سیاہ تارکول کی پختہ سڑک پر الہڑ جمنی رواں دواں تھی ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھے شازم نے کھڑکی سے باہر دیکھا اور پھر کلائی پہ بندھی گھڑی میں وقت ۔۔۔اوہ ۔۔۔۔ابھی تو سفر کافی طویل ھے اور راستہ انجان ۔۔۔مگر لبوں پہ دھیمی مسکان اور دل میں کیف و سرور کسی اپنے سے ملن کا جس نے طویل مسافت کو بھی خاطر میں نا آنے دیا موسم کی سختی بھی رکاوٹ نا بن سکی ۔۔۔اوائل دسمبر کے دن فضا میں اچھی خاصی خنکی سورج ابھی پھانک بھر ہی نکلا تھا ۔
جانے اسکا شہر کیسا ھو گا ڈرائیونگ کے دوران وہ خود سے بولا ۔۔۔جیسا بھی ھو گا اب تو اپنا ہی ھو گا خود کو جواب پہ وہ مسکرادیا ۔
شازم پیشہ ور سول انجینئر تھا گھر سے دور کالج کے ہاسٹل میں بھرپور زندگی گزاری تھی کالج کی دوستیاں تو صرف ٹائم پاس کرنے کے لئے ھوتی ہیں اسی سوچ کے ساتھ جذبے جوان ڈگری آسان زندگی رواں ھوتی رہی اور چار سالوں میں اس نے پلٹ کر نہیں دیکھا کہ جنہیں چھوڑ دیا جائے ان کا کوئی حال باقی رہتاھے ،زندگی کے تمام ذائقوں سے اسے آشنائی رہی اس راستے پر وہ آگے بڑھتا چلا گیا کوئی روکنے والا تھا نہیں وہ چلتا رہا یہی ڈگر، اسی لئے دل کسی کی طرف مائل ھوتا ہی نا تھا سب مایا لگنے لگا تھا ۔۔پڑھائی مکمل ھوئی تو گھر چلا آیا قسمت نے یہاں بھی ساتھ دیا ہوم ٹاون میں ہی سرکاری دفتر میں انجینئر ھو گیا اب تو کام کے ساتھ ٹھاٹھ بھی تھے کبھی آفس ورک تو کبھی فیلڈ ورک جو وقت بچتا وہ برقی دنیا انٹرنیٹ پر سیر کرتے گزرتا کتابی چہرہ ( فیس بک ) اور کتابی چہروں کا تو وہ تھا ہی شیدائی۔۔۔ برقی دنیا پہ اس کا پسندیدہ شغف کتابی چہرہ تھا ایک سال قبل جب وہ فائنل ائیر میں تھا اسوقت ایک اندازے کے مطابق لگ بھگ اربوں نہیں تو کروڑوں لوگ اور روزانہ 50 لاکھ جغرافیائی حدبندیوں سے مبرا افراد اس پیج کو وزٹ کرتے ھوں گے ۔اور ہر اسٹیٹس پر سینکڑوں اپنی رائے و تبصرے بھیجتے ھوں گے ۔
اس سوشل پیج پہ شازم کی شناسائی بڑھ کر آشنائی اور پھر آگے ہی آگے کا سفر ایک سے دو،دو سے چار اور گنتی بڑھتی ہی گئی اچانک بریک لگا چلتے چلتے رک جانا پڑا اور یہ رکنا اسے زندگی کے اصل حسن سے آگاہی دے گیا اب وہ شجر کو بھلانا نہیں چاہتا تھا دن ھو یا رات کوئی بھی موسم ھو کیسی بھی روٹین ھو جانے انجانے وہ اسی کو سوچنے لگتا وہ رات کی رانی کی مہک جیسی لڑکی کب اس کے حواسوں پہ چھاتی چلی گئی جو خواب بھی سنسر پالیسی کو مدنظر رکھتے ھوئے دیکھا کرتی ھے ۔۔۔
سوشل پیجز خاص کر فیس بک کی دوستیاں کم ہی قابل اعتبار ھوا کرتی ہیں چیک آئی ڈیز کےساتھ بھی اس نیٹ ورک کے ذریعے لوگ ایک دوسرے سے تبادلہ خیال کرتے ہیں ۔
" حالات ٹھیک نہیں شازم ۔۔۔۔ یہاں مت آنا "
وہ جب شجر سے ملنے کی خواہش کا اظہار کرتا شجر کا جملہ یہی ھوتا ۔۔خبروں کے ذریعے معلوم تو ھوتا رہتا تھا اسے مگر یہ سوچ کر کہ ھو سکتا ھے وہ مجھے ہزار گیارہ سو کلو میٹر دور طویل سفر سے روکنا چاہتی ھو ۔۔۔۔"اف " شجر ! تمہیں کتنا خیال ھے نا میرا۔میں جو ایک آزاد پنچھی صرف اڑنا جانتا تھا ٹھہرنا نہیں مگر یہاں خیال اور سوچ نے پلٹا کھایا کہ چلتے چلتے کہیں رک بھی جانا ھوتا ھے جہاں احساس ھوتا ھے کہ آگے چلنا تو ضرور ھے لیکن کسی کو ساتھ لیکر اور آج وہ مقام بھی آگیا میری زندگی میں کہ میں رک گیا ٹھہر گیا۔۔۔
پڑاو چاہتا ھوں شجر ، تمہیں ساتھ لیکر آگے چلنے کے لئے اس ساتھ کا الگ مزہ ،بہت چاشنی ھے ۔
چلوگی نا میرے ساتھ ،۔۔۔۔۔؟
مجھے بتانا ھے کہ تم بہت اچھی مثبت سوچ اور سوفٹ نیچر ھو جو مجھ جیسے بندے کو سیدھا رکھ سکتی ھے ۔۔راضی کرنے میں ہمیشہ پہل کرنے والی ،جلد مان جانے والی
شجرتہ الدر ۔۔۔۔جو میرے لئے سب کاموں سے اہم اور اولین ترجیح ھے جسکو اپنے گروپ اپنے موبائل ،فیس بک سے
فرینڈ لسٹ سے زندگی سے دل سے نکال دوں تو میں ۔۔۔میں نہیں رہوں گا میری ہر چیز میں بس تم ھو شجرتہ الدر جس کی ڈال ڈال پھولوں سے لدی ھو ۔۔۔میری زندگی کے سب رنگ وساز اسی سے ہیں ۔۔۔تم سے مل کے تمہیں بتانا ھے ۔۔۔۔
مگر اس بار تمہاری ناراضی طویل ھو گئی ھے اور فون بھی اٹینڈ نہیں کررہیں ۔۔۔
بہت شدید ناراض لگتی ھو ۔۔۔حق بھی ھے ۔۔۔میں نے انسلٹ بھی تو بہت کی ھے ۔۔آج میں یہ برملا تسلیم کرتا ھوں کہ اب شعور و تعلیم کی ضرورت آج کے مرد کو ھے ۔۔عورت کو جو شعور آج کے دور کے حوالے سے درکار تھا وہ اسے سمجھ چکی ھے ۔۔۔۔خود کلامی بھی کبھی کبھی نعمت سے کم نہیں ھوتی اکیلاپن مٹا دیتی ھے ۔۔۔آج وہ خود سے ہم کلام تھا ۔
"جو باتیں جو جذبے میرے اندر کہیں گم ھو چکے تھے جانم تیری اس دوری اس ناراضی نے اجاگر کردئے ہیں "
" میں منالوں گا ۔۔۔۔جانے نہیں دوں گا کہیں بھی اپنے علاوہ تمہیں ۔۔۔۔تم تو اب بھی میرے ساتھ فرنٹ سیٹ پہ موجود ھو ۔۔۔۔"
اس نے مسکراتے ھوئے اپنے بائیں جانب سیٹ پہ دیکھا یوں جیسے وہ یہیں تو بیٹھی ھے ۔۔۔نظر ونڈ اسکرین سے چوکی تو سامنے والی گاڑی کے ہارن نے خوب صورت یادوں، خیالوں سے چونکایا ۔۔اس سفر میں آج پانچ سو کلو میٹر کے سفر میں کوئی دس بار تو ایسا ھوا کہ شازم کو شجر اپنے آس پاس حصار میں لئے محسوس ھوئی اور سڑک سے دھیان ہٹا بس یوں لگا کہ گاڑی اب بے قابو ھوئی کہ
تب ھوئی ۔اچھی خاصی جیپ تھی لانگ روٹ کے لئے جس نے یہ جھٹکے سہے راستہ اگرچہ ابھی پتھریلا شروع نہیں ھوا تھا ابھی تو وہ سرسبز پہاڑی علاقے میں ہی محو سفر تھا آگے پہاڑی پتھریلا چٹانی راستہ انجان بھی اور طویل بھی ۔۔۔۔اور سفر بھی پہلی بار ۔۔۔۔مگر اپنی چاہت کے لئے یہ مسافت تو کیا ۔۔زندگی بھر سفر کرسکتا ھوں ۔۔شرط یہ ھے کہ ہم سفر شجر ھو۔۔۔۔"مجھے یقین ھے کہ تم مجھ سے ناراض رہ ہی نہیں سکتیں شجر ۔۔۔مجھے دیکھتے ہی اپنی مخصوص ہنسی میں کہو گی " شازم !تم سے کیا ناراض ھونا "
ایک بار پھر سامنے آتی گاڑی نے ہارن دیا تو شازم نے جمنی سڑک کے ایک جانب روک دی کچھ دیر سستانے کو۔" حالات ٹھیک نہیں یہاں ۔۔۔۔تم نہیں آنا ۔۔۔" ایک بار پھر سرگوشی ابھری ۔۔۔یہ وہ جملہ تھا جو ہمیشہ شجر کی زبان پہ رہتا ۔۔۔
" تیرا کتنا خیال ھے اسے ۔۔۔ہر لڑکی میں مامتا ھوتی ھے اپنے چاہنے والوں کے لئے یونہی ہولتی رہتی ہیں ۔۔۔۔اب بھلا بتاو تو ۔۔۔۔۔حالات سے میرا کیا لینا دینا ۔۔۔مجھے تو تمہیں منانا ھے ،منا کے لانا ھے اپنے گھر ۔۔۔۔گھر میں اجالا کرنا ھے ۔۔۔زندگی میں رنگ بھرنا ھے ۔۔۔۔"
" کتنے پیار سے کتنے مان سے اس نے پوچھا تھا ۔۔۔
میرے ہو "؟
اور میں نے کیا کردیا ۔۔۔
کیا کہہ دیا
"ٹھنڈی ھو "
"تو چھوڑو " نروٹھے پن سے جواب آیا
" ہے ۔۔ماروں گا " شازم نے گھبرا کے آنکھیں کھولیں گویا سچ میں ساتھ چھوٹا ھو ۔۔۔جیسے رگوں سے خون نچڑ گیا ھو ۔۔۔
" تم مجھے آنے سے کیوں روکتی ھو " ؟
" تمہیں راستہ نہیں معلوم ، انجان ھو ، اس لئے "
" میرا ہر راستہ تمہاری سمت جاتا ھے اور تم جانم ھو انجان نہیں "
"میں سیریس ھوں " جواب آیا
" میں بھی تو دل و جان سے سیریس ھوں تمہارے لئے ، تمہارے ۔۔سا۔۔۔۔تھ "
" شازم پلیز "
"جی جان شازم ۔۔۔۔۔۔"
تقریبا" وغیرہ سو کلو میٹر دور بیٹھے ھووں کے درمیان محبت ۔۔جو کسی موسم ،پابندی ، سرحدی یا جغرافیائی حد بندیوں سے آزاد ۔۔
ہلکی سی بپ کے ساتھ موبائل کی اسکرین پہ میسج
دھڑکا ۔۔اسٹیٹس پہ پروفائل تصویر بھی جگمگا رہی تھی ۔۔۔
" کہاں ھو تم ۔۔۔۔؟"
دل کے سنطورچھڑے ۔۔۔۔
سا سا سا رے گا گا ما ۔۔۔۔۔
" کوئٹہ سے 45 کلو میٹر کی دوری رہ گئی ھے صرف پینتالیس کلو میٹر پھر میں وہاں میں وہاں میں وہاں "
"کیا کہا ۔۔۔۔۔؟" تم یہاں کوئٹہ آگئے ھو ۔۔۔۔؟" مگر میں نے تمہیں منع کیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔شجرتہ الدر نے پریشان ھو کے کال کرلی
" کیا ھوگیا ھے شجر تمہیں ۔۔۔۔؟" نا سلام دعا نا ویلکم ۔۔۔۔تمہیں تو خوش ھونا چاہئیے میری آمد پر ۔۔شازم اپنے مخصوص پرسکون لہجے میں ملن کی خوشی سے سرشار بولا
" عصر کا وقت ھو رہا ھے ۔۔۔یعنی تمہیں مزید ایک گھنٹہ لگےگا یہاں پہنچنے میں ۔۔۔۔مگر ۔۔۔۔اچھا چھوڑو ۔۔۔۔تم اجاو پھر بات ھو گی" ۔۔شجرتہ الدر نے کچھ سوچتے ھوئے بات ختم کی
" اوکے شکر ھے تم نے آنے کا تو کہا ۔۔۔۔ورنہ میں تو سمجھ رہا تھا کہ یہیں سے واپس نا جانا پڑ جائے لمبے سفر پر دوبارہ ۔۔۔۔ہا ہا ہا ۔۔اپنی بات پہ اس نے قہقہ لگایا ۔۔۔
"فی الحال خدا حافظ "
فون بند کرکے شازم نے چائے کے لئے ہوٹل کے سامنے گاڑی روکی ۔۔۔موسم میں شدید خنکی بلکہ بریلی ھوا تھی ۔۔تھکاوٹ کا غلبہ ھو رہا تھا ۔۔ہارن بجا کے گاڑی میں ہی چائے کا آرڈر دیا ۔۔۔اندھیرا ہونے لگا تھا کافی سنسانی تھی اطراف اور ماحول میں ۔۔۔دور دور تک سڑک پہ کوئی گاڑی نظر نہیں آرہی تھی ۔۔ہوٹل کی ننھی عمارت بھی کچھ زیادہ ہی اداس لگ رہی تھی ۔۔۔۔۔چائے کا پہلا گھونٹ ہی بھرا تھا کک چند افراد گاڑی کے اس پاس نظر آئے جن میں سے ایک نے اسٹیئرنگ پہ ہاتھ مارا اور شازم سے شناختی کارڈ دکھانے کو کہا ۔۔۔
شازم نے کارڈ حوالے کیا اور اجنبی کے چہرے کی طرف دیکھا ۔۔۔اسے نامعلوم سی بےچینی محسوس ھوئی ۔۔
" ہمممممم ۔۔۔۔تو یہاں کے نہیں ھو ۔۔۔۔؟"
" جی ہاں ۔۔پہلی بار آیا ھوں ۔۔۔اور شازم کی بات ادھوری رہ گئی ۔۔۔۔
"بس بس شناخت کے لئے اتنا کافی ھے ۔۔۔" کارڈ کی طرف اشارہ کرتے ھوئے اجنبی بولا
ساتھی نے گن سیدھی کی شازم کو ریڑھ کی ہڈی میں سنسناہٹ محسوس ھوئی ۔۔۔
"مگ۔۔۔رررر ۔۔۔می ۔۔۔را ۔۔۔قصور ۔۔۔ت۔۔۔و ۔۔۔۔؟"
بات ادھوری ہی رہی اور مشین گن کے شعلوں نے تمام بے قصوری و بے گناہی کو بالائے طاق کرتے ھوئے ۔۔۔ایک بے بس ۔۔۔ نہتے ۔۔۔۔باشعور شخص کو گیارہ سو کلو میٹر سفر کرنے ، محبت کرنے کے سزا دےدی ۔۔۔
وصال کا لمحہ ۔۔۔۔قیامت کی گھڑی ۔۔۔۔ہر شے کا وجود مٹ چکا تھا
اگر کچھ باقی تھا تو صرف لمحہ ء موجود ۔۔۔محب اور محبوب کے وصال کا لمحہ ۔۔
گردش وقت ٹھہر چکی تھی ۔۔۔۔۔
مگر ۔۔۔۔
بریکنگ نیوز ہر چینل پہ چل رہی تھی
" نامعلوم افراد کی فائرنگ "
"شناختی کارڈ دیکھنے کے بعد نامعلوم افراد نے نوجوان مسافر کو فائرنگ کر کے ہلاک کردیا ۔۔۔۔صوبے میں اب تک جاں بحق ہونے والے افراد کی تعداد میں روز بروز اضافہ ۔۔۔۔۔۔
مغرب ھو رہی تھی دونوں وقت جب ملتے ہیں تو یہ گھڑیاں نہایت مختصر ھوتی ہیں ۔۔۔چاند کی قاش ابھی ابھری تھی ۔۔۔پہلی رات کا چاند ۔۔۔۔ایک کا آنا دوسرے کے جانے کا اعلان کرتا ھے ۔۔۔سورج جا چکا تھا ۔۔۔
دونوں کی تقدیر میں بھی یہی لکھا تھا ۔۔۔۔
گشت پر موجود سیکیورٹی اہلکار نے ٹارچ کی روشنی شازم کے چہرے پر کی ۔۔۔اسکی کھلی آنکھیں بے نور ضرور تھیں لیکن ان میں سکون نظر آرہا تھا ۔۔۔۔۔
ایسا لگ رہا تھا جیسے کہہ رہی ھوں
" دیکھا نا میرا عشق۔۔۔ "
" ہجرکی طویل مسافرت کے بعد چند لمحوں کا وصال "