زور زور سے ہاتھ مار کر پرانی چیزوں سےگرد جھاڑتے ہوئےبہت سی یادوں سے بھی گدلی سی مٹی جھڑنے لگی ۔ ۔ پھونک مارنے سے مٹی کا مرغولہ جو اڑا تو ماضی کا عکس حال کے شیشے سے چوری چوری تاک جھانک کرنے لگا ۔ تمام چیزیں ویسی کی ویسی ہی تھیں جیسے برسوں پہلے اس نے چھوڑی تھیں یا شاید تقدیر کے ہاتھوں چھوٹ گئی تھیں۔وہ ایک ایک کر کے ہر چیز اٹھاتا۔ ۔ اسی طرح مٹی جھاڑتا۔ ۔ یاد کا عکس ابھرتا ۔ ۔ اور ماضی کی تصویر میں تھوڑی دیر جی کر اسی اشتیاق سے وہ اگلی یاد سے مٹی صاف کرنے لگتا۔ ۔ برسوں کی جمع یادیں آج بند توڑ رہی تھیں۔
چیزیں الٹتے پلٹتے ایک ٹوٹی جھانجر جو ہاتھ میں آئی تو وہ وہیں ساکت ہو گیا۔ ۔ اتنا بے رحم وقت۔ ۔ اور خود اسکا وجود وقت سے بھی زیادہ بےرحم۔ ۔ اسے اچانک سے تھکاوٹ سی ہونے لگی۔ ۔ جیسے برسوں کی مسافت کے بعد بھی منزل نہ ملے تو مسافر چور چورہو کر گر جاتا ہے۔ ۔ اور نہ واپس جانے کی ہمت ہوتی ہے نہ آگے بڑھنے کی سکت۔ ۔
دروازے پر ملازم نے دستک دی تو اس نے جھٹ سے جھانجر جیب میں ڈال لی اور یوں مڑا جیسے چوری کہیں پکڑی نہ جائے۔"بولو کیا بات ہے"؟
"سر کھانا کھا کر کچھ دیر آرام کر لیجیے۔جب سے آپ آئے ہیں اسی کمرے میں مصروف ہیں"۔ گردن جھکا کر بس "ہوں" کی آواز کے ساتھ جلدی جلدی ملازم کے پیچھے چل دیا۔ ۔
رات بستر پر نیند آنا ناممکن تھا۔ ۔ یادوں کا ایک سلسلہ سا دماغ میں ٹرین بنائے چل رہا تھا اور تلخ ماضی کی سیٹیاں اسے سونے نہ دیتی تھیں۔ ۔
چالیس برس پہلے کی بات ہے اس حویلی میں کتنی چہل پہل ہوتی تھی۔رنگ برنگی لہراتے آنچل۔ ۔ بھاگتے دوڑتے بچے۔ ۔ مدھم مسکانیں ، شیریں لہجے، آگے کو ڈھلکے گھونگھٹ اور رعب دار پگڑیاں۔ ۔ان سب میں چھن چھن کرتی ایک آواز۔ ۔ ایک جھانجریا کی آواز۔ ۔ جسے وہ ہر شور میں اورقدرت کے ہر ساز میں پہچان سکتا تھا۔ ۔
اس دنیا میں اگر سچ مچ اس سے خدا خود بھی پوچھ لیتا کہ اسے کیا چاہیے؟ تو وہ جھٹ سے وہ جھانجر مانگ لیتا۔ ۔ ۔
وقت کی ناؤ بہتی ہی چلی جاتی ہے۔ ۔ اور اس ناؤ میں سوار اسکی زندگی بھی یوں ہی آگے چلتی گئی۔ بس ایک چیز ویسی ہی تھی ۔ ۔ جھانجر کی طلب ۔ بابا جانی نے باہر کی یونیورسٹی میں اسکا ایڈمیشن کروا دیا تھا۔
شام کو حویلی کی پچھلی دیوار سے ٹیک لگائے انتظار طویل ہوتا جا رہا تھا کہ چھن چھن کی آواز نے انتظار کی بیزاری کو توڑا۔ ۔ ۔ " اتنی دیر لگا دی۔ جان بوجھ کر نہیں آتی نا؟ آج تک تمہارا کوئی مان توڑا ہے کیا جو ڈرتی ہو؟"
دو موٹی موٹی کاجل سے لبریزآنکھیں ۔ ۔ شرارت سے مسکائیں تو اسے لگا کہ حویلی کی دیواروں پر جیسے دیے جل اٹھے ہوں ۔ " ہاں جان کر نہیں آتی کیا کر لو گے۔؟ "
" بابا جانی نے مجھے باہر بھیجنے کی تیاری کر لی ہے۔میں تم سے دور جا رہا ہوں۔ مجھے یاد تو کرو گی نا؟"
شوخ آنکھوں میں ایک دم لو بجھ گئی۔ بے یقینی سے اسکا چہرہ دیکھ کر بولی " تم واقعی مجھے چھوڑ جاؤ گے۔ میں تو مر ہی جاؤں گی۔میری چوڑیاں ٹوٹ جائیں گی"
"آئندہ ایسا مت کہنا "۔ ۔ اس نے فوراً اس کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا۔اتنے سالوں میں یہ پہلی دفعہ تھی کہ اس نے اسے چھوا تھا۔ ۔ بجلی کا ایک جھٹکا سا لگا اسے۔ ۔ سہہ گیا۔ ۔ لیکن معلوم نہیں تھا کہ جھٹکے کا اثر ایک مدت اسکا پیچھا نہیں چھوڑے گا۔ ۔
وہ چلا گیا۔ ۔ جھانجھریں اداس سی پھرتی تھیں ۔ ۔ کاجل لگی وہ آنکھیں روز اسکا رستہ دیکھتی تھیں۔ ۔ چند سال اور بیت گئے اور پھر ایک دن وہ لوٹ آیا۔ ۔ پھر سے چھن چھن کی آواز نے حویلی کی پچھلی دیوار پر چھایا برسوں کا سکوت توڑا ۔ ۔ پھر سے ان آنکھوں کو اسکا دیدار ہوا تو جوت جگی۔ ۔
" اس دفعہ تو تم میری ہوئی۔ ۔ بابا جانی سے کل ہی بات کروں گا۔ اب تو پڑھ لکھ کر آیا ہوں"۔ ۔ " ہاں دیکھا میں نے۔ ۔ ساری حویلی چھوٹے بابو جی چھوٹے بابو جی کی آوازوں سے گونج رہی ہے۔ اور چھوٹے بابو جی ہیں کہ ملنے کو نہیں مل رہے ہمیں" اس نے شوخی سے چہرہ جو ہلایا تو وہ دم بخود سا دیکھتا رہ گیا۔ بڑھ کر کلائی پکڑ لی اس کی۔ ۔ ایک لمحے کو کاجل لگی آنکھیں اٹھیں پھر جھک گئیں۔ ۔ اس نے سوچا بھی نہ تھا کہ وہ سالوں جس کے لیے انتظار کی سولی پر لٹکا ہے وہ جھانجر یوں اچانک مل جائے گی ۔ اسے وہ جھانجر مل تو گئی لیکن محبت کی شدت میں ٹوٹ بھی گئی۔ ۔ وہ ذرا سنبھلی تو بھاگ گئی۔ ۔ لیکن اس دفعہ چھن چھن کی آواز نہ تھی۔ ۔اس نے ٹوٹی جھانجر اٹھائی اور جیب میں ڈال لی۔
اگلے دن بابا جانی سے بات کی تو انہوں نے کہا چچا سے پوچھ کر بتائیں گے۔آخر جس کی بیٹی ہے فیصلہ تو اسے ہی کرنا ہے۔ ۔ اور وہ مطمئن ہو گیا ۔ ۔ بھلا چچا اسے انکار کیسے کر سکتے ہیں؟ وہ کسی کا بھی داماد بننے لائق تھا۔ ۔ پھر وہ ہوا جو اسکے وہم و گمان میں بھی نہ تھا۔ ۔ چچا نے انکار کر دیا۔ ۔ جو انکار اس نے کبھی سوچا بھی نہ تھا وہ سہنا کس قدر مشکل تھا صرف وہی جانتا تھا۔ ۔ وہ بابا جانی کے آگے رو دیا۔ ۔ اسکا ہاتھ پکڑ کر بابا جانی اسے چچا کے سامنے لے گئے۔ ۔ بھائی بھائی کے آگے گڑگڑایا " خدا کا واسطہ ہے تمہیں سبطین شاہ۔میرے بیٹے کو خالی نہ موڑ"
" بھائی آپ میرے والد کی جگہ ہیں۔لیکن آپ جانتے ہیں کہ میں یہ رشتہ نہیں دے سکتا۔ آپکی سگی اولاد ہوتی تو میری گردن انکار سے پہلے آپ کے قدموں میں ہوتی۔ لیکن آپ جانتے ہیں ولید کو آپ نے گود لیا ہے ۔ بھلے آپ نے اسے باپ بن کر پالا لیکن اس سے اسے شاہ کہلانے کا حق تو شاید دنیا میں مل جائے لیکن شاہوں کی برابری ۔ ۔ وہ نہ دی جائے گی مجھ سے۔ ۔ میری بیٹی بھلے کنواری مر جائے لیکن آپ بتاؤ۔ ۔ ایک " ایڈاپٹڈ" لڑکے سے کیسے رشتہ جوڑ دوں.وہ بھی ایک سید زادی کا ؟"
" ولید میرا بیٹا ہے۔اسے ایڈاپٹڈ مت کہو۔ ۔ دیکھو۔ ۔ اسکا چہرہ دیکھو۔ ۔ ۔ یہ کسی بھی لڑکی کا خواب ہے۔ ۔ اسکی نیکی ۔ ۔ اسکی شرافت۔ ۔ اسکی تعلیم۔ ۔ اس کے اچھے مستقبل کو دیکھو۔تم سب گواہ ہو کہ اسکی پرورش میں نے کی ہے۔ ۔ اس کی رگوں میں میرا خون بھلے نہیں مگر میری تربیت دوڑتی ہے۔ یہ میرے سائے میں رہا ہے۔ اسے نامراد نہ کرو۔ ۔ میری پگڑی میں تمہارے پیروں پر رکھتا ہوں " چھوٹے چچا نے پگڑی وہیں سے پکڑ لی۔