پچھلے کچھ سالوں سے شاعری کے افق پر بہت سے نئے ستارے ابھر کر سامنے آئے ہیں جن کا مفصل ذکر الگ سے کروں گا تاہم یہاں میں ایسے ہی دو نوجواں شعرا میری مراد سالم سلیم اور عمرفرحت ہیں کا ذکر ضرور کروں گا۔ یہ دونوں نوجوان اردو زبان کی خدمت میں ہمہ تن مصروف ہیں۔ میرے خیال میں انکا مستقبل روشن ہے سالم سلیم ریختہ سے جڑے ہیں اور تحقیقی کام کے علاوہ شاعری میں نام پیدا کرچکے ہیں عمر فرحت نے جموں کشمیر کے دور افتادہ اور سرحدی اضلاع پونچھ راجوری ، میں ادب کی جوت جگائی ہوئی ہے۔ وہ مالی اور کئی دیگر مشکلات کے باوجود نہایت معیاری ادبی جریدہ تفہیم کو باقاعدگی سے شایع کر رہے ہیں۔ سلیم سالم دہلی میں رہتے ہیں ۔ انکے یہاں روایت اور جدت کا امتزاج ( Blending) دیکھنے کو ملتا ہے اور کہیں چلبلاپن بھی۔ شعر دیکھیں ۔
آ رہا ہوگا وہ دامن سے ہوا باندھے ہوئے
آج خوشبو کو پریشان کیا جائے گا
یہ کیسی آگ ہے مجھ میں کہ ایک مدت سے
تماشہ دیکھ رہا ہوں میں اپنے جلنے کا
عمر فرحت کی شاعری پر نامور نقاد نظام صدیقی کی رائے کچھ یوں ہے۔
" ننھے سے تراشیدہ ناخن پر یہ چھوٹے چھوٹے تاج محل کی غزلیہ تخلیق عمر فرحت کا خصوصی شعری امتیاز ہے جو قاری کے باطن اور جمالیاتی اور قدریاتی شعور و آگہی میں چراغاں کی سی کیفیت پیدا کریتی ہے۔"
مزید اردو کے نامور شاعر ظفر اقبال نے پاکستان کے معروف روزنامہ دنیا میں اپنے کالم دال دلیا میں ٨ مارچ ۲۰۲۱ء کے شمارہ میں عمر فرحت کا یہ شعری انتخاب شامل کیا ہے۔ جو لطف سے خالی نہیں۔اشعار دیکھیں۔
اس کے چہرے کو دیکھتا ہوں میں
اور اک آہ کھینچتا ہوں میں
اپنے ماضی کی خستہ گلیوں میں
اس کی یادوں سے کھیلتا ہوں میں
کتنے پیڑوں نے میرا پوچھا ہے
دھوپ سے روز پوچھتا ہوں میں
اے مرے ساحل گمان و یقین
لے ترا ہاتھ چھوڑتا یوں میں
محولہ بالا اشعار میں بلا کی جدت اور روانی ہے اور س مچ یی شاعری آدمی کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیتی ہے اور بعض کےنزدیک شاعری بھی ایک طرح سے آیینہ حیرت کے مانند ہے ۔
کاغذی تھیں جلا کے رکھ دی ہیں
ساری چڑیاں اڑا کے رکھ دی ہیں
تجھ کو اب دل سے دیکھنا ہے مجھے
اپنی آنکھیں بجھا کے رکھ دی ہیں
اب وہ مقصود آرزو نہ رہا
خواہشیں سب دبا کے رکھ دی ہیں