ویلنٹائنز ڈے منانے کے آداب
عشاق حضرات سخت پریشان ہیں۔۔۔کھانا کھانے سے لے کر ٹی وی دیکھنے کے آداب تک کتابیں موجود ہیں لیکن کسی کتاب میں عشق کے آداب نہیں ملتے۔ کچھ شعر البتہ موجود ہیں لیکن اُن میں بھی طریقہ کار سے زیادہ پرفارمنس کو موضوع سخن بنایا گیا ہے۔ایسے میں مناسب معلوم ہوتاہے کہ عشاق کی رہنمائی فرمائی جائے تاکہ وہ ویلنٹائنز ڈے پر زیادہ بہتر طور پر عشق فرما سکیں۔
دوستو بزرگو! چونکہ اِس روز پھول دیے جاتے ہیں لہذا سب سے پہلے تو اچھی طرح ذہن نشین کرلیں کہ پھول سے مراد گلاب کا پھول ہے۔ کئی انجان عاشق ناتجربہ کار ہونے کی وجہ سے محبوب کو سورج مکھی یا گیندے کا پھول بھی پیش کردیتے ہیں اور جواب میں حسب توفیق ذلیل ہوتے ہیں۔ یاد رہے کہ عاشق ناتجربہ کار ہوسکتاہے‘ محبوب بہت تجربہ کار شخصیت ہوتی ہے۔سو پہلے تو اپنی حیثیت کے مطابق گلاب کا ایک پھول یا گلدستہ منتخب کریں اورایک لسٹ بنا لیں کہ کس کس محبوب کو دینا ہے۔ اگر آپ کا محبوب آپ کی بیگم ہے تو پھول کی بجائے خالی پتے سے بھی کام چل سکتاہے لیکن اگر ٹارگٹ کہیں اور ہے تو پھر گلدستہ ضروری ہے۔واٹس ایپ والے پھول ناقابل قبول ہیں۔محبوب اگر آپ کا گلدستہ نیم دلی سے قبول کرے تو سمجھ جائیں کہ اُسے موصول ہونے والے ڈیڑھ سو گلدستوں میں آپ کا گلدستہ سب سے چھوٹا اور ناکارہ ہے۔کبھی محبوب سے یہ نہ پوچھیں کہ ’کیاکسی اور نے بھی تمہیں پھول بھیجے ہیں؟‘‘ بس یوں سمجھ لیں کہ یہ طے شدہ امر ہے کہ محبوب سانجھے ہوتے ہیں۔عین ممکن ہے کسی عاشق کی والدہ بیمار ہوں اور اُن کی دوائیاں لانی ہوں‘ پیسے کم ہوں۔۔۔کوئی مسئلہ نہیں‘ گھر آکر پریشان منہ بنا لیں اور ماں کو بتائیں کہ پیسے کہیں گر گئے ہیں۔ مائیں ایسے موقعوں پر پیسوں کی بجائے اپنے بیٹوں کے چہروں کی پریشانی دیکھ کر سب کچھ بھول جاتی ہیں۔یہ تو اتنی سادہ ہوتی ہیں کہ اِنہیں سال میں ایک دن پھول دینے کی بجائے ان کی پیشانی چوم لی جائے یا اِن کی گود میں سر رکھ کر لیٹ جائیں تو یہ سارا سال اِس خوشی میں نہال رہتی ہیں۔ابا جی ویسے ہی پھول پیش کرنے والی شخصیت نہیں ہوتے‘ انہوں نے تو ہمیں زندگی میں کچھ دیا ہی نہیں ہوتا‘ ہم کسی معجزے کے نتیجے میں خود ہی بڑے ہوجاتے ہیں‘پڑھ لکھ جاتے ہیں اور ذہین ہوجاتے ہیں۔رہ گئے بہن بھائی۔۔۔تو انہیں بھی پھول دینے کی ضرورت نہیں‘ ہوسکتا ہے بھائی خود کسی کو پھول دینے گئے ہوں اور بہن کو پھولوں کی ضرورت ہی نہ ہو۔۔۔!!!
دوبارہ آتے ہیں محبوب کی طرف۔ کئی عشاق یہ بھیانک غلطی کر بیٹھتے ہیں کہ ہر گلدستے پر متعلقہ محبوب کا نام لکھ دیتے ہیں۔ اس سے احتیاط لازم ہے کیونکہ ذرا سی لاپرواہی سے شکیلہ کا گلدستہ جمیلہ کے پاس جاسکتا ہے ۔ویلنٹائنز ڈے پر چاکلیٹ اور کھلونا ریچھ بھی تحفے میں دیا جاتاہے۔غریب عاشق چاہیں تو چاکلیٹ کی جگہ ’گچک‘ اوراپنی تصویر گفٹ کر سکتے ہیں۔اکثر جب عاشق محبوب کو پھول اور تحفہ پیش کرتے ہیں تو ساتھ I love you بھی کہتے ہیں اور پھر منتظررہتے ہیں کہ دوسری طرف سے بھی کوئی رسید ملے گی۔ لیکن عموماً محبوب ساری بات ’’کھی کھی کھی‘‘ کرکے اڑا دیتاہے۔ سو بہترین حل یہ ہے کہ انگریزی کا ایک چھوٹا سا لفظ ساتھ لگائیں اور سکون پائیں۔۔۔یعنی صرف اتنا کہیں کہ I love you too ۔۔۔!!!
جن خوش نصیب عاشقوں کو محبوب کی طرف سے بھی پھول ملتے ہیں اُنہیں چاہیے کہ وہ اس خوبصورت تحفے کے بارے میں بلاوجہ کے سوالات سے پرہیز کریں۔ میرے ایک دوست کی محبوبہ کا گھریلو ماحول بہت سخت تھا‘ موصوفہ میرے دوست کو بتایا کرتی تھیں کہ مجھے تو ویلنٹائنزڈے بہت پسند ہے لیکن ہمارے گھر میں اس کی سخت ممانعت ہے لہذا اِس روز گھر سے نکلنے پر سخت پابندی ہوتی ہے۔ پچھلے ویلنٹائنز پر اُس نے میرے دوست کو چھت کی عقبی سمت سے گلی میں ایک خوبصورت گلدستہ پھینکا۔دوست بہت خوش ہوا‘ تاہم رات ڈیڑھ بجے سوتے میں ہڑبڑا کر اُٹھ بیٹھا اور سوچنے لگا کہ جان من تو ویلنٹائنز ڈے پر گھر سے ہی نہیں نکلی‘ پھر اُس کے پاس گلدستہ کہاں سے آیا؟ بدقسمتی سے یہی سوال موصوف نے اگلے دن محبوبہ سے پوچھ لیا۔۔۔ اگرنہیں یقین تو میں ثبوت کے طور پر آپ کو اپنے دوست کی قبر دکھا سکتا ہوں۔۔۔!!!
اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ ویلنٹائنز ڈے پرعاشق محلے کی ہی کسی دوکان سے پھول خرید لیتے ہیں۔ کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟ حضور بھول کر بھی یہ حرکت نہ کریں۔کم ازکم پانچ کلومیٹر فاصلے والی دوکان سے پھول خریدیں اوردوکاندار سے بھاؤ تاؤ ہرگز مت کریں۔ ہزار دشمن موجود ہوتے ہیں‘ کوئی بھی موبائل سے فوٹو یا وڈیو بنا سکتا ہے لہذا دوکاندار جو مانگے اُسے پیش کریں اور جتنی جلدی ہو لال پھولوں والے اِس ریڈ ایریا سے نکل جائیں۔اگر آپ کے پاس موٹر سائیکل ہے تو گلدستہ ہینڈل کی تاروں میں سجانے کی بجائے سائیڈ والے بیگ میں ڈال لیں کیونکہ عین ممکن ہے راستے میں کسی ویلنٹائن کے سالے سے ملاقات ہوجائے اوروہ گلدستے سمیت آپ کے موٹر سائیکل کا بھی ’انتم سنسکار‘ کردے۔لیکن اگر آپ کے پاس گاڑی ہے تو فکر کاسے کا؟ اطمینان سے ڈگی میں گلدستہ بلکہ گلدستے رکھیں ۔۔۔اب کرنا یہ ہے کہ یہ گلدستے بالکل اسی طرح بانٹنے ہیں جیسے بکرا عید پر گوشت کے پیکٹ بانٹے جاتے ہیں۔عفیفاؤں کے گھروں کی لسٹ بنا لیں اور گوگل میپ سیٹ کرلیں۔جن سے باہر ملاقات طے ہے انہیں ہر دو گھنٹے بعد کا وقت دیتے چلے جائیں۔اکثر عاشقوں کا شکوہ ٰ ہے کہ ویلنٹائنز ڈے پر اُن کا بہت خرچہ ہوجاتاہے۔یہ بالکل سچ ہے لیکن اتنے اچھے تہوار پر ایسی باتوں کے بارے میں نہیں سوچتے۔کالج کی فیس تو پھر بھی ادا ہوسکتی ہے‘ والد صاحب کی وہیل چیئر تو مہینے بعد بھی آسکتی ہے‘ بہن کی شادی بھی تھوڑی لٹک سکتی ہے۔۔۔ویلنٹائنز ڈے تو ایک سال بعد ہی آئے گا۔عاشقوں کو چاہیے کہ ویلنٹائنز ڈے پر سرخ شرٹ ضرور پہنیں ‘ یہ بھرپورپیار علامت ہے۔اللہ بخشے داداحضور میری دادی کا بہت خیال رکھتے تھے‘ آخری وقت تک دادی کے ساتھ اکٹھے کھانا کھاتے تھے‘ دادی کی پسند کی چیزیں لایا کرتے تھے۔۔۔لیکن کبھی انہوں نے سرخ دھوتی یا کرتا نہیں پہنا۔۔۔یقیناًاُن کے دل میں دادی کے لیے سچا پیار نہیں تھا۔ایک اور بات ‘اکثر عاشق یہ سمجھتے ہیں کہ 14 فروری کو اگر انہوں نے اپنے محبوب کو پھول پیش نہ کیے تو قیامت آجائے گی۔ تسلی رکھیں‘ یہ کام 15کو بھی سرانجام دیا جاسکتا ہے‘ 15 کو ویلنٹائنز خواب میں آکر نہیں ڈراتا۔سرخ رنگ کا یہ تہوار مغرب سے آیا ہے لیکن اس سے کیا ہوتاہے‘ انٹرنیٹ‘ ٹی وی ‘ ٹیلی فون‘ پینٹ ‘ شرٹ‘ بجلی‘ عینک۔۔۔یہ بھی تو مغرب سے ہی آئے ہیں‘ مشرق سے توصرف ’’اُلاما‘‘آتا ہے یا فتویٰ ۔ تو بسم اللہ کیجئے۔۔۔غیروں کو پھول دیجئے اور جواباًپیار کے دوبولوں کی خیرات کے لیے ترستے رہئے۔۔۔ رات کو جب گھر واپسی پرسوفیصد اپنے اور دل کی گہرائیوں سے محبت کرنے والے پوچھیں کہ’’اتنی لیٹ؟ خیریت تھی ناں‘ دل گھبرا رہا تھا؟ ‘‘توغرا کر کہئے۔۔۔’’بس بس ! میں کوئی بچہ نہیں۔۔۔‘‘
یہ کالم فیس بُک کے اس پیج سے لیا گیا ہے۔
“