(Last Updated On: )
تجھ سے بچھڑ کے ہم بھی مقدر کے ہو گئے
پھر جو بھی در ملا ہے اسی در کے ہو گئے
کیا لوگ تھے کہ جان سے بڑھ کر عزیز تھے
اب دل سے محو نام بھی اکثر کے ہو گئے
اے یاد یار تجھ سے کریں کیا شکایتیں
اے درد ہجر ہم بھی تو پتھر کے ہو گئے
(احمد فرازؔ)
جھنگ کے عظیم سپوت استاد مجید امجد یاد آئے۔
میں روز ادھر سے گزرتا ہوں، کون دیکھتا ہے
میں جب ادھر سے نہ گزروں گا، کون دیکھے گا
جھنگ کے فرزند(ر) سیشن جج، لطیف قریشی مجھے کہا کرتے ہیں کہ مجھے یہ اعزاز حاصل ہے کہ میں نے کیپٹن جعفر طاہر کے ’’جوتے‘‘ اٹھائے ہیں۔ مجھے قومی اسمبلی میں اپنے دفتر میں اکثر دیکھ کر، یہ کہتے ہیں کہ ’’میرے شہر جھنگ کی ٹھنڈی ہوا آئی ہے۔ اور وہ اکثر جعفر طاہر صاحب کا یہ شعر سناتے ہیں۔
بٹائیں ہم بھی کبھی درد آبشاروں کا
کسی پہاڑ کے دامن میں رو لیا جائے
میرے رفیق بہت جلد آنے والے ہیں
میرے لہو سے صلیبوں کو دُھولیا جائے
رامؔ ریاض، جھنگ دھرتی اور جدید اردو غزل کا معتبر ترین حوالہ ہے۔
فضا میں کس قدر اُونچی اُڑان رکھتے تھے
ہوا تھمی ہے توکیسے گرے’’دھڑام‘‘ سے لوگ
ایک روز سلیم کوثر صاحب کہنے لگے کہ لفظ ’’دھڑام‘‘ کو اُردو شاعری میں رام ریاض کے علاوہ کوئی نہیں باندھ سکا۔ اور صاحب پہلے مصرعے میں چار بلندی کے استعارے ہیں۔ فضا،کس قدر، اونچی اور اڑان کمال ہے۔
’’رام ریاض‘‘ نے ہی کہا تھا کہ
ہاتھ خالی ہیں تو دانائی کا اظہار نہ کر
ایسی باتوں کا بڑے لوگ بُرا مانتے ہیں
یہ امریکہ کا مشاعرہ تھا۔ میزبان نے کہا کہ سلیم کوثر صاحب کراچی سے تشریف لائے ہیں۔ جھنگ کی مٹی میں گندھی خاتون کھڑی ہوگئی۔ اور انتہائی جذباتی لہجے میں کہا کہ سلیم کوثر انھیں بتاتے کیوں نہیں ہو۔ تم جھنگ سے ہو ۔ سلیم کوثر نے اپنی سینجیدگی اور روایتی مسکراہٹ سے کہا کہ یہ خاتون ٹھیک کہتی ہیں کہ پانی پت سے ہجرت کے بعد، میرے بزرگوں کے قافلے،جھنگ ہی میں اترے تھے۔ سلیم کوثر کی تاریخی غزل کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ استاد نصرت فتح علی خان سے لے کر مہدی حسن خان صاحب تک، ہری ہرنہری ہرن سے لے کر جگجیت سنگھ تک کس نے یہ غزل نہیں گائی۔
میں خیال ہوں کسی اور کا مجھے سوچتا کوئی اور ہے
سر آئینہ میرا عکس ہے، پسِ آئینہ کوئی اور ہے
میں کسی کی دستِ طلب میں ہوں تو کسی کے حرف دُعا میں ہوں
میں نصیب ہوں کسی اور کا مجھے مانگتا کوئی اور ہے
شیر افضل جعفر ی کیا کہنے، جھنگ کے روایتی کُلے، شلوار قمیض اور شیروانی میں ملبوس، گورنمنٹ ہائی سکول جھنگ سٹی میں انھیں متعدد بار دیکھا۔ حسن عسکری ان کا پوتا، پروفیسر ہادی صاحب کا بیٹا، ہماری کلاس میں پڑھتا تھا۔
عشق آفاق کے جنگل کا جواں چیتا ہے
جو میرے نوجوان غزالوں کا لہو پیتا ہے
استاد بیدل پانی پتی، جھنگ کی روایتوں کے امین نے کہا کہ
ہوتے ہیں بہت قیمتی آثار قدیمہ
ہم یوں بھی کسی زخم کو بھرنے نہیں دیتے
ظفر سعید نے کہا کہ
میرے بس میں اگر ہوتا ہٹا کے چاند تاروں کو
میں نیلے آسماں پہ بس تیری آنکھیں بنادیتا
سجاد بخاری نے کہا کہ
جدوں وی پیسے تھوڑے پے گئے
یاراں وچ وچھوڑے پے گئے
منزل ہور وی اُکھی ہوگئی
راہواں دے وچ روڑے پے گئے
حق منگن تے میں کی میرے
گھوڑے نوں وی کوڑے پے گئے
کون، کون، سا رنگ لکھوں حکمت، ادیب، تنویر صاحب، انصاری صاحب، شفیع ہمدم، پروفیسر دیوان الیاس نصیب، پروفیسر شبیر حسین گدا، پروفیسر بشارت صاحب، معین تابش مرحوم،
کسی کے دُکھ پہ میری آنکھ کیوں نہ بھر آئے
ہیں سارے جسم، میرے ساری صورتیں میری
اختر دولتالوی نے جب دولتالہ سے بن واس لے لیا، تو وہ جھنگ کے ہوگئے۔ لکھا
گل جدوں وی گلاب تے ہوسی
دل کسی دا عذاب تے ہوسی
عشق جتیا کہ جیت گئی دنیا
فیصلہ اے چناب تے ہوسی
جھنگ کے بیٹے محمود شام نے کہا کہ
مجھے چناب نے پالا تو سندھ نے سینچا
میرے مزاج سے دریا دلی کبھی نہ گئی
( ویسے یہ شعر ان کی اور میری مشترکہ کہانی کی یاد دلاتا ہے۔ہم نے اپنے ابتدائی ایام جھنگ اور عملی زندگی کی جنگ کراچی میں لڑی)
ڈاکٹر وزیر آغا نے بھی اپنی علمی پیاس جھنگ کالج سے ہی بجھائی۔
ایک وقت تھا۔ جھنگ کے 70سے زائد شعرا، قومی منظر نامے پر ستاروں کی طرح چمکتے تھے۔ ایک روز ایک صاحب کہنے لگے، جھنگ دیکھا تو مایوسی ہوئی۔ میں سمجھتا تھا۔ کوئی جدید شہر ہوگا۔ میرے ساتھ انجینئرنگ یونیورسٹی لاہور یمں صرف ایک ٹیکنالوجی کے اندر 38لڑکے جھنگ سے تھے۔ آپ کا کوئی فاران کالج ہے۔ وہاں سے پڑھے تھے۔ اتنا ٹیلنٹ اور شہر کی یہ حالت سمجھ نہیں آتی۔
میں ہنس دیا۔ کہا کہ پہلے ہم لوکل، مہاجر کے چکر میں پھنسے رہے۔ وہاں سے نکلے تو فرقہ واریت کے دیو نے آدم بو، آدم بو کرتے ھو، آلیا۔ اس سے نکلنے کی کوشش کرتے ہیں تو، اس کے ’’بینیفشری‘‘ ہمیں نکلنے نہیں دیتے۔
ایک ایڈیشنل آئی۔ جی یسین فاروق نے کہا کہ میں نے بے غرض شرفاء صرف جھنگ میں دیکھے ہیں۔ حالانکہ ہر جھنگ میرا ”سُسرائیل“ ہے۔کیپٹن فضائل مدثر اپنی اے۔ سی۔شپ کے جھنگ میں گزارے ایام آج بھی یاد کرتا ہے۔
میں کبھی، کبھی، سوچتا ہوں کہ کاش ہمیں کوئی سردار احمد نواز سکھیرا جیسا ڈی۔ سی۔ مل جاتا۔ جیسے انہوں نے اسلام آباد کلب کی شکل ہی بدل دی۔ شیخوپورہ میں، بطور ڈی۔سی کیا کام کیا۔ محمد آصف جیسا کرکٹر، اس ملک اور دنیا کو دیا تھا۔ ہائے بدقمستی!!! سکھیرا، نہ جھنگ کو ملا اور نہ ہی پاکستان کی اُس ’’سیٹ‘‘ کو، جہاں وہ ہوتا تو ملک ہی بدل جاتا۔
75سالوں سے پاکستان اور جھنگ، بدقسمتی کی سڑک پر ہیں۔ پتا نہیں، خوشحالی، امن اور محبت کا موٹروے کب آئے گا۔
جھنگ نے ہزاروں پروفیشنل پیدا کئے ہیں۔ مگر عجیب بات ہے کہ وہ نہ چاہتے ہوئے بھی، ہجرت پر مجبور ہوتے ہیں۔
آپ گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج جھنگ کو دیکھ لیں۔ اگر وہاں دس ہزار طلباو طالبات پڑھ رہے ہیں۔ گورنمنٹ غزالی کالج، جہاں پہلے رانا شرافت علی خان پرنسپل تھے۔ اب منیف ظفر صاحب، یہاں نئے جہان تخلیق کررہے ہیں۔
جھنگ جس کے چاروں جانب زخیز زمینوں پر تاحدِ نظر کمال فصلیں لہلہاتی ہیں۔ جس کی مٹی وفا، دوستی، محبت، چاہت، مہمان نوازی سے گُندھی ہوئی ہے۔ وہ اپنے دامن میں چناب اور جہلم کو سموتا نہیں، بلکہ انھیں ایک کردیتا ہے۔ یہ زمین کمال کشش رکھتی ہے۔ یہ دونوں دریا، اسی لٸے, سرزمینِ جھنگ کی بات بھی مان لیتے ہیں اور زمینوں، نگاہوں کو سیراب کرتے ہیں۔ دو، دریا، ایک تریموں ہیڈ ورکس, 15 کلو میٹر کے داٸرے میں اس کے اس کا طوُاف کرتے ہیں۔ اور یہاں کے لوگ آلودہ پانی پی رہے ہیں۔ ہیں نا، عجیب بات، عظیم زرخیز زمینیں ہیں۔ زرعی یونیورسٹی فیصل آباد میں بنا دی گئی۔ ایک گھٹیا سے ہسپتال اس شہر کا مقدر ہے۔ سیوریج کا ناقص انتظام، جابجا، دُھول، مٹی، ٹوٹی سڑکیں، گلیاں، اندھیری گلیاں، سکڑتے گرائونڈز، باغات کی تباہی، ترستی نگاہیں، 40سال کی عمر کے بوڑھے جوان، آپ کو یہیں ملیں گے۔
اس شہر نے ریاست کو بہت کچھ دیا۔ کبھی اس کا سپوت نوبل پرائز لاتا ہے۔ کبھی انٹرنیشنل ایمپائر, وہ بھی نمبر ون بنتا ہے۔ کبھی اس کا بیٹا پیراشوٹ سے کودنے کی بجائے اپنا ہوائی جہاز پٹھانکوٹ کے ہوائی اڈے پر بارود سے بھرے جہازوں سے ٹکرا دیتا ہے۔ کوئی تنقید کا ”جن“ بن جاتا ہے۔ کبھی کوئی جدید غزل کا بانی قرار پاتا ہے۔ کوئی کنسٹریکشن کنگ بن جاتا ہے۔
حضور!!!
ہمیں بتایا تو جائے،تخت لاہور اور تخت اسلام آباد کو ہم سے مسئلہ کیا ہے۔ ہمیں کیوں برباد کیا جارہا ہے۔ ہمارے گرائونڈز کیوں ویران ہورہے ہیں۔ ہمارے شہر کے بچوں کے پاس وہیں روزگار کیوں نہیں ہے۔ کبھی یہ سب سے بڑا ضلع ہوتا تھا۔ لائلپور اس کا قصبہ ہوتا تھا۔ لوگ افسر شاہی میں طعنے مارتے تھے کہ کیا تم ڈی۔ سی جھنگ لگے ہوئے ہو۔ آج حالت یہ ہے۔ ڈی۔ سی آفس اور ہائوس کی سڑک کے بھی حالات نہیں ہیں۔ ایک بے رونق کمپنی باغ اور سامنے چند کینال کا پارک، اس کی واحد تفریح گاہ ہے۔ سینماز، مارکیٹوں میں تبدیل ہوگئے۔ تجاوزات اللہ کی پناہ ہے۔
یہاں کی سیر گاہ کیا ہے۔ شہر کے حفاظتی بند کے ساتھ صبح کی سیر۔ خیر سے سیم نالے نے وہ راستے بھی دہائیاں ہوٸیں مسدود کردیئے۔ چار پُل ہیں۔ وہاں سے گزر سکتے ہیں تو گزر جائیں۔ سرگودھا روڈ والا پُل تو کسی بھی روز گر جائے گا۔
جھنگ میں ابھرنے والا ہر سورج، روز ہی مکمل اداسی کے ساتھ تبدیلی کی اُمید لئے غروب ہوجاتا ہے۔ جیسے اس کے بیٹے ابھرتے ہیں اور پھر دوسرے شہروں میں جاغروب ہوتے ہیں۔ بے بسی سے ہاتھ ملتے ہیں۔ روز اپنے شہر، اس کے باسیوں، راستوں اور رشتوں کو باد کرتے ہیں۔ اور خواب نگر میں، اسے ترقی یافتہ بنا کر، سوجاتے ہیں۔ مجبور ہیں۔ مگر غاصب جو چاہیں کرلیں۔ ہم جھنگ اور جھنگ والوں کی محبت سے دستبردار نہیں ھو سکتے۔ یہ بات بہت سوں کو سمجھ نہیں آئے گی۔
یہ شہر محبت ہے!!! اسے رنگ لگے گا
جس شہر سے بھی گزرو تمہیں جھنگ لگے گا .