(Last Updated On: )
ناسا کے پرزروینس روور کی مریخ پر بحفاظت لینڈنگ کے بعد فلائٹ ڈائریکٹر ایرو سپیس انجینئر ڈیانا تروہیئو نے اپنے انٹرویو میں کہا کہ انھیں سرخ سیارے پر ہوئی اس لینڈنگ پر یقین کرنے میں کچھ وقت لگا ۔
وہ کہتی ہیں کہ مریخ سے جب تک تصویریں اور ویڈیو نہیں مل گئ تب تک انھیں اس غیر معمولی کامیابی کا یقین کرنا مشکل ہو رہا تھا۔
مریخ پر اترنا دراصل پرزرونس کا پہلا سٹاپ تھا لیکن تاریخ میں اس کو اپنے نام لکھوانا اور اسکے لئے اگلی کئی دہائیوں تک ریسرچ کی راہیں کھولنا یقینا ڈیانا تروہیئو کے لئے سب سے اہم ہے ۔ اس لڑکی کو بچپن سے جب وہ کولمبیا میں رہا کرتی تھی خلا میں پہنچنے اور اس کائنات کے اسرار جاننے کا شوق تھا ۔ اس کے والدین کی علیحدگی کے بعد اس نے سترہ سال کی عمر میں امریکہ جانے کا فیصلہ کر لیا جب وہ وہاں پہنچی تو اس کے پاس صرف تین سو ڈالر تھے اور اس کو انگلش بھی نہیں آتی تھی ۔ اس نے لوگوں کے گھروں میں کام کر کے اپنی پڑھائی کے اخراجات اٹھائے اور 2007ء میں ناسا کو جوائن کر لیا ۔
تروہیئو اب ناسا کے جیٹ تیار کرنے والی لیب اور مریخ سے سیمپلز اکٹھے کرنے والے روبوٹ کو تیار کرنے والی ٹیم کی ممبر ہے ۔
ان کا کہنا ہے کہ یہ سوال اہم ہے کہ کیا کائنات میں ہم اکیلے ہیں اور مجھے امید ہے کہ اگلے ایک سال تک مریخ سے حاصل کردہ نمونوں کی مدد سے ہم ایسے کئی اور سوالوں کے جواب بھی جلدی دے سکیں گے ۔ میں نے اپنی راہ میں ہر موقع کی تلاش کی مجھے یقین نہیں آتا کہ میں ابھی تک کسی کے گھر میں باتھ روم صاف کر رہی ہوں یا یہاں پر رات کے وقت بھی اپنا کام کر رہی ہوتی ہوں لیکن یہ تو اس سے بہت زیادہ ہے مجھے خوشی ہے کہ میرے پاس جاب اور رہنے کے لئے اپنا گھر ہے میں اپنی پسند کا کھانا خرید سکتی ہوں۔ دراصل ان سب باتوں کی وجہ سے آج میں یہاں ہوں کیونکہ میں نے زندگی کو مختلف طرح سے دیکھنا سیکھ لیا میں نے ہر لمحہ کام کرنا سیکھ لیا کیونکہ ہر لمحے کی اہمیت ہوتی ہے ۔
خلا میں کام کرنے کے پیچھے ان کے خاندان کے کچھ افراد کی کہی گئی باتوں کو غلط ثابت کرنا بھی تھا ۔ انٹرویو میں انھوں نے مزید کہا کہ میں خصوصا اپنے خاندان کے مردوں کو یہ دکھانا چاہتی تھی کہ عورتیں بھی اہم ہوتی ہیں اصل کہانی وہیں سے شروع ہوئی کہ میں ان پر یہ ثابت کرنا چاہتی تھی کہ ہماری کتنی اہمیت ہے ۔
اپنی کالج کی پڑھائی کے بارے میں انھوں نے بتایا کہ یونیورسٹی آف فلوریڈا میں انھیں یہ علم ہی نہیں تھا کہ وہ کیا پڑھنا چاہتی ہیں اور جب وہ ڈین کے پاس پہنچی تو وہاں ایک میگزین پر خواتین خلا بازوں کو دیکھ کر ڈیانا نے ایرو سپیس انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کرنے کا فیصلہ کر لیا لیکن اس پڑھائی کے دوران انھیں احساس ہوا کہ ان کے علاوہ بہت ہی کم ایسے لوگ تھے جو کہ غیر امریکی تھے ۔ انکا کہنا ہے کہ جب آپکے سامنے ایک لمبی سڑک ہو جس کے ہر قدم پر آپکو لگے کہ آپ تو غلط راستے پر ہیں اور آپکو یہاں نہیں ہونا چاہیئے تھا تو یہ سوچ بہت خوفزدہ کر دیتی ہے اپنے کام کے دوران بھی ان کو یہی مسائل درپیش رہے کیونکہ سائنس میں کام کرنے والے وہ چند غیر ملکیوں میں سے تھی اور اب خلائی فلائٹ ڈائریکٹر کے طور پر کام کرتے ہوئے وہ ان سب کی نمائندگی کر رہی تھی ۔
انکا کہنا ہے کہ میں اکیلی تو یہاں تک نہیں پہنچی بلکہ یہاں پر پہنچنے اور ہر کام کرتے ہوئے میں اپنے ملک ، اپنے کلچر ، اپنے لوگوں اور اپنے ورثے کی نمائندگی کر رہی ہوتی ہوں اس لئے مجھے ہمیشہ بہترین کام کرنا ہوتا ہے ۔ میں نے یہاں اپنی موجودگی سے اپنے ملک اور ہسپانوی زبان کے تمام لوگوں اور انکے کلچر کو اہم بنانے کے لئے کام کیا ہے ۔
سٹوڈنٹس ریسرچ فاونڈیشن کے مطابق سائنس اور ٹیکنالوجی میں ہسپانوی لوگ صرف آٹھ فیصد ہیں جن میں سے بھی خواتین صرف دو فیصد ہیں۔ تروہیئو کا خیال ہے کہ اس رکاوٹ کو ختم کرنے کے لئے زیادہ سے زیادہ ہسپانوی لوگوں کو اس میدان میں آنا ہو گا اور اسی سوچ کی وجہ سے اس نے ناسا کے پہلے ہسپانوی زبان میں ہونیوالے براڈکاسٹ کی میزبانی کی جس کو یو ٹیوب پر دو اعشاریہ پانچ ملین لوگوں نے دیکھا اور عورتیں اس سے خصوصا متاثر ہوئیں کیونکہ انکا کہنا تھا کہ جتنی لاطینی خواتین اس میدان میں آئیں گی مستقبل میں اتنے ہی زیادہ سائنسدان اور انجنیئر ہوں گے اور لاطینی بچوں کے لئے انکا یہ میسج تھا ‘لا چسپا ( ایک دن یقینا ہم بھی اس جگہ ہوں گے ) ۔