عرفان شہود کی شاعری اور انکی شخصیت کو میں چار دانگ عالم میں پھیلی ہوئی براہین فطرت کا تمرکز امتیازکہتا ہوں ..چند سالوں سے میں انکی سیر و تفریح اور اسفار پر نظر رکھے ہوئے ہوں .ان کی عملی زندگی اور انکے شعری اظہار میں رتی بھر فرق نہیں . کحل فطرت انکی بینش دید کا راز ہے بار ہا غور کرنے پرمجھے یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ عرفان شہود خود ان دلفریب نظاروں کی تلاش میں ہے یاپھر وہ اپنی تمام تر فراخی اور وسعت کے ساتھ انکو ڈھونڈتے رہتے ہیں …طلب کی کسک دو طرفہ معلوم ہوتی ہے .اور کہا جاسکتا کہ فطرت نے اپنے تمام راستے اس شخص کے لئے آسان کر دیے ہیں ….یہی وجہہ ہے کہ یہ شخص سوختہ جان پروانوں کی طرح کوہ و دمن میں منڈلاتا پھرتا ہے اور جہاں کہیں خوش منظری کی بھنک محسوس ہوتی سفید بادلوں کی رفتار سے وہاں جا پہنچتا ہے ….عرفان شہود ، سیلانی روح کورقاصہ کہتے ہیں . ،اس نظم کی ابتدائی سطریں :
میں تِھرکتی ہوں سارنگیوں کی نئی جاودانی دُھنوں پر /مرے بابلا!
تیری دھرتی،ترا یہ مُحلہ کُشادہ رہے.
تیرے سیّار کی ساری گلیوں میں رونق رہے .
تیرے کھلیان میں سبز خُوشبو رہے.
تیرے اشجار پہ نَوشگفتہ گلوں کی بجے بانسری
تُو پرندوں کی چہکار سے گیت بُنتا رہے"
یہاں اس اقتباس سے جیسا کہ ظاہر ہے بے چین روح کو اس کی شباہت کی بنیاد پر رقاصہ کہا ہے خوبصورت استعارہ ہے. فراق زدہ روح جو اپنے مائیکے یا اصل سے دور ہوچکی ہے. خود ہی وصال کی امید وارہے. اور وہ دعاوں کے پل باندھ رہی ہے .مجاز میں یہاں حقیقت کا عکس جھملا رہا ہے . پر لطف آغاز نظم ہے .اس نظم میں شاعر ایک مرکزی خیال کو کسی نکتۂ عروج پر پہچنانے کے بجائے محزونی کیفیت میں ڈوب کر لذت کشید کرتا معلوم ہوتا ہے..اور روح کے رقص کا مکرر ذکر کرتا ہے. .
اس نظم کو پڑھتے ہوئے آنکھوں کے سامنے سماں سا بندھ جاتا ہےپرندوں کی چہکار،بارشوں کے ترنم الغرض عرفان شہود صدگفتنی اور سحرتاب مناظر کی کھوج میں سرگرداں دکھائی دیتاہے سچی نظم تو کبھی مکمل ہوتی ہی نہیں . بے قرار روح اپنے کل یعنی خدا کی ظہوری دھنوں پر ہمیشہ بس تھرکتی ہی رہتی ہے .
"میں خدا کی ظہوری دھنوں پہ تھرکتی رہی
جو کھلے پانیوں خفی ساحلوں سے مقفل کرے
جو فلک بوس پربت کو اسم توازن سے قائم کرے." اقتباس
"دن کا پھاٹک" خوبصورت نظم ہے پھاٹک کھلنا جسے متقدمین صبح کا چاک گریبان کہتے تھے عمدہ اور تازہ استعارہ ہے گویا نظارے رات کی پھاٹک اور ظلمت کے حصار میں قید ہوچکے ہوتے ہیں اور صبح ہوتے ہی یہ بیتاب نظارے برق پا نظر کے ساتھ اطراف عالم میں پھیل جاتے ہیں. اقتباس
"میری ترسی ہوئی آنکھ کی فاختہ نے مناظر چگے/گھاس کی شبنمی ڈنڈیاں نور کے ابر میں غسل کرتی ہوئی/ لہلہاتے درختوں کی شاخوں پہ سڑکیں بناتے ہوئے بوزنے"..
گویا بدن کی گپھا میں خواہشوں کے جاگنے پر ، اطراف عالم میں رود بار کا سا شور و شیف،شاعر کی ہر اکتاہٹ کو،امرت کی گھونٹ بنا دیتا ہےجاری
بھارت کو بھی ہندو ریاست ہونا چاہئے تھا
اروند سہارن کے ساتھ ایک ویڈیو بلاگ میں، میں نے یہ بات کہی تھی۔ انہوں نے بتایا ہے کہ اس...