"ادبی بیساکھیاں"
یہ شہرِ نگاراں اس لحاظ سے بھی اپنی الگ شناخت رکھتا ہے کہ ہر روز جہاں شعرو ادب و فنونِ لطیفہ کی محفلیں سجتیں اور تقریبات منعقد ہوتی رہتی ہیں۔ اچھے شعراء و شاعرات، ادیب و فنکار کی تخلیقات و فن پارے داد و تحسین حاصل کرتے رہتے ہیں وہیں پر ایسے "گھس بیٹھیے" بھی "کچھ ادبی بیساکھیوں" کے سہارے شہرِ شعر و ادب میں قد بڑھانے کی کوششوں میں مصروف نظر آتے ہیں۔ اسی حوالے سے جب کسی "شاعرہ" کے شعری مجموعے کی تقریبِ رونمائی کا "شانداردعوت نامہ" نظر سے گزرے تو شدید افسوس اور دکھ کے ملے جلے مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔ شاندار اس لییے کہ صدر، مہمانِ خصوصی، مقررین، سب ہی علم و ادب کے حوالے سے بڑی بڑی (مستند) شخصیات کے اسمائے گرامی جگمگا رہے ہوتے ہیں ۔ دکھ اور افسوس یوں کہ محترمہ ایک مصرعہ بھی ڈھنگ کا موزوں کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتیں ، سونے پر سہاگہ صحیح شعر بھی اکثر مشکل ہی سے پڑھ پاتی ہیں۔۔ اس کتاب میں کس کس کا کمالِ ہنر شامل ہے یہ کوئی راز نہین۔۔ یہ اور بات کوئی (نجی محفلوں کے علاوہ) مانے یا نہ مانے۔
افسوس اس بات پر ہوتا ہے کہ وہ (مستند) ادیب و نقاد جنہیں اس شہر کے ہر شاعر اور شاعرہ کا پتہ ہے کہ وہ کتنے پانی میں ہےِ ، خود شعر کہنے کی صلاحیت اس میں ہے یا ادھر ادھر سے "نعمتِ متوقع یا غیر متوقع" حاصل کرکے شہرِ سخن میں داخل ہے ، اسے اپنی بیساکھیاں پیش کرنے میں کبھی پس و پیش سے کام نہیں لیتے۔ تقریبات میں وہ سب کچھ کہہ ڈالتے ہیں جو موصوفہ کی "تخلیق" میں کہیں نہیں ہوتا۔ میری ایسے تمام اہلِ علم و ادب سے دست بستہ گزارش ہے کہ خدارا یہ کٹ پتلیوں کو نچانے کا کام بند کردیں۔۔ آپ اپنی انکھیں بند کرلیں لیکن وہ سنجیدہ طبقہ جو واقعی علم و فن کا شیدائی ہے کبھی آپ کو معاف نہیں کرے گا ۔۔ کل کا مورخ جب آج کی تاریخ لکھے گا تو اس کے قلم کی سیاہی کے چھینٹے آپ کے دامن کو داغدار کیے بنا نہیں رہیں گے۔
" سستی شہرت حاصل کرنے کوچوں میں چوباروں میں
کھوٹے سکے اچھلے اچھلے پھرتے ہیں بازاروں میں
ہیں کچھ ایسے لوگ جو اپنے پیسوں سے چھپواتے ہیں
اوروں کے کاندھوں پہ چڑھ کر تصویریں اخباروں میں
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“