احمد شناس ناشنیدہ اہم جدید شاعر
گم شدہ ہے کون میری حدتوں میں
کس کی خاطر غار کا سینہ کھلا ہے۔
اپنی عریانی چھپانے کا حسیں اسلوب تھا
میں نے جو اوڑھا تھا لفظوں کا لبادہ سچ نہ تھا
سوچتی ہی رہ گئیں آنکھیں کنارے پر کہیں
حس بلآخر حدِ امکان سے باہر ہوگیا
تونے کس شوق سے لکھا ہے تعارف میرا
میں کسی لفظ میں محصور نہیں ہوسکتا
لفظوں کی دسترس میں مکمل نہیں ہوں میں
لکھی ہوئی کتاب کے باہر بھی سُن مجھے
حسن اسکا میرے آئینے میں کھلتا ہی نہیں
ذکر اسکا میرے ہونٹوں پر ہے برکت کے لئے
سانسوں کے درمیان سلگتے ہیں بال و پر
پھر بھی کسی گندی اڑان کا امید وار ہوں
کشتیوں کو باندھ رکھا ہے کنارے پر کہیں
اور انکھوں میں حسیں جھیلوں کا منظر رکھ دیا
میں آدھا ہوں میرے الفاظ بھی آدھے ادھورے
کسی خاموش لمحے میں مجھے مجھ سے ملا دے
رگوں میں جلتے ہوئے ہزروں شراغ دیکھے
ستارۂ شام سے ملی کچھ نگاہ ایسی
رجوری کے گاوں شاہدرہ میں پیدا ہویے اعلی تعلیم یافتہ ہیں ڈی سی کے عہدہ سے سبکدوش ہوئے تنہائی پسند ہیں عرصہ سے شعر کتے آئے یہ بھی جدیدئے شبخونی ہیں انکی شاعری سمجھ میں کم ہی آتی ہے پیکر تراشی میں لگے رہتے قاری کو انکے دھندلکے مسرور نہیں کرتے التہ مسحور ضرور کرتے ہیں.. احمد شناس انکے حلقۂ اردات میں رہ کر بھی شعر کہتے ہیں انکی شاعری واضح نہیں ہوتی عموما دھندلوں میں اشارے کرتے ہیں ۔البتہ میں نے ایسے اشعار کا انتخاب کیا ہے جن میں انکے تجربات کسی حد تک افہام و تفہیم کی منزل کے قریب ہیں
انکا دوسرا شعری مجموعہ صلصال قدرے بہتر اور آسان فہم ہے۔ اس میں کئی اشعار بے تکلفی سے کہے گئے ہیں ان میں شعری حسن پایا جاتا ہے۔ ورنہ انکی بیشتر شاعری چیستان بن کر رہ گئی ہے۔اس طرح انہوں نے خود کو پکا مقلد قسم کا جدیدی ثابت کردیا ہے بہر حال انکے بعض اچھے اشعار ہماری شعری روایت میں اضافہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔
پسِ آشکار احمد شناس کا پہلا شعری مجموعہ ہے محمد یوسف نے پیش کلام لکھا ہے جسکے بارہ میں اتنا ہی کہوں ۔۔لکھے موسی پڑھے خدا۔۔ یوسف ٹینگ سیدھی بات کو بھی پیچیدگی سے کہتے ہیں یہ اس میں انکی شخصیت کا دخل عمل ہے.لہذا انکا تبصرہ لفظوں کی کھیل تماشا یاشعبدہ بن کر رہ جاتا ہے.
اس سے پیشتر کہ یہ رات موند لے آنکھیں
ننھے منھے جگنو سے روشنی ذرا مانگیں
اگ آئیں گی سر سے پاؤں تک ان گنت زبانیں
ہر اک زباں کا بیان تیرے خلاف ہوگا
کبھی میں سارا ابو جہل ہی کا حصہ تھا
کبھی کھِلے تھے میری ذات میں رسول بہت
میں بات کرنے لگا تھا کہ لفظ گونگے ہوئے
لغت کے دشت میں کس کو صدا لگاوں گا ماں
میں جھلملاتا رہا رات کی سیاہی میں
کہ جیسے دور کہیں جنگلوں میں جگنو ہو۔۔
شعر خلاف عقل خیال بندی ہے دور جنگلوں میں جگنو تو دکھائی ہی نہیں دیتا یہ شعر برجستگی کے معیار پر نہیں اترتا جگنو سے متعلق پروین شاکر کا شعر دیکھیں۔۔۔البتہ انکی دوسری کتاب صلصال پیلے مجموعہ کی شعری و لسانی توصیح ہے…اس دوسری کتاب میں بھی..
کہیں کہیں ابہام اتنا زیادہ ہے کہ مصرعے دولخت جیسے لگتے ہیں اور کئی اشعار میں بندش عمدہ ہونے کی بجائے مصرع ثانی مصرع اول کی تکرار لگتی ہےاور استعارے اور علامتوں میں تازگی نہیں
" جگنو " کوئی نئی علامت نہیں احمد شناس نے اسے بار بار استعمال کیا ہے.
انکے ہاں علائم کا نظام کمزور ہے فقط پیکر تاشی ہے اور ابہام …ایسی شاعری عوام تو عوام خوآص کو ذیادہ سرور نہیں دیتی…بعض مصرعوں کے اوزان میں بھی گڑ بڑ ہے.
مثال کے طور پر کلچرل اکیڈمی کی دعوت پر لکھی گئی فیض کے مصرع پر طرحی غزل کے آخری شعر دیکھیں..
یہ جہانِ لطف و نظر احمد شناس حسب سوال ہے
کبھی صبح رغبت نے میرے دستِ دعا پہ سورج اگا دیا
اس غزل کا وزن:
مُتَفَاعِلُن، مُتَفَاعِلُن،مُتَفَاعِلُن،مُتَفَاعِلُن
پہلے مصرع میں وزن ٹوٹتا ہے البتہ
احمد شناس کو
کو" احمدے شناس"کرکے یا احمد کی دال پراضافت کی زیر کے پڑھنے سے مسئلہ حل ہوجاتا ہے..
لیکن آخری مصرع پورا آہنگ سے خارج ہے کبھی صبح رغبت نے میرے دستِ دعا پہ سورج اگا دیا
کبھی صب ہِ رغ =متفاعلن
بت نِ مِرے=مستفعلن
دس تِ دعا=مستفعلن
رج اگا =متَفاعلن وہ احر اگر رج کی جیم کو متحرک کریں یا مانیں..
جگنو کو دن کے وقت پرکھنے کی کوشش کریں
بچے ہمارے عہد کے چالاک ہو گئے
صلصال میں احمد شناس نے جگنو سے متعلق بہتر شعر کہا ہے
چاند میں درویش ہے۔ جگنو میں جوگی
کون ہے وہ اور کس کو کھوجتا ہے؟
احمد شناس اور پروین شاکر کے اشعار کے معیار کا فر ق عیاں ہے
احمد شناس اوبڑ راستوں کے شاعر ہیں
آنسو کی ایک بوند کو آنکھیں ترس گئیں
اس دھوپ میں جھلس گیا دوہا کبیر کا
صلصال سے مزید چند اشعار
بدل کے دیکھو نسبتوں کی دنیا کو
بدن کو روح کے خانہ میں ڈالکر دیکھو
ہر رنگ میں بیقرار ہوں نقش ناتمام
مٹی کادرد ہوں کہ ستاروں کا پیار ہوں
کچھ تو میرے وجود کا حصہ ہے تیرے پاس
ورنہ میں اپنے آپ میں کیوں انتظار میں ہوں
یہاں کہنا بے جا نہ ہوگا کہ حامدی کشمیری حکیم منظور پرتھپاسنگھ بیتاب اور رفیق راز کےبعد فنی طور پر احمد شناس اہم شاعر ہے ۔۔۔
گر فرق مراتب نکنی زندیقی
کوئی چہرہ نہیں خوشبو کا لیکن
تماشہ پھول والوں کا لگا ہے
یہی باعث ہے میری تشنگی کا
سمندر مجھ سے پانی مانگتا ہے
دریا دریا اپنی پیاس کی خاطر ہم
لہروں کی تصویر بناتے رہے
فاروق مضطر اور احمد شناس نے شاعری کا جو مقام و معیار قائم کیا ہے وہ خطۂ پیر پنجال اور جموں و کشمیر کے شعرا کے لئے چیلنج ہے ممکن ہے کوئی غیور و جسور شاعر ان سرحدوں کو پھلانگ کر بہت آگے نکل جائےُ۔۔۔ مافی مشکل
احمد شناس کے دو اشعار
اسکی آیت میری قبر کا کتبہ جیسے
میں اسکے اظہارِغضب سے واقف ہوں جیسے
مِرے حروف ادھوری اڑان جیسے ہیں
مِرا شعور معانی کا آسماں جیسے
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“