قصیدہ کا پس منظر :
مولوی کرم حسین بلگرامی، دربارِ اودھ کی طرف سے کلکتہ میں سفارت کے منصب پر فائز تھے۔ غالبؔ کے قیامِ کلکتہ کے دوران کسی نجی مجلس میں مولوی صاحب نے جیب سے چکنی ڈلی نکالی اور مرزا سے فرمائش کی کہ اس پہ کچھ تشبیہات نظم کیجیے۔ غالبؔ نے فی البدیہہ تیرہ اشعار کہے۔ مولانا حالیؔ نے یادگارِ غالبؔ میں تفصیل سے لکھا ہے۔ بلکہ خود غالبؔ نے حاتم علی بیگ مہرؔ کے نام خط میں اس کا تذکرہ کیا ہے۔
اس قطعہ سے متعلق غالبؔ شناسوں نے کچھ نہیں لکھا۔ صرف چند شروح میں اس پہ مختصر تشریحی نوٹ درج ملتے ہیں۔ بلیغ تشبیہات اور نادر تمثیلات کے اس قطعہ کی شان یہ ہے کہ مشبّہ صرف ایک اور مشبّہ بہٖ کی تعداد 21 ہے۔ اور وجوہِ تشبیہ کی تعداد تیس سے زائد۔ اسی بے مثال قطعے کی تعریف میں آغا باقر نے لکھا ہے کہ اس قطعے کی مثال اردو شاعری میں مشکل سے ملے گی۔ میرے خیال میں بیانؔ میرٹھی نے اپنے قطعے زیرِ عنوان "قطعہ در تشابیہ کوزۂ قند کالپی" میں 36 مشبّہ بہٖ لکھے اور غالبؔ کی ہمسری کی کامیاب کوشش کی ہے۔
——————–۔
ہے جو صاحب کے کفِ دست پہ یہ چکنی ڈلی
زیب دیتا ہے اسے جس قدر اچھّا کہیے
چکنی ڈلی : ایک قسم کی چھالیا، جو دودھ میں پکا کر خَشک کر لی جاتی ہے اور نہایت لذیذ و نفیس ہوتی ہے۔
"قدر" کم و کیف دونوں کو شامل ہوتا ہے۔ لیکن اس شعر میں کیف کے معنیٰ میں ہے۔ صاحب سے مخاطَب، مولوی کرم حسین بلگرامی مراد ہے۔ مفہومِ شعر یہ ہے کہ اس چکنی ڈلی کی جس قدر زیادہ تعریف کی جائے، وہ اسے زیب دیتی ہے۔ کسی بھی مقام پر مبالغہ یا اغراق نہیں پیدا ہوتا۔ وجہِ تحسین یہ کہ ممدوح کی ہتھیلی پہ دھری ہے۔
"اسے" میں ایہام ہے۔ اس کیفیت کو یا اس چکنی ڈلی کو۔ کیفیت سے مراد وہ منظر، کہ چکنی ڈلی ہتھیلی پہ رکھی ہوئی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
خامہ انگشت بہ دنداں کہ اسے کیا لکھیے
ناطقہ سر بہ گریباں کہ اسے کیا کہیے
قلم کا رک جانا گویا حیرانی کا نقشہ ہے۔ اس لیے "انگشت بہ دنداں" کہا۔ نیز "خامہ" کی "انگشت" اور "لکھیے" سے مناسبت ظاہر ہے۔
ناطقہ : جوہرِ نطق، بولنے کی اہلیت، قوتِ بیان۔
یعنی قلم اس کی توصیف لکھنے اور ناطقہ اس کی تعریف بیان کرنے سے عاجز ہے۔ کیا لکھیے اور کیا کہیے میں استفہام براے تحسین ہے۔
بیانؔ میرٹھی نے جو قطعہ اسی طرز پہ لکھا ہے، اس کے دوسرے شعر میں غالبؔ کی ہوبہو نقّالی کرنا چاہی لیکن بات نہ بنی۔ لیکن بیانؔ کے ہاں تقابل مثالی ہے۔
سر فروبردہ تفکر کہ اسے کیا لکھیے
لب فروبستہ تکلم کہ اسے کیا کہیے
۔۔۔۔۔۔۔۔
مُہرِ مکتوبِ عزیزانِ گرامی لکھیے
حرزِ بازوئے شگرفانِ خود آرا کہیے
عزیز : عزیزِ مصر یا رشتہ دار یا صاحبِ فضل آدمی
حرز : تعویذ
شگرفان : شگرف کی جمع ۔ عمدہ، خوب صورتی و زیبائی میں بینظیر ۔ استعارہ ہے حسینوں سے
خود آرا : زیب و زینت اختیار کرنے والے
شعر کا مطلب : اسے عالی جاہ عزیزوں کے خط کی مہر لکھا جائے یا حسینوں کے بازو کا تعویذ۔
"لکھیے" کی مناسبت سے "مکتوب" اور "عزیز" کی نسبت سے "شگرفان" کہا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
مِسی آلود سر انگشتِ حسیناں لکھیے
داغِ طرفِ جگرِ عاشقِ شیدا کہیے
مِسی : آخری انگلی اور درمیانی انگلی کے درمیان والی انگلی کو مِسی کی انگلی کہتے ہیں۔ چونکہ عورتوں میں اسی انگلی سے مسی لگانے کا رواج ہے۔
اسے مِسی آلود انگلی کی پَور کہا جائے یا عاشقِ شیدا کے گوشۂ جگر کا داغ۔
اشکال : داغِ جگر سے تشبیہ مقامِ مدح میں کیوں کر دی؟ جبکہ داغ بدنمائی کی مثال ہے۔
طباطبائی کا جواب : "یہاں محل مدح میں داغ سے تشبیہ کچھ بے جا نہیں ہے اس لئے کہ اگر سرانگشت مسی آلود حسینوں کے لئے باعثِ زینت ہے تو داغِ جگر عشاق کے واسطے سبب تزئین ہے" (شرح دیوانِ اردوے غالب، صفحہ 549)
انگشت" کی مناسبت سے "لکھیے" کہا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
خاتمِ دستِ سلیماں کے مشابہ لکھیے
سرِ پستانِ پریزاد سے مانا کہیے
سلیماں : حضرت سلیمان علیہ السلام یا مطلق شاہ کے معنیٰ میں ہے۔ بادشاہ کے ہاتھ کی انگوٹھی (جس پہ اسمِ اعظم نقش تھا) کے مشابہ لکھیے۔ یا حسینوں کے سرِ پستان جیسا کہا جائے۔ "دست" اور "لکھیے" میں مناسبت عیاں ہے۔ "سلیمان" اور "پریزاد" میں مراعاۃ النظیر ہے۔ "خاتم" اور "سرِ پستان" میں مشابہت بھی واضح ہے۔ نیز سرِ پستان کی ازروے رنگت چکنی ڈلی سے خوب مماثلت ہے۔
دوسرے مصرعے میں تشبیہ عجیب ہے، بیانؔ نے "ناربیدانۂ پستانِ زلیخا" کے ذریعے چُست چھاتی کا جو نوشہ کھینچا ہے، لاجواب ہے۔ لیکن بین المصرعَین مراعاۃ نہ پیدا ہو سکی۔
طباطبائی کا اعتراض : ”مذاقِ اہلِ اردو میں یہ لفظ نامانوس ہے۔ فارسیت مصنف کی یہاں غالب آ گئی ہے کہ لفظِ مانا کو اردو میں قابلِ استعمال سمجھے“۔ (شرح دیوانِ اردوے غالبؔ، صفحہ 249)
طباطبائی کا اعتراض درست نہیں۔ کیوں کہ لفظِ مانا بمعنیٰ مشابہ غالبؔ سے پہلے میرؔ، سوداؔ اور قائم چاند پوری بھی باندھ چکے ہیں۔
سوداؔ (قصیدہ لامیہ) کا شعر ہے :
یاسمن رنگ جو رکھتی ہے خزاں سے مانا
چاہتی ہے بہ سماجت کرے سبزے سے بدل
میرؔ (دیوانِ اول) کا شعر :
زمیں اک صفحۂ تصویر بیہوشاں سے مانا ہے
یہ مجلس جب سے ہے اچھا نہیں کچھ رنگ صحبت کا
قائم نے تو تین مرتبہ استعمال کیا ہے۔ ایک شعر لکھتا ہوں :
روز عشرت کا کبھو رکھتے تھے ہم بھی قائم
لیکن ایسا کہ جو مانا تھا شبِ ماتم سے
غالبؔ کے معاصرین میں مولوی علی بخش شرر بدایونی نے پیچوان کی رسید میں جو قطعہ غالبؔ کی زمین میں تحریر کیا ہے، اس میں بھی یہ لفظ انھی معنیٰ میں ہے :
قبّۂ عرشِ معلیٰ کے مشابہ لکھیے
اور لطافت میں مہ و مہر سے مانا کہیے
(مندرجہ بالا چاروں اشعار ظفر احمد صدیقی نے شرحِ طباطبائی کے حاشیے سے درج کیے ہیں۔)
بیان میرٹھی نے بھی زیرِ عنوان "قطعی در تشابیہ کوزۂ قند کالپی" میں یہ لفظ اسی معنیٰ میں استعمال کیا ہے :
کیوں اسے کیسۂ دلّاک سے دیجے تشبیہ
کیوں اسے بوتۂ سبّاک سے مانا کہیے
بطورِ استشہاد ان اشعار کے بعد طباطبائی کا اشکال رفع ہوتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
اخترِ سوختۂ قیس سے نسبت دیجے
خالِ مشکینِ رُخِ دل کشِ لیلیٰ کہیے
اخترِ سوختۂ قیس : قیس کی قسمت کا جلا ہوا ستارہ۔
مشکیں : یں نسبتی ہے، مشک بھرا
لیلیٰ : عرب کی ایک روایتی معشوق کا نام
اسے قیس کا جلا ہوا نصیبہ سمجھیے یا لیلیٰ کے دلکش چہرے کا عطر بیز تِل کہیے۔
اخترِ سوختہ کہہ کر صرف ڈلی کا رنگ اس میں ثابت کیا ہے۔ ورنہ سوختگی کا جواز نہ تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
حجر الاسودِ دیوارِ حرم کیجے فرض
نافہ آہوئے بیابانِ خُتن کا کہیے
اسے دیوارِ کعبہ پہ نصب حجر الأسود فرض کیجیے یا بیابانِ ختن کے آہو کا نافہ کہا جائے۔ ڈلی کو "حجر الاسود" اور ہتھیلی کو "دیوارِ حرم" سے تشبیہ دی۔
طباطبائی معترض ہیں کہ : "حجرالاسود کو نافۂ آہو سے یا دیوارِ حرم کو بیابانِ ختن سے کچھ مناسبت نہیں" (طباطبائی صفحہ 550)
یہاں طباطبائی کا ذہن اس طرف نہ گیا کہ آہو اور حرم کی مناسبت ہماری شعری روایت کا حصہ ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
وضع میں اس کو اگر سمجھیے قافِ تریاق
رنگ میں سبزۂ نو خیزِ مسیحا کہیے
اسے بہ ہیئتِ کذائی قافِ تریاق سمجھیے یا رنگ میں مسیحا کا سبزۂ نوخیز کہیے۔
شاداںؔ نے شرحِ طباطبائی میں زیرِ بحث شعر کے حاشیے میں لفظِ "مسیحا" کے محلّ استعمال پہ اعتراض کیا ہے۔ غالباً ان کا ذہن اس طرف نہ گیا کہ تریاق اور زہر میں مناسبت ہے، زہر کی موت سے اور موت کی مسیحا سے۔ یا تریاق کی مَرَض سے اور مَرَض کی مسیحا سے نسبت ظاہر ہے۔
"قافِ تریاق" دو وجہ سے کہا :
01: ڈلی کی شکل ق جیسی ہے، یعنی نیم بیضوی
02: قاف "تریاق" کا ایک حرف ہے۔ یعنی چکنی ڈلی زہر کی دوا بنانے کے کام آتی ہے۔ زہر دور کرنے کے لیے جو تریاق بنایا جاتا ہے، ڈلی اس کا جزوِ حتمی ہے۔
نسخۂ مہر میں "اگر سمجھیے" کی بجائے "سمجھ لیجیے" ہے۔ شاید یہ مہر کی اصلاح ہو۔ کیوں کہ طباطبائی نے "سمجھیے" پہ اعتراض وارد کیا ہے کہ "سمجھیے" میں میم کو ساکن باندھنا خلافِ محاورہ ہے۔ نسخۂ مہر کے علاوہ کسی بھی نسخے میں یوں مذکور نہیں۔
بیخودؔ موہانی نے طباطبائی کے اس اعتراض پر استدراک کرتے ہوئے لکھا ہے کہ "سمجھیے" کو میم ساکن کے ساتھ سوداؔ، آفتاب اور مؤمنؔ بھی باندھ چکے ہیں۔ لہٰذا یہ محاورۂ اردو کے خلاف نہیں۔ بیخودؔ کی پیش کردہ شہادتیں دیکھیں :
سوداؔ کا شعر :
وید کچھ منع نہیں عیشِ جہاں کا پر اسے
سمجھیے گر نہ تماشاے سرِ راہ غَلَط
ایضاً :
صاحبِ توقیر سوداؔ کو نہ ہرگز سمجھیو
ایک وہ رسوا، خرابِ کوچہ و بازار ہے
آفتاب کا شعر :
آئے جو خواب میں بھی وہ یوسف لقا تو پھر
اے آفتاب! دولتِ بیدار سمجھیے!
مؤمنؔ کا شعر :
بیاں کرتا ہے ہکلانے کا اس بدمست کے عالم
ولے کیا سمجھیے پیچیدہ ہے تقریر شیشے کی
اس استدراکی نوٹ کو ظفر احمد صدیقی نے شرح طباطبائی کے حاشیہ میں بھی نقل کیا ہے۔ (شرح دیوانِ اردوے غالبؔ، صفحہ 551)
۔۔۔۔۔۔۔۔
صَومعے میں اسے ٹھہرائیے گر مُہرِ نماز
مے کدے میں اسے خشتِ خُمِ صہبا کہیے
صومعہ : تارک الدنیا درویشوں کی خلوت گاہ، مجازاً مسجد
مُہرِ نماز : سجدہ گاہ یا جبین پر نشانِ سجدہ
مسجد میں اسے ماتھا ٹیکنے کی جگہ سے تشبیہ دی جائے یا میکدے میں شراب کے مٹکے کے اوپر رکھی جانے والی اینٹ کہا جائے۔
شارحین نے "مہرِ نماز" سے سجدہ گاہ مراد لیا ہے۔ میرے خیال میں سجدہ کرنے کی جگہ مراد لینا درست نہیں۔ کیوں کہ سجدہ سات اعضاء [حاشیہ : 01] پہ ہوتا ہے۔ سوائے نشان سجدہ کے، جو ماتھے پہ بنتا ہے، چکنی ڈلی کی کسی اور عضو یا شے سے تشبیہ نہیں بنتی۔ اس صورت میں "صومعہ" صرف نماز کی نسبت سے ہوگا، یعنی زائد۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
کیوں اسے قُفلِ درِ گنجِ محبّت لکھیے
کیوں اسے نقطۂ پَرکارِ تمنّا کہیے
کیوں اسے خزینۂ محبت کے دروازے کا قُفل سمجھا جائے۔ اور کیوں پرکارِ تمنّا کا نقطہ کہا جائے۔ یعنی دائرے کا انحصار مرکزی نقطے پہ ہوتا ہے۔ ڈائرے کا خط جس سمت بھی کھینچا جائے، وہ مرکز کے گرد ہی رہتا ہے اور برابر فاصلے پر رہتا ہے۔ یونہی چکنی ڈلی وہ نقطہ ہے کہ تمام تر تمناؤں کے خطوط اس کے گرد گھومتے ہیں۔ لیکن اسے تمنّاؤں کا مرکز نقطہ بھی کیوں کہیں؟
”قدیم رواج ہے کہ پان سپاری سے احباب کی تواضع کی جاتی تھی، اور تواضح محبت کی علامت ہے۔ اسی لیے "گنجِ محبت" کہا“۔ شہاب الدین مصطفیٰ
”کیوں لکھیے“ اور "کیوں کہیے" میں استفہام برائے تردید ہے۔ یعنی چکنی ڈلی کو ایسا کیوں کہیں، یہ تو ان سے بھی برتر ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
کیوں اسے گوہرِ نایاب تصوّر کیجے
کیوں اسے مردُمکِ دیدۂ عَنقا کہیے
عَنقا : ہر وہ چیز جو دستیاب نہ ہو بلکہ صرف ذہن و خیال کی قید میں آ سکے۔
کیوں اسے گوہرِ نایاب خیال کیا جائے؟ اور کیوں اسے دیدۂ عَنقا کی پتلی کہا جائے؟ اس کی شان ان دونوں میں کہاں۔
نایاب کی مناسبت سے "عَنقا" کہا۔ نایاب یہاں قیمتی کے معنیٰ میں ہے۔ کیوں کہ مشبّہ (چکنی ڈلی) کفِ دست پہ موجود ہے۔ یہ امر مسلَّم ہے کہ جو چیز جس قدر نایاب و نادر ہوگی، اس کی قدر و قیمت بھی زیادہ ہوگی۔ شاعر نے چکنی ڈلی کا بیش قیمت ہونا یا صرف ایک ہونا بیان کیا ہے۔ عَنقا سے متعلق ایک روایت یہ بھی ہے کہ اس کا وجود ہے، لیکن روئے زمین پر اب تک اس کا صرف ایک فرد پایا گیا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
کیوں اسے تکمۂ پیراہنِ لیلیٰ لکھیے
کیوں اسے نقشِ پئے ناقۂ سلمیٰ کہیے
کیوں اسے لیلیٰ کے پیراہن کا بٹن لکھیے۔ اور کیوں اسے ناقۂ سلمیٰ کا نقشِ قدم کہیے۔
بعض مقامات پر پیراہن کاغذ سے استعارہ ہوتا ہے، اسی مناسبت سے "لکھیے" کہا۔ اونٹ کے پاؤں کی گدیلیوں کی ہیئت ڈلی سے مشابہ ہوتی ہے۔
بیانؔ نے "قالبِ صنعتِ رخسارۂ سلمیٰ" کہا لیکن جو بلاغت اور لطف "نقشِ پئے ناقۂ سلمیٰ" میں ہے، جواب نہیں۔ کیوں کہ غالبؔ نے صُوری تشبیہ میں رنگ کا لحاظ بھی رکھا ہے، بیانؔ نے صرف صُوری یا مقداری تشبیہ کا حوالہ دیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
بندہ پرور کے کفِ دست کو دل کیجیے فرض
اور اِس چِکنی سُپاری کو سُویدا کہیے
مندرجۂ قبل چھ تشبیہات کو رَد کرکے آخر پہ بطورِ اختصارِ کلام یہ شعر کہا۔
سویدا داغِ دل کو کہتے ہیں۔ باقی مفہومِ شعر صاف ہے۔
طباطبائی کا کہنا : "لکھنؤ کی زبان میں ڈلی کو اب سپاری کہنا مکروہ سمجھتے ہیں" (صفحہ 552)
شاداںؔ کا جواب : کیوں کہ اردو میں حشفہ (مرد کے عضوِ تناسُل کا سِرا) کے معنیٰ میں بھی ہے۔
لکھنؤ میں مکروہ ہو نہ ہو، پاکستان میں چھالیا اور سپاری دونوں لفظ بولے جاتے ہیں۔ دائمؔ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حاشیہ
[01] الشیخ ابو الإخلاص عمار بن حسن بن علی الشرنبلالی لکھتے ہیں :
وَ یَتَحَقَّقُ بِوَضْعِ الْیَدَیْنِ وَالرُّکْبَتَیْنِ وَالْقَدَمَیْنِ وَالْأَنْفِ مَعَ الْجَبْھَةِ۔
(إمداد الفتاح شرح نور الايضاح للشرنبلالی، کتاب الصلاۃ، باب : شروط الصلاۃ، فصل : أحکام السجود، صفحہ 254)