا ہے تو دونوں نے ہاتھ ملایا اور پھر مل کر اشرف ہتھوڑی کی ٹھکائی کی۔
اشرف ہتھوڑی کے نام کے بارے میں اُس کے والد صاحب بیان کرتے ہیں کہ یہ بچپن میں کھلونے کی بجائے ہتھوڑی سے کھیل کر خوش ہوتا تھا اور ارد گرد بیٹھے ہوئے کسی بھی فرد کے گھٹنے پر اطمینان سے ہتھوڑی دے مارتا تھا۔ ایک دفعہ گھر میں مہمان آئے ہوئے تھے‘ بچے نے ہتھوڑی اٹھائی اور پوری قوت سے ایک بزرگ مہمان کے گھٹنے پر دے ماری۔ ہائے کی ایک طویل آواز بلند ہوئی اور مہمان کے گوڈے جواب دے گئے۔ اشرف ہتھوڑی کے والد صاحب بتاتے ہیں کہ بعد میں مہمان کو بلال گنج سے 'کابلی گوڈے‘ ڈلوا کر دینے پڑے تھے۔ اشرف ہتھوڑی سے تھوڑا سا بھی اختلاف اس کی طبع نازک پر گراں گزرتا تھا۔ ایک دفعہ ایک محفل میں بات ہو رہی تھی کہ انار کلی بازار کے دہی بڑے زیادہ اچھے ہیں یا شاہ عالمی کے۔ اشرف نے فیصلہ سنایا کہ شاہ عالمی کا کوئی مقابلہ نہیں۔ ایک دوست نے اختلاف کیا کہ انار کلی جیسے دہی بڑے کہیں نہیں ملتے۔ یہ سنتے ہی اشرف ہتھوڑی نے پاس پڑی کرسی اٹھائی اور پوری قوت سے اختلاف کرنے والے کے سر میں دے ماری۔ اشرف جتنا عرصہ پاکستان میں رہا‘ میں ہر دوسرے دن اس کے لیے کھانا لے کر کسی نہ کسی تھانے جایا کرتا تھا۔ محلے کے ہر بندے سے اس کی لڑائی تھی لیکن مجھ پر وہ اکثر رحم کر دیا کرتا تھا‘ ویسے بھی میں احتیاطاً اس کی ہر ہاں میں ہاں ملا دیتا تھا۔
کل 18 برس بعد اشرف سے ملاقات ہوئی تو مجھے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آیا‘ وہ مسکرا رہا تھا‘ دھیمے لہجے میں گفتگو کر رہا تھا اور بڑے سے بڑا اختلاف بھی خوش دلی سے سن رہا تھا۔ مجھے یاد ہے 18 برس پہلے اشرف ہتھوڑی نے پسند کا گانا نہ لگانے پر ایک ویگن ڈرائیور کو چلتی ویگن میں بازو پر 'چک‘ مار لیا تھا۔ ویگن بے قابو ہوکر فٹ پاتھ پر چڑھ گئی‘ لوگ زخمی تو ہوئے لیکن اللہ کا شکر ہے کسی کی جان نہیں گئی۔ نوبت پھر تھانے تک پہنچ گئی لیکن اب کی بار اشرف کے والد صاحب نے اس مصیبت سے چھٹکارے کا حل سوچ لیا تھا لہٰذا تھانے والوں کو کچھ دے دلا کر معاملہ ختم کیا اور کچھ دن بعد اشرف کو ناروے بھجوا دیا۔ اس کے بعد میرا اُس سے کوئی رابطہ نہیں ہوا۔ لیکن کل وہ اچانک میری طرف آیا اور مجھے حیران کر دیا۔ ہم کافی دیر گپ شپ کرتے رہے‘ پرانی یادیں تازہ ہوئیں۔ اس دوران میں نے نوٹ کیا کہ اشرف ہتھوڑی کے اندر کا سارا ڈنک نکل چکا ہے۔ میں نے آزمانے کے لیے ایک دو دفعہ اسے غصہ دلانے کی کوشش کی لیکن اس کا مزاج بالکل برف ہو چکا تھا۔ مجھ سے یہ چیز ہضم نہیں ہو رہی تھی لہٰذا پوچھ ہی لیا کہ تم تو بہت جھگڑالو اور مار پیٹ پسند انسان تھے‘ اچانک بدل کیسے گئے؟ اشرف نے صوفے پر پہلو بدلا‘ گہری سانس لی اور ایک عجیب و غریب واقعہ سنایا۔ کہنے لگا ''جب میں پاکستان سے ناروے گیا تو وہاں اوسلو میں ایک جوتے بنانے والی فیکٹری میں ملازمت مل گئی۔ محنت بہت تھی لیکن مجبوری تھی لہٰذا میں کرتا رہا۔ فیکٹری میں بہت سے مزدور تھے۔ ان میں ایک فلسطینی بھی تھا جو میرے دیگر فیکٹری ملازمین کے ساتھ ہمارے چھوٹے سے فلیٹ میں رہتا تھا۔ وہ باڈی بلڈنگ کا بڑا شوقین تھا۔ خاصا تنومند تھا۔ ہم کافی حد تک ایک دوسرے کی زبانیں بھی سمجھنے لگے۔ مجھے روز صبح نہانے کی عادت تھی لیکن فلیٹ میں ایک ہی باتھ روم تھا۔ مجھ سے پہلے اکثر یہ فلسطینی باتھ روم میں گھس جاتا اور کافی دیر بعد نکلتا تھا۔ میری اکثر اُس سے تُوتُو میں میں ہو جاتی تھی۔ وہ بھی مزاج کا بڑا تیز تھا۔ مجھے ایسا لگتا تھا کہ ہم دونوں میں بہت جلد کوئی بہت بڑی لڑائی ہو جائے گی۔ ویسے تو اکثر فلیٹ پر لڑائی ہوئی لیکن وہاں رہنے والے دوستوں نے بیچ بچائو کرا دیا۔ ایک دن جب میں صبح اٹھا تو باتھ روم میں کوئی نہیں تھا۔ میں نے شکر ادا کیا اور تولیہ پکڑ کر باتھ روم جانے لگا تو اچانک پیچھے سے فلسطینی کی آواز آئی کہ باہر دروازے پر کوئی صاحب تمہیں ملنے آئے ہیں۔ میں چونک گیا اور دروازے کی طرف بڑھ گیا۔ باہر دیکھا تو کوئی بھی نہیں تھا۔ میں غصے سے واپس مڑا لیکن اتنی دیر میں فلسطینی باتھ روم میں گھس چکا تھا۔ میرا ضبط ٹوٹ گیا۔ میں نے تہیہ کر لیا کہ آج اسے مزا چکھا کے رہوں گا۔ میں نے آستینیں چڑھا لیں اور اس کے باتھ روم سے نکلنے کا انتظار کرنے لگا۔ بیس منٹ بعد جب وہ باتھ روم سے نکلا تو میں نے وہیں پر اسے دبوچ لیا اور پوری قوت سے ایک گھونسہ اس کے گال پر دے مارا۔ وہ بری طرح لڑکھڑا کے گرا‘ لیکن ڈیل ڈول کا اچھا تھا لہٰذا فوراً ہی سنبھل گیا اور جوابی طور پر میرے منہ پر بھی گھونسہ دے مارا۔ تھوڑی ہی دیر میں فلیٹ میں خونخوار جنگ شروع ہو گئی۔ ہم دونوں ایک دوسرے کو برتن‘ وائپر اور دیگر چیزیں اُٹھا اُٹھا کے مار رہے تھے۔ میں تو سدا سے لڑائی کا رسیا تھا لہٰذا مجھے پتا تھا کہ یہ اب مجھ سے نہیں بچے گا۔ فلیٹ کے دیگر دوست پاگلوں کی طرح ہمیں چھڑانے کی کوشش کر رہے تھے لیکن ہم دونوں ہار ماننے کے لیے تیار نہیں تھے۔
بالآخر چھ دوستوں نے بڑی مشکل سے ہمیں قابو کر کے الگ کیا۔ میرا سانس دھونکنی کی طرح چل رہا تھا‘ میں نے پوری قوت سے چلا کر اسے ایک گالی دیتے ہوئے کہا 'اوئے… میں تجھے ایک ہفتے کے اندر قتل کرکے اپنے وطن بھاگ جائوں گا اور کسی کا باپ بھی میرا کچھ نہیں بگاڑ سکے گا‘۔ یہ سنتے ہی غصے میں بھرے فلسطینی کے چہرے پر ایک رنگ سا آ کر گزر گی۔ میں نے محسوس کیا کہ وہ واقعی خوفزدہ ہو گیا ہے۔ وقتی طور پر بات ختم ہو گئی لیکن میں نے تہیہ کر لیا تھا کہ اب ہر صورت میں اسے جان سے مارنا ہے۔ اگلے دن میں فیکٹری پہنچا تو وہاں ایک اور ہی منظر میرے سامنے تھا۔ فلسطینی میرے سامنے ہاتھ جوڑے کھڑا ہو گیا اورکل والے واقعے کی معافی مانگنے لگا۔ میں نے اس کا گریبان پکڑ لیا اور گردن میں اپنے ناخن چبھوتے ہوئے غرا کر کہا 'اتنا ہی چھوٹا دل تھا تو مجھ سے پنگا کیوں لیا؟‘‘۔ اس نے کچھ دیر غور سے میری طرف دیکھا‘ آہستہ سے گریبان چھڑایا اور ایک طرف بیٹھ کر رونے لگا۔ میں نے ایک قہقہہ لگایا 'اوئے کیا بچوں کی طرح رو رہے ہو‘ کہاں گئی تمہاری بدمعاشی‘ تمہاری باڈی بلڈنگ؟‘‘۔ اس نے آنسوئوں بھری آنکھیں اٹھائیں اور ہچکیاں لیتے ہوئے بولا 'میں بزدل نہیں‘ لیکن کل جب تم نے کہا کہ تم مجھے مار کر اپنے وطن بھاگ جائو گے تو میں نے سوچا‘ اس سے پہلے کہ تم مجھے مارو‘ کیوں نہ میں تمہیں مار کر اپنے وطن بھاگ جائوں‘ لیکن ساری رات مجھے سمجھ نہیں آ سکی کہ میرا وطن ہے کہاں؟؟؟‘‘ اس کی یہ بات سن کر پہلی بار میرے دل پر ایسی ہتھوڑی پڑی کہ سب ٹھس ہو گیا…‘‘۔ اشرف نے بات ختم کی اور ٹشو پیپر کے ڈبے کی طرف ہاتھ بڑھا دیا…!!!
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔
“