مرزا محمد یاسین بیگ صوبہ جموں کے بہترین نظم نگار اور ولولہ انگیزشاعر
اشعار آبدار
دھوپ تھی اک ریگ ِدریا تھا ،شجر کوئی نہ تھا
راستہ ہی راستہ تھا ، ہم سفر کوئی نہ تھا
سب معانی منتظر تھے وہ کہے گا کچھ نہ کچھ
اور اسکے پاس حرفِ معتبر کوئی نہ تھا
راستے میں خون کی پھیلی ہوئی تازہ لکیر
کھڑکیاں خاموش تاحد نظر کوئی نہ تھا
میں اکیلا ہی منصفوں کی بھیڑ میں
ان پہ میری بے گناہی کا اثر کوئی نہ تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شہرِبےسنگ میں رہنے کااثر لگتا ہے
مجھ کو ہر شخص یہاں آئینہ گر لگتا ہے
ھو کا عالم ہے پرندہ نہ کوئی آدم زاد
پھر اسی راہ سے لشکر کا گزرلگتا ہے،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شہرِ بے سنگ میں رہنے کا اثر لگتا ہے
مجھ کو ہر شخص یہاں آئینہ گر لگتا ہے
شام دفتر سے نکلتا ہوں تو گھر تک جانا
ریگزاروں میں قیامت کا سفر لگتا ہے
میں ترے اخلاص سے واقف ہوں مگر
مجھ کو اس خواب کی تعبیر سے ڈر لگتا ہے
زخم ہی زخم ہیں ،ویرانی ہی ویرانی سی
اپنے اندر جو اترتا ہوں تو ڈر لگتا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نشاط باغ ، پرندے ،چنار کی خوشبو
اتر کے آئی ہے اک کہسار کی خوشبو
جو بھیجنا کبھی چاہو تو بھیجنا مجھ کو
شگوفے سیب کے بدن زار کی خوشبو
زباں پہ جبر کے پہرے لگے ہوئے ہیں لیکن
رگوں میں دوڑتی ہے اختیار کی خوشبو
سیاہ خیمے سے اٹھتی ہوئی دھوئیں کی لکیر
دلِ غریب میں اپنے دیار کی خوشبو
۔۔۔۔۔۔۔
نئی زمیں، نیا کوئی آسماں ڈھونڈوں
جو مجھ پہ آگ نہ اُگلے،وہ کہکشاں ڈھونڈوں
کسی کی راہبری میرے کام نہ آئے
جومنزلوں پہ نہ ٹھہرے وہ کارواں ڈھونڈوں
۔۔۔۔۔۔
ان پرندوں کو لے گئی اس پار،
خوش مقامی کی آرزو شاید
زور سے بولنے لگے ہیں لوگ
مل گیا اذنِ گفتگو شاید
تمام رنگ شکستہ بہار خوف زدہ
چمن چمن شجر سایہ دار خوف زدہ
اداسیوں کی دھنک پربتوں پہ چھائی ہوئی
ہیں دور دور، پرندوں کی ڈار خوف زدہ
اب ان کے لب پہ تبسم کی اک کرن بھی نہیں
مرے چمن کے ہیں سارے چنار خوف زدہ
کوئی کرن ،کوئی آہٹ ، کوئی صدا بھی نہیں
وہ بے حسی ہے کہ منظر کوئی نیا بھی نہیں
نہ جانے کونسی منزل پہ جا کے ٹھہرے
میرے جہت کاسفر جس کی انتہا کچھ بھی نہیں
قفس میں ہم نےجلائے ہیں اپنے خوں سے چراغ
کہ صبح آئے گی اک روز آشیاں کے ادھر
مرے قاتلوں کو خبر کرو،کہ جو نیم جان تھا وہ مرگیا
تھا وہ زخم خوردۂِ آرزو، غم آرزو سے گزر گیا
جہاں پہ تم تھے وہاں آرزو کا موسم تھا
جہاں پہ میں تھا وہاں تازگی کہیں بھی نہ تھی
خون کے ڈل میں سورج آخر ڈوب گیا
پربت والوں نے جلتے گھر دیکھے ہیں
اک نئے دور کا نقیب ہوں میں
اس لئے لائقِ صلیب ہوں میں
عشق افلاس کے سائے میں نہیں پل سکتا
سب بھلا دیتا ہے دو وقت کی روٹی کا سوال
مِرے شعور سے خاموشیوں نے مانگا ہے
اک ایسا نغمہ جو ہر روح میں اتر جائے
کئی نا کام امیدیں ابھی لپٹی ہیں دامن سے
ابھی چھوڑی کہاں ہے زندگی کی آرزو میں نے
تری ہر اک جفا پہ وفا کاگماں ہوا
دیتی رہی فریب مِری سادگی مجھے
نگاہ و دل پہ ہزاروں قیامتیں گزری
وہ رو برو تھا مگر عالمِ حجاب میں تھا
ان آنکھوں نے کیسے کیسے سیم تنوں
سر نوکیلی سنگینوں پر دیکھے ہیں۔
مرزا محمد یاسین بیگ ۱۹۴۳ میں جموں میں پیدا ہوئے۔۱۹۴۷ کے بعد غالباً جموں کے پہلے مسلم گریجیوٹ ہیں ۱۹۶۴ میں کلچرل اکیڈمی کے لائبریرین ہوئے بعد ازں ترقی پاکر ڈائریکڑ اور ڈی سی بنے۔۱۹۹۶ میں سرکاری ملازمت سے سبکدوش ہوئے۔ تین شعری مجموعے یاد گار چھوڑے
شاخ صنوبر تلے ۱۹۶۷
اس کے متعلق مظہر امام کی رائے ہے :
محمد یاسین بیگ کی شاعری میں جزبۂ و احساس کی آنچ تیز ہے،وہ سبک اور مترنم الفاظ کا استمال کرتے ہیں انکا مجموعاۂ کلام “شاخ صنوبر کے تلے” انکے متواز اسلوب کا آئینہ دار ہے۔”
دہر آشوب ۱۹۹۱
لہو لکیر ۱۹۹۶
بڑے ہی ذہین فطین شخص تھے شاعر تھے نظم گو بھی دوہا لیکھک اور افسانہ نگار بھی
افسانوی مجموعہ”جب دل ملتے ہیں “ ۱۹۹۴۵ میں شایع ہوا۔ انکی مزکورہ بالا کتابیں پبلک لائیبریوں میں موجود ہیں ۔ ۱۹۹۲ میں پہلا شعری پڑھا تھا۔ شبیب رضوی اور خالد حسین انکے دوستوں میں سر فہرست ہیں. انکے کلام کے حوالے محمد یوسف ٹینگ کے تبصرے کافی اہمیت کے حامل ہیں انکا ذکر بعد میں ہوگا ۔۔۔پہلے انکی کچھ غزلوں کے اشعار دیکھیں یہ سچ ہے کہ وہ نظم کی طرح غزل بھی خوب کہتے تھے۔۔۔
سورج کا یہ رنگ سنہرا ، میں کیا جانوں
کس کے کارن امبر ٹھہرا، میں کیا جانوں
گلیوں گلیوں درد میں ڈوبی ایک صدا ہے
میں تو ہوان اک گونگا بہرا، میں کیا جانوں
اس بستی میں رہنے والے کن لوگوں گا
من مٹیالا، روپ سنہرا ، میں کیا جانوں
فِعْلُن ، فِعْلُن، فِعْلُن،فِعْلُن/فِعْلُن،فِعْلُن،فِعْلُن،فِعْلُن
بحر صوت الناقوس کا کیا ہی خوب استعمال کیا ہے۔۔۔
آج کا دن بھی یونہی لمحہ لمحہ ہو کر بکھرا بابا
جیون کے تپتے آنگن میں اور اک سپنا ٹوٹا بابا
من کا موتی لے کر نکلو، کوڑی مول نہ ہی پاؤ گے
اس بستی کے بازاروں میں ، کیا پتھر کیا ہیرا بابا
دریا دریا پی لینے سے ، کب کوئی ساگر بھرتا ہے
برسوں برسوں جینے پر بھی آخر میں پچھتانا پڑا
محمد یوسف ٹینگ نے لکھا ہے
“خوش گلوئی انکا سے بڑا حربہ ہے اور وہ اسی پیراشوٹ کے ذریعہ کل ہند کیا؟ بلکہ ہند و پاک کے مشاعروں میں اتر کر انہیں لوٹ پوٹ کر کے رکھ دیتے ہیں ۔۔۔۔۔”
لیکن ٹینگ صاحب نے انکی غزلوں کے حسن کو آواز سے جوڑ کر انکے فن کی ناقدری کی ہے میں کہتا ہوں موسیقی شاعری کا جزو لاینفک ہے۔ لیکن الفاظ کا انتخاب اور اسلوب موسیقی سے ذیادہ اہم ہے ۔اس لئے انکی بات کی جزوی تردید اور محمد یاسین بیگ کی غزل میں فن کاری کا اعتراف اور اسکا اظہار ناگزیر سمجھتا ہوں ۔۔وہ نہ صرف نظم کے اعلا پایہ کے شاعر تھے بلکہ غزل کے مزاج آشنا تھے انکے اشعار استادانہ شان و شوکت رکھتے ہیں۔ یہ کہنا صریحاًُ غلط ہے کہ وہ ترنم کے بل پر مشاعروں میں داد بٹورتے تھے ۔ میں نے انکی غزلوں کے اشعار اور نظموں کا خوبصورت انتخاب کردیا ہے تاکہ باذوق قارئین انکے کلام سے لطف اٹھائیں اور وہ نئے قلم کاروں کے لئے انکا کلام مشعل ِراہ ہوسکتا ہے ۔ وہ صوبہ جموں میں وہ دوسرے دور کے اہم ترین شعراء میں سے ہیں اور سنجیدہ جدید شاعر پرتھپال سنگھ بیتاب ان سے جونئر ہیں …
محمد یاسین کی چند نظمیں
ایک سوال ، نظم
بڑی شدید گرمی ہے
سورج ،
سوانیزے پہ چمک رہا ہے
میرے اندر،
سب کچھ پگھلتا جارہا ہے
کیا پگھل جانے کا دوسرا نام
موت نہیں ۔
تارکول کی جھیل نظم سے
نظم
دور کہیں جنگ کی باتیں ہورہی ہیں
بڑے زور کی آندھی چل رہی ہے
ایسا محسوس ہورہاہے
جیسے بِنا ستونوں کے کھڑا
آسماں کا یہ سائباں
ابھی چیخ کر ٹوٹ جائے گا۔
مجزوب نے کہا نظم
اپنے بیٹے کو سمندر میں دھکیل کر
اسے کاغز کی کشتیاں تھماتے ہو
کیا تم نہیں جانتے
کہ ٹھرے ہوئے ساکت کناروں
اور بپھرے ہوئے طوفاں کی
تہزیب میں بڑا فرق ہوتا ہے
محمد یاسین بیگ نظم بہت ہی خوبصورت کہتے ہی. اسلوب نگارش مجھے وقیع اور حقیقی معلوم ہوتاہے۔وہ نشاط و شالیمار کے رنگین پھولوں میں لہو کے چراغ جلتے ہوئے دیکھتے ہیں ۔۔انہوں نے جدید نظم میں، سمعی وبصری پیکروں کے جو فتیلے لگائے ہیں انکی مثال معاصرین کی نظموں میں نہیں ملتی ہے۔۔۔ انکے فتیلے انکی باطنی آنچ سے مستنیر ہوتے ہیں اور وہ شرق و غرب کے لئے نہیں بلکہ تمام عالمِ انسانیت کے درد مشترک کی روشن و تابندہ علامت بن جاتے ہیں ۔ع
“لوط کے شہر میں
اک عفونت زدہ جنس کی آرزو کے تلے
ایڈز پھیلی پوئی ہے”
۔۔۔۔۔
میرے گھر کے آنگن میں
جامن کا ایک پیڑ
جو میرے بچپن کی آسودگی کا نشاں تھا
کڑی دھوپ نے اسکی نیلاہٹیں چھیل لی ہیں
میرا حسن بوجھل ہے
بے چہرگی کے سفر میں
(بے چہرگی کاسفر)
محمد یاسین بیگ نے گیت اوردوہے بھی خوب کہے ہیں
چند دوہے:
کچی کلی انار کی، اک گدری مٹیار
تن ہیرے کی پوٹلی،من نیلم کا ہار
سورج ایک کسان ہے، فصل کٹے گی شام
اس “کولہو “کے بیل کا،چلتے رہنا کام
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“