کلاس فیلوز
اگر آپ کچھ لمحے کے لیے زمانے بھر کی ٹینشن سے چھٹکارا پاناچاہتے ہیں تو اپنے سکول کالج اور یونیورسٹی کے کلاس فیلوز کو یاد کیجئے یقیناًآپ کی کلاس میں کوئی ایسا لڑکا بھی پڑھتا ہوگا جو نہایت شریف مشہور ہوگا۔ ایسے لڑکے کلاس میں انتہائی خاموش رہتے ہیں ‘بے حد ڈیسنٹ اورشرمیلے شمارہوتے ہیں‘ اتنے زیادہ کہ کوئی لڑکی مسکرا کر دیکھ لے توٹیچر کو شکایت لگا دیتے ہیں۔ اِن کی پھرتیوں کا تب پتا چلتا ہے جب گھر میں والد صاحب اچانک اِن کا موبائل چیک کرتے ہیں اور جوتی اُتار کر چیختے ہیں’’اوئے بے غیرتا ! اے کی اے؟‘‘۔کلاس فیلوز مختلف مزاج کے ہوتے ہیں۔ کوایجوکیشن میں عموماً لڑکیاں اگلی سیٹوں پر براجمان ہوتی ہیں اور لڑکے پچھلی سیٹوں پر۔میرا دعویٰ ہے کہ یہ ترتیب الٹ دی جائے تو نہ صرف کلاس کا ماحول بڑا پرسکون ہوسکتا ہے بلکہ لڑکیوں کی نسبت لڑکے زیادہ نمبربھی لے سکتے ہیں۔
یاد کیجئے ! آپ کا کوئی کلاس فیلو ایسا بھی رہا ہوگا جو میز بجا کر بہت اچھا گنگناتا ہوگا۔ اُسے رفیع‘ کشور اور مہدی حسن کے تمام گانے یاد ہوں گے۔سب گول دائرے کی صورت اُس کے گرد بیٹھ جاتے ہوں گے اور وہ ڈیسک بجاتے ہوئے ’’دُنیا کسی کے پیار میں جنت سے کم نہیں‘‘سناتا ہوگا جس کے ساتھ سب دوست تالیوں کا میوزک دیتے ہوں گے۔ایسا کلاس فیلو گانے کے درمیان Piece بھی منہ سے ہی بجا لیتا ہے‘ یعنی اگر گا رہا ہو کہ ’’چھنو کی آنکھ میں اِک نشہ ہے‘‘۔ تو خود ہی ’’ٹن ٹنن ٹناں۔۔۔ٹن ٹنن ٹناں‘‘ کہہ کر خالی جگہ پر کرلیتاہے۔اسے عموماً ایک ہی Beat کے گانے یاد ہوتے ہیں‘ کوئی مشکل گانا آجائے تو میز چھوڑ کر صرف سُروں پر دھیان رکھتاہے۔ایسا کلاس فیلو محفل کی جان ہوتاہے‘ ٹرپ پر جاتے ہوئے سب کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ اُن کے ساتھ بیٹھے۔بدقسمتی سے ایسے 90 فیصد کلاس فیلوز جن کے بارے میں ہمیں یقین ہوتا ہے کہ عملی زندگی میں گلوکاری کو ساتھ ساتھ رکھیں گے وہ یا تو سپیئر پارٹس کی دوکان کھول لیتے ہیں یا کسی اچھے عہدے پر پہنچ کر خود پر ایسی سنجیدگی طاری کرلیتے ہیں کہ اگرکبھی زندگی میں سامنا ہوجائے اور اُن سے گلوکاری کی فرمائش کی جائے تو بے اختیار ہاتھ دبا کر کہہ دیتے ہیں’’نہ کریار۔۔۔تیری بھابی کو بتایا ہوا ہے کہ ہم بھٹی ہیں‘‘۔
کلاس فیلو لڑکیاں بھی نہیں بھولتیں۔خصوصاً وہ جو حاصل نہیں ہوپاتیں۔میرے دوست بخاری صاحب کو زمانہ طالبعلمی میں ایک عفیفہ پسند آگئیں لیکن اظہار کی ہمت نہ کرپائے۔ 40 سال بعد اتفاق سے ایک دن کسی محفل میں ملاقات ہوگئی تو حسرت بھرے لہجے میں پوچھا’’شادی ہوگئی؟‘‘۔ جواب ملا ’’جی ہاں۔۔۔اور اتفاق سے وہ بھی بخاری ہیں‘‘۔ بخاری صاحب آہ بھر کر بولے’’آپ کو مسز بخاری ہی ہونا چاہئے تھا۔‘‘ کلاس فیلو لڑکیاں عموماً یونیورسٹی کے دنوں میں انجان‘ معصوم اور لاتعلق سی بنی رہتی ہیں لیکن شادی کے لمبے عرصے بعد اِ ن سے رابطہ ہو تو کلکاریاں مارتی ہوئی بتارہی ہوتی ہیں’’شکیل مجھے سب پتا تھا تم اُس وقت بہانے بہانے سے مجھے دیکھا کرتے تھے‘‘۔
کلاس میں ایک لڑکا ایسا بھی ہوتاہے جو’دُھر‘ ہوتاہے۔دُھر ‘کس کو کہتے ہیں؟یہ سمجھانے کی نہیں دکھانے کی چیز ہے۔ایسا لڑکا عیار کلاس فیلوز کی ہر شرارت کا باآسانی نشانہ بن جاتا ہے۔ہماری کلاس میں بھی ایک ایسا ہی ’دُھر‘ پڑھتا تھا۔ اُسے ایک کلاس فیلو سے عشق ہوگیا لیکن دوسری طرف انتہائی مشکل پاس ورڈ لگا ہوا تھا۔ ایک دن میرے پاس آیا اور کہنے لگا’’یار تم عشقیہ شاعری کرتے ہو‘ مزاحیہ تقریریں کرتے ہو‘ لڑکیوں سے جھٹ فری ہوجاتے ہو‘ یعنی ہر لحاظ سے لوفر ہو۔۔۔مجھے بتاؤ کہ میں فلاں لڑکی کو کیسے متاثر کروں؟‘‘۔ میں نے غور سے اس کی طرف دیکھا’’میرے دوست! اگر تم نے مجھ پر یہ ذمہ داری ڈال ہی دی ہے تو میں تمہیں مایوس نہیں کروں گا‘ لو پھرراز کی بات سنو۔۔۔اُسے سگریٹ پینے والے لڑکے بہت اچھے لگتے ہیں بلکہ وہ تو کہتی ہے کاش کوئی لڑکا سگریٹ کا دھواں میرے منہ پر پھینکے۔‘‘ یہ سنتے ہی وہ گڑبڑا گیا۔۔۔’’لل۔۔۔لیکن میں تو سگریٹ نہیں پیتا‘‘۔میں نے اسے تسلی دی’’مت پیو۔۔۔لیکن ایک کش لگا کر دھوئیں کے غرارے تو کر ہی سکتے ہو۔‘‘ وہ خوشی سے اچھل پڑا’’بالکل کرسکتا ہوں‘‘۔ اگلے دن موصوف نے بڑے اہتمام سے ایک سگریٹ لیا‘ سلگایا اور عین اُس وقت جب مطلوبہ کلاس فیلو کوریڈور سے گذر رہی تھی‘ بھرپور کش لگا کر دُھواں اُس کے منہ پرپھینک دیا۔۔۔میرا یہ دوست اب بہت بڑ ابزنس مین ہے اورمیں اس کی محنت کی مثالیں دیتا پھرتا ہوں کہ دیکھو! دونوں ٹانگوں سے معذور انسان بھی کتنی ترقی کرگیا ۔
اور وہ کلاس فیلو بھی یاد کیجئے جو گیس پیپر ڈھونڈنے میں ماہر تھا۔ امتحانات کے دِنوں میں ساری کلاس اُس کی غلام ہوجاتی تھی۔یہ بڑے طمطراق سے دعوے کرتا تھا کہ پیپر آؤٹ ہوگیا ہے اور اُس کے پاس ہے۔ تاہم اگلے دن جب سوالنامہ سامنے آتا تھا تو پوری کلاس کا دماغ آؤٹ ہوجاتا تھا۔ ایک وہ بھی تو کلاس فیلو تھاناں جو پندرہ اگست کو گھر کی بُنی ہوئی جرسی پہنتا تھا اور 31 جولائی کو اُتارتا تھا‘ جو سخت سردی میں منہ پر وہ والی اُونی ٹوپی پہنتا تھا جس میں سے صرف اُس کی آنکھیں نظر آتی تھیں۔ اِس کے برعکس ایک ایسا کلاس فیلو بھی تھا جسے گرمی بہت لگتی تھی اور دسمبر جنوری میں بھی ’’آدھے بازؤوں والی جرابیں‘‘ پہنتا تھا۔ذہن پر مزید زور ڈالئے۔۔۔وہ کلاس فیلو بھی یاد آجائے گا جو سارے پیریڈ کے دوران اپنے ’دستے‘ پر کسی حسینہ کی تصویر بناتا رہتا تھا اور آنکھیں انتہائی اہتمام سے تخلیق کرتا تھا۔
عین ممکن ہے پرانے کلاس فیلوز کو یاد کرنے سے آپ کو کوئی ایسا کلاس فیلو بھی یاد آجائے جو ہرگز نہیں آنا چاہیے۔لیکن یادوں پر کس کا زور چلتا ہے۔بہرحال کلاس فیلوز میں ایک ایسا لڑکا بھی ہوتاہے جو انتہائی ذہین ہوتاہے‘ ہر ٹیسٹ میں فرسٹ آتاہے‘ ٹیچرز کا چہیتا ہوتاہے اور سب کو یقین ہوتاہے کہ یہ ٹاپ کرے گا۔ یہ ہمیشہ پڑھائی کی بات کرتاہے۔اتوار کے دن بھی کتابیں کھول کے بیٹھ جاتاہے۔کسی غیر نصابی اور غیر کتابی سرگرمی کا حصہ نہیں بنتا۔مشکل سے مشکل پیپر دے کر بھی فاتحانہ انداز میں نکلتاہے۔ یہ ٹاپ بھی کرجاتاہے۔۔۔اور پھر عملی زندگی میں بھی اس کی یہی مشینی روٹین جاری رہتی ہے۔ یاد کیجئے۔۔۔آپ کے ایسے جتنے بھی کلاس فیلوز ہوں گے سب آٹھ سے پانچ بجے تک کے روبوٹ بن چکے ہوں گے۔لیکن ہاں۔۔۔البتہ وہ کلاس فیلوز جو پڑھتے بھی کم تھے‘ سکول سے غائب بھی ہوجاتے تھے‘ پین کی سیاہی آگے بیٹھے لڑکے کی شرٹ پر چھڑک دیتے تھے‘ گھنٹی بجا کر بھاگ جاتے تھے‘ریاضی کے پیپر میں اِدھر اُدھر سے پوچھ کر صرف ’جواب‘ ملا لیا کرتے تھے وہ آج اپنی عملی زندگی میں اپنے اعتماد کی بدولت کتنی کامیابیاں سمیٹ رہے ہیں۔۔۔جب جی چاہتا ہے دوستوں سے ادھار مانگ لیتے ہیں‘ جب جی چاہتا ہے بن بلائے کسی دعوت میں گھس جاتے ہیں اور جب جی چاہتا ہے ’تین پتی‘ کھیل کر مہینے بھر کا خرچہ نکال لیتے ہیں۔کلاس فیلوز جیسے بھی رہے ہوں‘ خوبصورت زندگی کا اثاثہ ہوتے ہیں۔ طویل عرصے بعد ملتے ہیں تو ہم انہیں دیکھ کر قہقہہ لگاتے ہیں کہ ’’یار یہ تم کیا بن گئے ہو‘‘۔ حالانکہ اگر یہ جملہ پہلے ہم نہ کہیں تو یقیناًدوسری طرف سے آسکتا ہے۔اِن کلاس فیلوز کے ساتھ ہماری بہت سی کھٹی میٹھی یادیں وابستہ ہوتی ہیں۔اِن میں سے کئی کے ساتھ ہم بدترین جنگ بھی کرچکے ہوتے ہیں لیکن۔۔۔ماضی کی یہ لڑائی جب زمانہ حال میں یاد آتی ہے توجس سے مارکھائی ہوتی ہے‘ جس کو مارا ہوتاہے۔۔۔اُسی کے لیے دل محبت سے لبالب بھر جاتاہے!!!
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“