عبداللہ صاحب 14 اگست نہیں مناتے۔یہ 14 اگست کے دن معمول کی طرح اپنی دوکان کھولتے ہیں‘ گاہک نمٹاتے ہیں اورگھر آکر سوجاتے ہیں۔70 سالوں میں ایک دفعہ بھی انہوں نے ایک دفعہ بھی گھر پر جھنڈا نہیں لگایا۔عبداللہ صاحب صرف مٹن کھاتے ہیں یا چکن۔اب تو مہینوں مٹن بھی نہیں کھاتے حالانکہ قالینوں کے سوداگر ہیں ‘ صحت بھی ٹھیک ہے‘ ڈاکٹروں نے بھی کئی خاص پرہیز نہیں بتائی ۔اُنہیں خود بھی مٹن بہت پسند ہے بلکہ مٹن سے زیادہ بیف پسند ہے لیکن ان کے گھرمیںآج کل جب گوشت نامی کوئی چیز پکتی ہے تو وہ صرف اور صرف چکن ہوتاہے۔عبداللہ صاحب کے گھر کے باہر کوئی نیم پلیٹ نہیں لگی ہوئی‘ یہ ایک عجیب سا گھر ہے‘ بڑا خوبصورت بنا ہوا ہے ‘ شاندار گیٹ ہے لیکن باہر کوئی نیم پلیٹ نہیں۔ان کے دو بیٹے اور ایک بیٹی ہے۔ اہلیہ وفات پاچکی ہیں۔ دونوں بیٹوں نے ایم بی اے کیا ہوا ہے اور بیٹی ماسٹرز کر رہی ہے ۔بیٹوں نے سرکاری نوکری کے لیے بڑی تگ و دو کی لیکن میرٹ پر آنے اور نوکری کی جگہ خالی ہونے کے باوجود محروم رہے اور آج کل باپ کے ساتھ قالینوں کا کارخانہ سنبھالتے ہیں۔بیٹی یونیورسٹی میں پڑھتی ہے لیکن یونیورسٹی سے گھر آتے ہی رونے لگتی ہے۔ اسے گلہ ہے کہ وہ جہاں سے بھی گذرتی ہے لڑکے اس پر غلیظ جملے کستے ہیں۔عبداللہ صاحب محلے میں سب سے الگ تھلگ رہتے ہیں کیونکہ محلے کے لوگ اُن سے ملنا نہیں چاہتے۔عبداللہ صاحب محلے کی دوکان سے بوتل بھی لے کر پئیں تو دوکاندار احتیاطاً بوتل الگ رکھ دیتاہے حالانکہ عبداللہ صاحب کو کوئی ایسی بیماری نہیں جو اِن کی وجہ سے کسی دوسرے کو لگ سکے۔عبداللہ صاحب عموماً نماز گھر میں ہی پڑھتے ہیں البتہ جمعہ پڑھنے شہر کی بڑی مسجد میں چلے جاتے ہیں اور واپسی پر ہمیشہ دوسرا رستہ اختیار کرتے ہیں۔یہ اگر کبھی کسی بازار سے گذر رہے ہوں اور اذان کی آواز کانوں میں پڑے تو ’’اشہدُ اَن محمدالرسول اللہ‘‘کے الفاط سن کر دونوں ہاتھوں کی انگلیاں چوم کر آنکھوں کو بھی نہیں لگاتے۔پکے نمازی اور کھرے مسلمان ہونے کے باوجود کوشش کرتے ہیں کہ بلند آواز قرآن پاک کی تلاوت نہ کریں۔پچھلے رمضان 27 ویں کی رات ان کی بیٹی قرآن پاک کی تلاوت کر رہی تھی‘ آواز ذرا بلند ہوگئی۔عبداللہ صاحب نے فوراً اپنی نفلی نماز توڑی اور بیٹی کو ڈانٹا کہ آہستہ آواز میں قرآن پڑھے۔عبداللہ صاحب کے گھرمیں کیبل نہیں لگی ہوئی‘انٹینا لگا ہوا ہے جس پر وہ پی ٹی وی بڑے شوق سے دیکھتے ہیں۔پہلے وہ سر پر ٹوپی پہنتے تھے‘ اب نہیں پہنتے۔عبداللہ صاحب کے گھر میں کسی کی طبیعت خراب ہوجائے تو سرکاری ہسپتال جانے کی بجائے کوشش کرتے ہیں کہ کسی گھریلوٹوٹکے سے آرام آجائے۔اُن کے گھر میں ہر وقت ایک بھرا ہوا ریوالور موجود رہتاہے اور رات کے وقت گھر کی فضا عجیب قسم کے خوف کا شکار نظر آتی ہے۔عبداللہ صاحب کے بیٹوں کے چند دوست ہیں جن کے نام اور موبائل نمبرز عبداللہ صاحب کو بھی یاد ہیں۔انہوں نے بیٹوں کو سختی سے ہدایت کی ہوئی ہے کہ وہ رات 8 بجے سے پہلے گھرمیں موجود ہوں۔
کبھی کبھی عبداللہ صاحب کا جی چاہتا ہے کہ وہ اپنے گھر کے باہر اپنے نام کی ایک خوبصورت سی نیم پلیٹ بنوا کر لگائیں ‘ ایک دفعہ انہوں نے نیم پلیٹ بنوا بھی لی لیکن پھر خاموشی سے بیگم کے جہیز میںآئی ہوئی بڑی کپڑوں کی الماری میں رکھ دی۔عبداللہ صاحب کسی سے ملتے ہیں تو السلام علیکم بھی نہیں کہتے‘ صرف مصافحے پر اکتفا کرتے ہیں۔ان کا شناختی کارڈ تو بنا ہو ا ہے لیکن جب کہیں شناختی کارڈ دکھانے کی ضرورت پیش آتی ہے تو وہ کانپ جاتے ہیں۔ دل ہی دل میں دعائیں کرتے ہیں اور اگر کوئی مسئلہ پیش نہ آئے تو خدا کا شکر ادا کرتے ہیں۔اُن کا دل چاہتا ہے کہ وہ بھی گھرمیں نیاز پکوائیں اور محلے میں بانٹیں لیکن اُنہیں پتا ہے محلے والے ان کے گھر کی پکی ہوئی چیز کبھی قبول نہیں کریں گے۔عبداللہ صاحب اس محلے میں گذشتہ تیس سال سے رہ رہے ہیں اس کے باوجود محلے میں کوئی شادی ہوتو کوئی اُنہیں نہیں بلاتا۔یہ بس میں سفر کر رہے ہوں تو جان بوجھ کر ایسی سیٹ کا انتخاب کرتے ہیں جہاں کسی کی نظر اِن پر نہ پڑسکے۔ان کو ہر وقت لگتاہے کہ کوئی ان کا پیچھا کر رہا ہے‘ کوئی ان کی باتیں سن رہا ہے‘ کوئی ان کی بیٹی کو اغواء کرلے گا‘ کوئی ان کے بیٹوں کو مار دے گا۔محلے میں کہیں چار لوگ کھڑے ہوئے ہوں تویہ دور سے انہیں دیکھتے ہی راستہ بدل لیتے ہیں‘ اگر مجبوراً گذرنا بھی پڑے تو سلام لینے کی بجائے ہاتھ ہلاتے ہوئے گذر جاتے ہیں۔
جو کچرے والا عبداللہ صاحب کے گھر کا کچرا اٹھانے آتا ہے وہ بھی مشکوک نظروں سے ہر روز کچرے والے شاپنگ بیگ کا جائزہ لیتا ہے۔ عبداللہ صاحب ہر بڑی عید پر قربانی کرتے ہیں لیکن مسجد میں ہی جانور لاتے ہیں وہیں قربان کرکے وہیں گوشت بانٹ دیتے ہیں ‘ اپنے لیے جو گوشت گھر لاتے ہیں وہ رات کی تاریکی میں لاتے ہیں۔عبداللہ صاحب پردے کے انتہائی حامی ہیں لیکن دوسری طرف ان کی بیٹی یونیورسٹی جاتی ہے تو سر پر دوپٹہ بھی نہیں لیتی۔ عبداللہ صاحب شرم سے زمین میں گڑ جاتے ہیں ۔پہلے ان کی بیٹی دوپٹہ لیتی تھی لیکن جب محلے میں ایک اوباش نے اس کا دوپٹہ کھینچ کر گولا سا بنا کر گندے پانی میں پھینک دیا تھا تب سے انہوں نے خود بیٹی کو اجازت دی کہ وہ ننگے سر یونیورسٹی جایا کرے۔ایک دن ان کی بیٹی نے اپنے لیے گھر میں ہی سکارف سی کر پہن لیا۔ عبداللہ صاحب نے دیکھا تو ایک دم سے ان کے پاؤں تلے زمین نکل گئی۔ فوراً اتارنے کے لیے کہا اور سختی سے تاکید کی کہ آئندہ گھرمیں ایسا کوئی کپڑا نظر نہ آئے جس سے سر ڈھانپنے کا کام لیا جاسکے۔
عبداللہ صاحب کا بڑا دل چاہتا ہے کہ وہ روزانہ گھرمیں بلند آواز قران کی تلاوت کیا کریں۔۔۔ کسی دوست سے ملیں تو اسے بلند آواز السلام علیکم کہا کریں۔۔۔ بیف ‘ مٹن‘ چکن سب کھایا کریں۔۔۔فخر سے سر پر مدینے سے لائی ہوئی ٹوپی پہن کرپانچوں نمازیں پڑھنے کے لیے مسجد میں جایا کریں۔۔۔محلے کے لوگوں کے دُکھ سُکھ میں شریک ہوا کریں۔۔۔ان کے بیٹے اپنے دوستوں میں خوش رہا کریں۔۔۔ان کی بیٹی اپنی مرضی سے عبایہ پہن کر یونیورسٹی جایا کرے ۔۔۔کوئی اُن پر انگلی نہ اٹھائے۔۔۔کوئی انہیں مشکوک نظروں سے نہ دیکھے۔۔۔وہ خوف کی فضا سے نکل کر خوشیوں کے حصار میں آجائیں۔۔۔رمضان کے دنوں میں محلے والوں کو افطاری پر بلائیں۔۔۔بڑی عید پر قربانی کے جانور کو محبت سے گلی گلی گھمائیں۔۔۔لیکن وہ جانتے ہیں ایسا ہونا ممکن نہیں۔
عبداللہ صاحب کون ہیں؟ ۔۔۔میں ان سے نہیں ملا‘ یہ میرے ایک دوست کے دورپار کے رشتہ دار ہیں۔دوست بتا رہا تھا کہ عبداللہ صاحب دو تین سال بعد اُن سے ملنے آتے ہیں ۔ ایک ہفتہ قیام فرماتے ہیں۔۔۔بلند آواز آیتیں پڑھتے ہیں‘ فخر سے نماز پڑھنے مسجد میں جاتے ہیں‘ جی بھر کے بیف کھاتے ہیں‘ مٹن کھاتے ہیں ۔ ہنستے ہیں‘ مسکراتے ہیں‘ ہر ملنے جلنے والے سے پرجوش انداز میں السلام علیکم کہتے ہیں ۔۔۔اور پھر ایک ہفتے بعد اُتاری ہوئی خوف کی چادرپھر سے اوڑھ کرواپس اپنے وطن۔۔۔ بھارت چلے جاتے ہیں!
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔
“