مسجد تو بنالی پل بھر میں ایماں کی حرارت والوں نے
من اپنا پرانا پاپی تھا برسوں میں لیگلائز کروا نہ سکا
سپریم کورٹ نے طارق روڈ پر واقع مدینہ مسجد کی جگہ پر ایک ہفتے میں پارک بحال کرنے کا حکم دے دیا۔
راج کپور نے ایک فلم بنائ تھی جس کا نام تھا “ رام تیری گنگا میلی ہوگئ”
اس کا ایک گیت ہے کہ
رام تیری گنگا میلی ہوگئ
پاپیوں کے پاپ دھوتے دھوتے
یعنی پاک اور پوتر کرنے والی گنگا جیسی عظیم الشان ندی بھی پاپیوں کے پاپوں کی کثرت سے بجائے خود ناپاک اور کالی ہوگئ۔ یہی حال کراچی کا ہے کہ کراچی کو رشوت خور افسران و سیاستدانوں کے کرتوتوں سے پاک کرنے کے چکر میں پورا کراچی منہدم ہوجائے گا لیکن یہ افسران و محکمے باز نہیں آئیں گے۔ بلکہ منہدم شدہ کراچی پر یہ افسران و محکمے دوبارہ ناجائز تجاوزات کھڑی کروا دیں گے
اصل کام ان پاپیوں کو کیفر کردار تک پہنچانا ہے ورنہ گنگا مزید میلی ہوتی رہے گی۔
طارق روڈ جیسے مصروف ترین گنجان علاقے میں یہ مسجد گزشتہ 29 برس سے دکانداروں اور گاھکوں کے لئے ایک بہت بڑی سہولت ہے۔ اس مسجد کی عمارت میں کوئ بھی دکان وغیرہ قائم نہیں ہے۔
یہ مسجد اگر پارک کی زمین پر تعمیر کی گئ ہے تو سیدھا سیدھا KDA اور KMC اور KBCA کے ان تمام عہدیداروں کو پکڑ کر جائداد ضبط کی جائے اور جیل میں ڈالا جائے جنہوں نے اس مسجد کی تعمیر کی اجازت دی اور زمین کی رقم وصول کی۔
اب مسجد کے پلاٹ کی مد میں جو رقم ادا کی گئ وہ سرکاری بیت المال میں گئ۔ پلاٹ پہلے بھی عوامی رفاحی پلاٹ تھا اور مسجد بھی خالصتا” عوامی و دینی و دنیاوی رفاح عامہ و عبادت کے لئے استعمال ہورہی ہے۔ اب یہ کام سرکار کا ہے کہ مسجد شہید کرنے کے بجائے اپنے کارندوں سے بازپرس کرے کہ کس نے کتنا پیسہ لیا ہے اور کس نے پارک کی زمین پر مسجد بنانے کی اجازت دی۔
ظاہر سی بات ہے کہ یہ مسجد طارق روڈ کے دکانداروں نے اپنی اور گاھکوں کی سہولت کے لئے آپس میں رقم اکٹھی کرکے امداد باہمی کے تحت بنائ ہوگی جس کے پیچھے کسی بھی قسم کا کوئ مالی مفاد یا کمرشل فائدہ اٹھانا نہیں تھا۔ انہوں نے اس زمین کی قیمت ادا کی ہوگی۔ معلوم کیا جائے کہ زمین کی قیمت کس نے وصول کی؟ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ یہ مسجد آج سے کوئ انتیس تیس سال پہلے 90 کی دھائ کے اوائل میں بننی شروع ہوئ تھی اور اس کی تعمیر کے لئے یہاں ایک چندے کا باکس بھی دھرا ہوتا تھا۔ اب ظاہر ہے کہ طارق روڈ کے دکانداروں نے تو زمین خرید کر یہ مسجد بنائ ہے۔ کوئ ناجائز قبضہ کرکے تعمیر نہیں کی ہے۔ آدھے سے زیادہ کراچی ناجائز تجاوزات پر قائم ہے۔ یہ کس نے بیچا ہے؟ کون کون اس میں شامل ہے۔ سیدھی سی بات ہے کہ سندھ حکومت اور سرکاری محکمے اور مقامی حکومتیں سب اس میں شامل ہیں۔
چیف جسٹس صاحب حکم کریں۔ سارے کُھرے مل جائیں گے، سب کو پکڑ کر لٹکائیں۔ جب تک ایسا نہیں کریں گے یہ کرپشن کی فیکٹریاں چائنا کٹنگ اور رفاحی پلاٹس بیچ کر اپنے جہنم بھرتے رہیں گے۔ کیا مسجد گرانے سے یہ رشوت خور افسران اور ان کے کرتوت ختم ہوجائیں گے؟ برائ کو ہمیشہ جڑ سے کاٹا جاتا ہے۔ یہ مسجد باقاعدہ ایک فعال مسجد ہے جس میں روزانہ سینکڑوں کی تعداد میں نمازی امام کی اقتدا میں پنج وقتہ نماز ادا کرتے ہیں اور یہ عمل گزشتہ تیس برس سے جاری ہے۔ یہ مسجد نسلہ ٹاور نہیں ہے کہ چند سو لوگ احتجاج کرکے پولیس اور رینجرز کے تشدد سے گھبرا کر بھاگ جائیں گے بلکہ اگر اس کو منہدم کرنے کی کوشش کی گئ تو نقص امن و امان کا شدید ترین خطرہ ہے۔ ایسا بدترین فساد و احتجاج ہوگا کہ جس کو سنبھالنا شاید ریاست کے بس کی بات بھی نہ رہے۔ یہ مسجد اھلیان کراچی کسی بھی قیمت پر شہید نہیں ہونے دیں گے۔
چیف جسٹس صاحب بڑی بڑی عوامی رہائشی عمارتیں اور مساجد گرانے کے فیصلے دینے سے پہلےقبضہ کی گئی سڑکیں اور سروس روڈز تو بحال کروائیں
کارساز کی سروس روڈ بمعہ گرین بیلٹ، بلاول ہاؤس کی مرکزی شاہراہ ،ضیاء الدین اسپتال (نارتھ ناظم آباد) کی سروس روڈ اور شہر کے بیشتر امام بارگاہ کے آگے سیکیورٹی کے نام پر سروس روڈ گھیر کر مکمل طور پر بند کر دی گئی ہیں جو عوام کے لیے شدید پریشانی کا باعث ہیں
یہ کب واگذار کرائی جائیں گی؟؟؟؟؟
آخر چیف جسٹس صاحب ہر غیر قانونی تعمیر کے ذمہ دار سرکاری اور سندھ حکومت کے محکموں کے سرکاری افسران کے خلاف کھل کر کاروائ کا حکم کیوں نہیں دیتے۔ یقینا” لیز، ڈیِڈ، NOC, اور دیگر تمام تحریری اجازت ناموں پر مجاز افسران کے دستخط و مہریں موجود ہونگی۔ سب کو لائن حاضر کیا جائے۔ خواہ حاضر سروس ہوں یا ریٹائرڈ۔ ان کو ملازمتوں سے فارغ کیا جائے اور ان کی جائدادیں ضبط کرکے ملک و قوم کا پیسہ ان کے حلق سے نکال کر لمبے عرصے کے لئے جیل میں ڈالا جائے۔
اگر چیف جسٹس صاحب واقعی ناجائز تجاوزات اور کرپشن کے خاتمے کے لئے مخلص ہیں تو ان کے لئے یہ قدم اٹھانا ناگزیر ہوگا۔ یہ کئے بغیر اس عمل کی بیخ کنی محض ایک خواب ہی ہوگی۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...