(Last Updated On: )
(۱) اقبال۔۔مین کریکٹر
(۲) اقبال کی ماں
(۳) رانی اقبال کی چھوٹی بہن
(۴)ماجا اقبال کا استاد
(۵) جھورا۔ماجے کا دوست
(۶) مسز احمد
(۷) مسٹر احمد
(۸) دکاندار لڑکا
سین نمبر (۱) وقت: صبح مقام: اقبال کا گھر
٭ ماں : اقبا ل بیٹے ناشتہ تو ٹھیک سے کر لو سارا دن تو تیرا افراتفری میں گزرتا ہے ایسے کچھ کھاتا کچھ چھوڑ جاتا ہے تو سارا دن میرا بے چینی میں گزرتا ہے۔۔
اقبال : اماں عید سر پر ہے اس لیے کام کچھ زیادہ ہیں استاد تو سارا دن دوکان پر بیٹھا گاہکوں سے قربانی کے بھائو تائو طے کرتا رہتا ہے اور مجھے گاہکوں کے گھروں کے پتے معلوم کرنے میں سارا سارا دن خوار ہونا پڑتا ہے ۔۔
ماں : پر پترتو اپنا بھی تو کچھ خیال رکھوں کم سے کم کھانا تو وقت پر سکون کے ساتھ کھالیا کرو پاس بیٹھی چھ سات سال کی رانی چائے میں روٹی ڈبو ڈبو کر کھانے میں مصر وف ہے وہ بولی بھیا اس عید پر میں سبزرنگ کے کام والا لہنگا ضرور لو گی جیسا پچھلی عید پرناہید نے پہنا تھا اور ساتھ چوڑیاں اور چمکتی ہوئی جوتی بھی (یہ کہتے ہوئے رانی کا معصوم چہرہ د مکنے لگا آنکھوں میں بھی خوشی کے رنگ نظر آنے لگے۔۔
ماں : رانی کو خاموش کرواتے ہوئے تمہیں اب پھر نیا کام والا لہنگا چاہے۔ ابھی پچھلی عید پر ہی تو تمہیں بوروکیڈ کا سوٹ نہیں سی کر دیا تھا
رانی : منہ بسوڑتے ہوئے اماں وہ نیا کب تھا وہ تو آپ نے اپنا سوٹ چھوٹاکر کے دیا تھا
اقبال سے بہن کا موڑ خراب ہوتے برداشت نہیں ہوا فورا بولا بہن ایسے ہی ماں کی بات پر موڑ خراب نہیں کرتے میں تمہیں لہنگا اور سب کچھ لادو گا۔
رانی : خوشی سے ایک دم کھل اٹھی سچ بھیا۔۔
اقبال : کی آنکھوں کے سامنے اپنے استاد کے بیوی بچے آگئے جنہوں نے
کل ہی گھومٹی بازار اور رنگ محل سے ہزاروں روپے کی عید کی خریداری کی تھی۔
کٹ
سین نمبر (۲) وقت:دن مقام :قصاب کی دوکان
استاد : او بالے کدھر مر گیا اے ۔
با لا : گوشت کے پھٹے کے نیچے سے جی استاد جی میں
استاد : اوے جلدی کر مر فر چھڑیاں دی دھار وی تیز کرنی اے عید وچ دن ای کنے باقی رہ گے نے
بالا : استاد جی ابھی چھڑیوں کو تیز کرونے کے لیے لوہار کی دوکان پر لے جاتا ہوں۔
استاد : اوے ہڈحرام پہلے چھڑیاں ٹھوکیا نوں تُو سل تے تیز کر تینوں پتہ نئہں انج لے گیا تے او لوہار دے بچہ نے اینے پیسے منگ لینے نے اونی تے اساں عید وی نائیں کمانی۔۔
بالا : استاد کی بات سن کر ٹھنڈی آہ بھری اور بولا) ٹھیک اے استاد جی ۔
استاد کی پھر گرجدار آواز آئی ) اوے بالے لکڑیاں دے ٹال تے وی جانا اے کوئی چنگی ودیا قسم دی لکڑی دیاں موڈھیاں وی دو بنوانئیاں نیں۔
کٹ
سین نمبر(۳) وقت: شام مقام: ان ڈور
مسز احمد ایک نہایت شوخ اور خود نمائی پسند خاتون ہے وہ ہر وقت دوسروں کو نیچہ دکھانے کی فکر میں رہتی ہے خاص کر اپنے شوہر کے چھوٹے بھائی اور اس کی بیوی سے تو اللہ واسطے کا بیر ہے ان کی ہر بات میں سو سو کیڑے نکالنا اس کی عادت ہے بقرا عید سے چند روزپہلے وہ اپنے شوہر سے لڑ رہی ہے)
مسز احمد : میں کچھ نہیں جانتی آپ کو ہر حال میں پچاس ہزار کا ہی قربانی کے لیے بکرا لانا ہو گا
احمد : پریشان ہو کر بیگم ہم اتنا مہنگا بکرا افورڈ نہیں کرسکتے ویسے بھی ہمارے مذہب نے ہم پر ایسی کوئی پابندی نہیں لگائی کہ اپنی حیثیت سے بڑھ کر ادھار اٹھاکر قربانی کی جائے۔
بیگم : میں کچھ نہیں جانتی ہمارے گھر میںبھی حماد سے مہنگا نہیں تو اس کے برابرکا تو قربانی کا جانور آنا چاہئے رخسانہ اپنے پچاس ہزار والے بکرے کی جانب کیسے فخر سے دیکھتی ہے۔
احمد : بھئی حماد ماشاء اللہ اب اچھی پوسٹ پر ہے اور وہ اتنا مہنگا بکرا افورڈ کرسکتا ہے ہم نہیں
بیگم : آپ افور ڈ کرنہیںسکتے یا کرنا نہیں چاہتے (روٹھے ہوئے لہجہ میں )
احمد : (سمجھانے والے لہجے میں ) کیا تم وہ دن بھول گئی ہو جب ہم قربانی کرتے تھے اور وہ بے چارہ بے روزگار تھا اور ہمارے قربانی کے جانور کا گوشت ہی اپنا سمجھ کر خوشی خوشی بانٹے تھے اور وہی گوشت گھر میں پکا کر خوش ہوتے تھے اس کی بیوی رخسانہ نے توکبھی گلہ تک نہیں کیا تھا اور اگر اب اللہ تعالیٰ نے اس کو اس قابل بنایا ہے تو ہمیں بھی خوش ہونا چاہئے اس کے
قربانی کے جانور کو بھی اپنا ہی سمجھنا چاہئے ویسے بیگم میرا مشورہ ہے کہ تم احساسِ کمتری کی بیماری سے بچنے کی کوشش کیا کرو۔
بیگم : غصے سے) مسٹر احمد صاحب مجھے کوئی احساسِ کمتری نہیں ہے اگر میںاحساسِ کمتری کی ماری ہوتی توآپ کی بھابی کی طرح حالات سے سمجھوتہ کرلیتی آپ کو بیس پچیس ہزار کا
لانے کو کہتی اور ہاں غور سے سنیئے آئندہ مجھے اس وقت مشورہ دینا جب میں آپ سے مشورہ مانگوں اور آپ اپنے ذہین سے نکال دیجئے کہ مجھے کوئی کمپلیکس ہے میں کسی بھی طرح تمہارے بھائی حمادکی بیوی رخسانہ سے کم نہیں ہوں۔
احمد : غصہ ضبط کرتے ہوئے بیگم تم واقعی ہمدردی کی مستحق ہو احساسِ کمتری سے بڑی بیماری احساسِ برتری ہے اور جس کا تم بُری طرح شکار ہو چکی ہو اللہ ہی تمہارے حال پر رحم کریں ۔۔
بیگم : غصے سے پائو ں پٹختی ہوئی کمرے سے نکل جاتی ہے۔۔
کٹ
سین نمبر ۴ وقت : دن مقام: قصاب کی دُکان
اقبال دو بڑی بڑی موڈھیاں اٹھائے ہوئے آتا ہے تو اس کا بُرا حال ہو جاتا ہے جب دُکان پر پہنچتا ہے تو حسبِ عادت استاد کی ڈانٹ منتظر ہوتی ہے۔
استاد : اوے بالے کم چور نکمے اینی دیر نکے جئے کم تے لا دیتی اے
استاد : اپنے قریب بیٹھے ہوئے اپنے بچپن کے دوست کی طرف منہ کر کے بولا اوے جھوریاںمیرے تے بھاگ ای خراب نے نکے ہوندیاں مینوںاستاد چنگا نہں ملیا تے ہن شاگر نے مت ماری دیتی اے ویکھ تے سہی غضیب خدا دا بس دو نکیاں نکیاں موڈیاں تے ایس بالے دے بچے نے سارادن ای لنگا دتا اے ساڈا استادتے نکی نکی گل تو وی چلنیاں مار مار کے ادھ موا کر دیندا سی ۔
دوست : نے ہاتھ اٹھا کہ بس کر ماجھیا ٓ
مجھے سارا پتہ اے تیرا ۔ہمارا ایک ہی تو اللہ بخشے استاد تھا تُو تو صرف اوجڑی تے پھیپھروں میں پانی ڈالتے ہوئے ایسی ایسی آوازیں نکالتا تھا کہ جیسے استاد نے چھری بکرے پر نہیں تیری گردن پر پھیر دی ہو۔
استاد : ایک دم غصے سے) بولا اوے چُپ کر جا اوے جھورے دیا بچے موڈھی اٹھا کے تے تیرے سر تے مار دیندا پر۔
اقبال : ایک گندے کپڑے سے دُکان کی صفائی کرتے ہوئے ان کی اپس کی لڑائی دیکھ کر مسکرا رہا تھا)۔
استاد : کی نظر اس پر پڑی تو غصے سے بولا اوے پیرو چھنی دیا فٹا فٹ صفائی کر پھر دوست کی جانب دیکھتے ہوئے
استاد : اوے جھوریاں تینوں تے بچپن دی یاری وی نبھانی نہ آئی اوے توں تے میرے شاگر دے سامنے ای ( ناکاتی ) کرد یتی اے۔۔
دوست : جلدی سے بولا میں نے تیری کوئی (ناکاتی )نہیں کی بس تمہیں تھوڑی سی حقیقت سمجھا نے کی کوشش کی ہے قسمت نے ہاتھ میں چھری دیدی ہے تو ہمیں اپنی زبان کو چھری نہیں بنا لینا چاہئے یہ تمہارا شاگر بھی آنے والے وقت کا استاد ہے یہ تم سے کیا سیکھ رہا ہے کبھی تم نے یہ سوچا ہے۔۔
کٹ
سین نمبر ۵ وقت : شام مقام اقبال کا گھر
رانی : اماں اقبال بھائی میرے لیے لہنگا چوڑیاں آج لائے گا نہ
اماں : رانی بیٹا بھائی کو بلا وجہ پریشان نہ کیا کرو ،وہ بیچارا گرمیوں کی چلچلاتی دھوپ میں سردیوں کی سرد ہوائوں میں ہمارے لیے سخت محنت کرتا تُو اسے بلا وجہ کی فرمائشیں نہ بتا کر پریشان کیا کر
رانی : (منہ بناتے ہوئے)اماں بھائی نے خود کہتا جو بھی لینا ہو مجھے بتایا کر
کٹ
سین نمبر ۶ وقت: ڈھلتی ہوئی شام مقام: قصاب کی دوکان
استاد : اوے بالے کل عید دیا ںساریاں تیاریاں پورریاں نیں
اقبال : جی استاد جی چھریاں ٹوکے مڈھیاں سب کچھ تیار ہے
استاد : جیب میں ہاتھ ڈالتے ہوئے لے فیر پورا پنج سو روپیہ اپنی عیدی رکھ اور نال ای استاد ٹھنڈی سانس بھرتے ہوئے) اللہ بخشے ساڈا استاد تے سانوں پنج روپیہ توود کدی اک تلا وی نئیں سی دیندا اج تے کوئی کم وی نئیں کیتا لے چل عیش کر اج دی دھیاری وی سو روپیے دی رکھ صبح چھیتی آجا وی پچھلی عید دی طرح نہ کریں ۔
(اقبال استاد کے دیے پیسے ہاتھ میں تھامے امیدو نامیدی کی کیفت میں کانوں میںرانی کی فرمائش ۔بھیا میں بھی عید پر سرخ لہنگا ساتھ چوڑیاں اور چمکتی ہوئی جوتی بھی لو گی۔اقبال گھر کی بجائے بازا کی طرف چل پڑتا ہے ایک ریڈیمیڈ کپڑوں کی دُکان پر بچوں کے رنگ برنگے کپڑوں کو بڑی حسرت سے دیکھتے ہوئے ایک شوز کی دُکان کے سامنے کھڑا ہو کرشوکیس میں مختلف اسٹائل کے جوتے صرف حسرت بھری نگاہ سے دیکھتا رہ گیا کانوں میں رانی کی آواز گونجتی ہے اور آخر مایوسی کے ساتھ ایک دُکان سے ایک کون مہندی لے کر گھر کی جانب چل پڑتا ہے)
کٹ
سین نمبر ۷ وقت: دن ائوٹ ڈور
اقبال سر پر وزنی مڈھی اور ہاتھوں میں چھریاں ٹوکے اٹھائے)
اقبال : استاد جی سب سے پہلے اندرو ن بھاٹی گیٹ میںگونگے حلوئی کے گھر قربانی کرنے جانا ہے۔ اسی گلی میں ہی تین اور گھروں کے جانور آج ذبح کرنے ہے ۔
استاد : تے او اکرم تے مجید دے گھر کنے وجے جانا اے
اقبال : استاد جی یہاں سے فارغ ہو کر ان کے گھر انار کلی جائیں گے(عید کا سارا دن اقبال کا پچھلی عیدوں کی طرح بھاری بھر کم قربانی کے اوزاروں کو اٹھائے ایک گھر سے دوسرے گھر جاتے گذر گیا استاد صرف بکرے کو ذبح کرتا وہ تھوڑی سی مدد کھال اتارنے میں کرکرتا اور پیسے پکڑتا اور آگے گھر بکرا ذبح کرنے چل پڑتا باقی کا سارا کام اقبال کرتا گوشت بنابنا کر اقبال کے کندھے درد سے دکھنے لگے شام تک اس کے چلنے کی رفتار بھی سُست پڑ گی)
کٹ
سین نمبر ۸ وقت : شام مقام قصاب کی دوکان
(اقبال تھکا تھکا عید کے دوسرے دن کی تیاری کے لیے چھریاں ٹوکے تیز کرتے ہوئے )
اقبال : استاد جی مجھے آج کتنی دھیاری ملے گی ۔۔
استاد : اقبال کی غیر متوقع بات سن کر پہلے تو حیران ہوا پھر ایکدم غصے سے پھٹ پڑا اوے کم چور نکمے تینوں شرم وی نہ آئی استاد دے اگے منہ چلانڈیاں ہویاںجناں تُو آپ گھٹیا ایں اونی ای گھٹیاں گل کیتی او جد کہ تینوں میرا احسان وی نظر نہ آیا کہ میں تیرے جے ہڈحرام نکمے نو اپنے نال رکھ کہ ہنرپیا سکھاناں واں
اقبال : استاد جی اب تو میں اچھا خاصا کام کرتا ہوں پچھلے پانچ سا ل سے میں نے آپ کے ساتھ ایسے ہی کام کرتا رہا ہوں پہلے میری اتنی ضرورتیں نہیںتھیں یا مجھے ضرورتوں کا احساس نہیں تھا آپ جو بھی دیتے میں خاموشی سے رکھ لیتا مگر اب آپ کو بتانا ہو گا کہ مجھے کتنا حصہ ملے گیا اس عید پر۔
استاد : (غصے سے )اوے چل دفع ہو جا اور اج تو بعد مینوں نظر وی نہ آئیں
(اقبال غصے سے دوکان سے نکلتا ہے۔
کٹ
سین نمبر ۹ وقت ۔ گہری شام ائوٹ ڈور
اقبال نے استاد سے جھگڑا تو کر لیا تھا مگر اب پریشان بھی ہو رہا تھا اورخود کلامی کے سے انداز میںاب گھر کا خرچا کیسے پورا ہو گا جو سو روپے روزانہ ملیں تھے اب وہ بھی نہیں ملے گے گھر کی بدحالی ماں کی دبی دبی کھانسی جو کسی بڑی بیماری کا پیش خیمہ تھی رانی کی معصوم سی ادھوری خواہش نے بہت کچھ سوچنے پرمجبور کر دیا ۔۔اچانک ایک خیال بجلی کی سی تیزی کے ساتھ اقبال کے ذہن میں آیا تو اس کے اٹھتے ہوئے قدم گھر کی بجائے چھریوں کی دُکان کی طرف بڑھنے لگے)
اقبال : چھریوں والے دُکاندار سے عید ملتے ہوئے
دُکاندار لڑکا : یا ر اقبال ہماری قسمت میں عید کے روز بھی آرام نہیں میں اس بار اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر سیر کا پروگرام بنایا تھا مگر ابا کی طبیعت ٹھیک نہیں مجھے کہنے لگے عید کے دنوں میں ہی کمائی ہوتی ہے پھر پورا سال ۔۔
اقبال : ہاں یار چاچا جی کہتے تو ٹھیک ہیں ۔
پھر ایک بڑی چھری ایک چھوٹی کھال اتانے والی اور ایک ٹوکا لینے کے بعد کمال اد کاری کرتے ہوئے جیب میں ہاتھ ڈال کر بولا او پیسے تومیں استاد سے لانا بھول ہی گیا ہوں اب کیا کروں یار استاد جی تو اب گھر جا چکے ہو گے اور استاد جی کا گھر تو بڑی دور ہے ۔۔
دوکاندار لڑکا : کوئی بات نہیں اقبال بھائی پیسے پھر دے جانا تم۔
اقبال : شکریہ پر وہ ایک مڈھی بھی استاد نے لانے کو کہا تھا بس کام کی تھکاوٹ کی وجہ سے مجھے پیسے لینے یاد نہیں رہے اب غلطی میری ہے استاد نے تو مجھے ڈانٹنا ہے ۔۔
دکاندار لڑکا : ایک طرف اشارا کرتے ہوئے بولا وہ دیکھ ایک مڈھی پڑی جوچاچا لیاقت واپس کرنے آیا تھا مگر چھریاں دیکھتے دیکھتے یہاں ہی چھوڑ گیا ہے اسے تم لے جاو اور کل استاد سے پیسے لے کر چاچے لیاقت کودے دینا
اقبال : خوشی سے شکریہ کے ساتھ ہاتھ ملاتے ہوئے ۔۔
کٹ
سین نمبر ۱۰ وقت :رات مقام: اقبال کا گھر
رانی : اماں بھیا کو عید کے دن بھی کام سے چھٹی نہیں ہوتی وہ میری دوست آمنہ کے بھائی تو آج سارا دن آمنہ کے ساتھ گھر میں رہے ہیں
ماں : رانی کو ٹالتے ہوئے تُو سارا دن بھاگ بھاگ تھک گئی ہو گی تو آرام سے سوجا
رانی : (ضدی لہجے میں) نہیں جب تک بھیا نہیں اآ تے میں نہیں سوئوں گی
تھوری دیر کے بعد اقبال خالی جیب لیکن نئے عزم کے ساتھ گھر میںداخل ہوتا ہے)
ماں : اقبال پتر آج اتنی دیر لگادی
اقبال : ماں آج کام زیادہ تھا اور پھر کل کی بھی تو تیاری کرنی تھی
ما ں : پتر آج تیرے استاد نے گوشت بھی نہیں دیا پکانے کو
اقبال : اماں آج میں ہی بھول گیا ہو کل لے آئوں گا رانی کہاں ہے
ماں : رانی تیرا انتظار کرتے کرتے ابھی سوئی ہے تونے کچھ کھایا بھی ہے کہ نہیں خالہ حاجن کے گھر سے تھوڑا گوشت آیاتھا جو میں نے پکایا ہوا ہے میں تیرے لیے روٹی لاتی ہو یہ کہتے ہوئے ماں ایک جانب رکھے چولہے پتیلی میں سالن نکالتی ہے
کٹ
سین نمبر ۱۱ وقت: صبح آئوٹ ڈور
(اقبال چھریاں ٹوکا مڈھی سنبھالے اُمید و نامیدی کے ساتھ ایک گلی سے گزرتا ہے ایک طرف سے آواز آتی ہے سنئے پلیز)
اقبال : آواز کی سمت دیکھتا ہے تو اسے ایک شخص پریشانی کے عالم میں کھڑا نظر آتا ہے
اقبال : جی
شخص : پریشان کن لہجہ میں میرا نام احمد ہے مجھ سے غلطی ہو گئی کہ میںنے پہلے کوئی قصاب بک نہیں کیا اور اب کوئی مل نہیں رہا اگر تمہارے پاس ٹائم ہے تو پلیز ہمارا بکرا ذبح کر دوتم گوشت بھی اچھا بناتے ہو تم نے کل میرے کزن کمال کے گھر گوشت بنایا تھا اقبال پہلے تو حیران ہوا پھر اسے یاد آیا گونگے حلوائی کے گھرکے بعد کمال صاحب کے گھر استاد نے صرف بکراذبح کیا اور اگلے گھر چلا گیا تھا گوشت تو سارا اس نے ہی اکیلے نے بنایا تھا
اقبال : ٹھیک ہے میں پہلے آپ کے گھر چلتا ہوں
اقبال نے نہایت ایمانداری سے گوشت بنایا احمد کے گھر میںکچھ احمد کے دوست بھی آئے ہوئے تھے انہوں نے اقبال کو ماہرانہ انداز میں گوشت بناتے ہوئے دیکھا تو احمد سے کہنے لگے یار اپنے قصائی سے کہنا کہ یہاں سے فارغ ہو کر ہمارے ساتھ چلے احمد کا دوست اسلم بولا میں تو بہت پریشان تھا اتنا مہنگا بکرا خریدا ہے مگر ڈر لگتا ہے کہ کہیں پچھلے سال کی طرح قصائی ہڈ یوں کو بھی گوشت میں ہی نہ توڑ دے
کٹ
سین نمبر ۱۲ وقت :شام اقبال کا گھر
ما ں : اقبال پُترآج تیرے استاد نے اتنا گوشت کیسے دے دیا پہلے تو وہ ہڈیا ںاور چربی ملا تھوڑا سا گوشت دیتا تھا آج اس نے کیسے۔۔
اقبال : گوشت ماں کی جانب بڑھاتے ہوئے اماں آپ اسے رکھو استاد میں کہاں اتنا حوصلہ کہ وہ اتنا گوشت دے۔۔
ماں : تو پھر یہ کیسے کیا تم نے۔۔۔۔۔
اقبال : ماں جی آپ کی تربیت ایسی نہیں کہ میں ایسا ویسا کوئی کام کروں پھر اقبال ماں کو استاد کے ساتھ لڑائی اور اپنے ا لگ کام کے بارے میں سب بتا دیتا ہے۔
اقبال : اماں میں نے استاد جی سے جھگڑا تو کر لیا مگر دل میں ڈر بھی رہا تھا کہ اب کیا ہوگا جو سوروپے روزانہ کے ملتے ہیں وہی بھی نہیں ملیں گے توپھر گھرکیسے چلے گا
ماں : صرف انسان کی نیت نیک ہونی چاہئے ایک در بند ہونے پر اللہ پاک سات در کھول دیتا ہے۔ تم نے یہ تو بتایا نہیں چھریوں والے کے پیسے دے ہیں یا نہیں
اقبال : اماں وہ تو میں گھر آنے سے پہلے ہی دے آیا ہو ںاور دل میں اللہ تعالیٰ سے مسجد میں جا کر معافی بھی مانگی ہے جھوٹ بولنے کی ۔۔
ماں : اللہ تعالی ہمیشہ تمہیں جھوٹ اور بُرائی سے بچائے بیٹا۔
اقبال : اماں ۔۔ آپ اور رانی کل شام کو تیار رہنا ہم رانی کو سیر کے لیے باہر لیکرچلیںگے ۔جیسے ہی مارکیٹ کھُلے گئی آپ رانی کو سرخ لہنگا اور ڈھیر ساری چوڑیاں بھی لا کر دینا
اقبال : اماں سچ پوچھو تو مجھے رانی کی ادھوری خواہش نے استاد جی کے سامنے بولنے پر مجبور کیا تھاکیونکہ اس کے بیوی بچے ہزاروںکی عید کی خریداری کریںاور میری اکلوتی بہن عید پر چوڑیوں کو ترسے۔
ماں : بیٹا آج کتنے کی تمہاری دھیاری لگی ہے
اقبال : ( ٹھنڈی آہ بھرتے ہوئے )اے اللہ تیرا شکر ہے پہلے تو سارا سارادن استاد کے ساتھ سارا کام کرتا تھا اور شام کواستاد جی عام دھاری سے صرف چند روپے زیادہ دے دیتا
اقبال : جیب سے پیسے نکال کر گنتے ہوئے بولا اماں گیارہ ہزار نقد ہیں باقی تین بکرے
کھا لیں ہیں اور کل کے لیے بھی دو بکرے بک ہو چکے ہیں اماں آج اور کل کے
پیسے ملا کر انشاء اللہ میں بہت جلد کہیں اپنا اڈا لگالو گا ،بکر منڈی سے شروع میں صرف گار ہی لا کر بیچو ںگاانشاء اللہ بہت جلد بکرے وغیرہ کابھی انتظام ہو جائے گا
ماں : اقبال پتر یہ ’گار ‘کیا ہوتا ہے
اقبال : اماں ’گار‘ اس ڈھیری کو کہتے ہیں جس میں کلیجی پھیپھرا اوجڑی اور سری پائے ہوتے ہیں
کٹ
سین نمبر ۱۳ وقت :شام مقام :آئوٹ ڈور
ایک پارک میں اقبال رانی اور اقبال کی ماں ایک بینچ پر بیٹھے دہی بڑے کھارہے ہیں
رانی : بھیا ہم اگلی عید پر بھی ایسے ہی سیر کریںگے بھیا سچ آج بہت مزا آیا میں جب سکول جائوں گی تو اپنی ساری سہیلوں کو بتائوں گی کہ میرے بھیا بھی مجھے گھومانے لے کر گے تھے
اقبال : میری گڑیا بہن اب ہمیشہ سیر کرے گی اتنے میں ایک چوڑیاں بیچنے
والی وہاں آکر آواز لگاتی ہے
اقبال : اسے رُکنے کا اشارا کرتا ہے
چوڑیاں والی اپنے سر سے بھاری بھر کم چھابر ا اتار کر رانی کے ہاتھوں میں چوڑیا ں پہناتی ہے
رانی کا چہرا خوشی سے دمک اٹھتا ہے ۔
ساتھ ہی کیمرہ رانی کے ہاتھوں میںپہنتی چوڑیوں پر فوکس ہے کے کلوز ہوجاتاہے۔