(Last Updated On: )
گزشتہ سال 2021 کا جب آغاز ہوا تو کپتان نے کہا تھا کہ معاشی ترقی کا سال شروع ہوگیا ہے اب کوئی بھوکا نہیں سوئے گا۔بھوک سے نڈھال جنتا میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ۔امید کی ایک نئی کرن کیا ملی جنتا نے خوشحال زندگی کے خواب دیکھنے شروع کردئیے ۔اعلان کسی کرپٹ سیاست دان نے نہیں بلکہ ایک مستند صادق اور امین کی طرف سے کیا گیا تھا اس لیئے خواب دیکھنا عین فطری عمل تھا۔ دوسرے لفظوں میں اس کا مطلب مرزا نوشہ کی شاعری میں کچھ یوں تھا کہ اک برہمن نے کہا ہے کہ یہ سال اچھا ہے۔دو وقت کی روٹی کو ترستے ہوئے شودروں کے لیئے یہ اعلان گویا سیاسی اشرافیہ کے برہمن کی طرف سے ہی تھا۔ مہاپجاری کے اس اعلان سے ہی لوگوں نے پتھر کے بتوں سے فیض پانے کی امیدیں لگالیں۔
جیسے جیسے وقت گذرتا گیا تو جنتا کے خواب بکھرنے لگے۔خوشحال زندگی کی خاطر باندھے گئے منت کے دھاگے ایک ایک کرکے ٹوٹنے لگے۔مندروں کی گھنٹیوں کی جگہ انسانی آہ وبکا کی آوازوں نے لے لی ۔آئے روز خراب ہوتی معاشی صورتحال نے جنتا کی آنکھوں میں کئی سوال پیدا کردئیے۔سوال کرتی نظریں پتھر کی مورتیوں اور برہمن کا تعاقب کرنے لگیں۔مگر جواب ندارد۔ سوال اپنی جگہ پر قائم مگر پتھروں سے اور پتھر دل برہمن سے کس شودر کی ہمت ہے کہ جواب طلب کرئے ۔دیکھتے ہی دیکھتے ہر چیز مہنگی ہوتی گئی ۔عالمی ساہوکاروں سے حاصل کیئے گئے قرضوں کو آخر چکانا بھی تھا لہذا ہر سہولت واپس لیتے ہوئے نت نئے ٹیکسز کا ایک منی بجٹ پیش کیا گیا۔شور شرابے اور طوفان بدتمیزی میں بھی اس قدر ہوش رہا کہ نقصان اشرافیہ کا پھر بھی نہیں ہوا بلکہ عام جنتا کا ہی ہوا۔کیا بے خودی ہے کہ بندہ عش عش کراٹھے۔
رہی بات مرزا نوشہ کی تو عرض ہے کہ احمد فراز تنگی حالات سے گھبرا کر مرزا نوشہ سے پوچھ ہی لیا کہ نہ شب وروز ہی بدلے ہیں نہ حال اچھا ہے ، کس برہمن نے کہا تھا کہ سال اچھا ہے ۔اب مرزا نوشہ ہوں تو جواب دیں کہ وہ کس برہمن کی پیش گوئی کو بیان کررہے تھے ۔پیش گوئیوں کا کیا ہے کوئی بھی کرسکتا ہے ۔کنٹینر پر کھڑے ہو کر ایک نہیں ، دوچار بھی نہیں بلکہ بے شمار پیش گوئیاں کی تھیں ۔وزیراعظم اور گورنر ہاوسز کو تعلیمی ادارے بنانے کی پیش گئی ، لوٹی ہوئی دولت ملکی خزانے میں جمع کرانے کی پیش گوئی ،پچاس لاکھ گھراور ایک کروڑ نوکریوں کی پیش گوئیاں کون بھول سکتا ہے ۔ارے ہاں قرض لینے کی بجائے پھانسی کو ترجیح دوں گا جیسا آفاقی اعلان بھی تو کیا تھا۔
مگر احمد فراز جیسے جہاں دیدہ انسان کو رہروان رہ الفت کا مقدر معلوم تھا اسی لیئے انہوں نے بتا دیا تھا کہ ان کا آغاز ہی اچھا نہ مال اچھا ہے ۔ایک سو بہترین معاشی ماہرین کی دعویدار تبدیلی سرکار کی عملی طورپر حقیقت یہ ہے کہ پے در پے معاشی ماہر بدلنے پڑے مگر معاشی حالات پھر بھی ٹھیک نا ہوسکے ۔دیگر اشیا کو چھوڑیں روزمرہ کی بنیادی ضروریات جس میں آٹا 45 سے 70،چینی 65 سے 105 پر پہنچ گئ جبکہ ڈالر 180 پرپہنچ کر بھی قابو میں نہیں آرہا تو اس کے بعد گنجی کیا نہائے گی اور کیا نچوڑے گی ۔بجلی ، سوئی گیس، پٹرول ، ادویات کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافہ صرف اور صرف نالائقی اور نااہلی کا نتیجہ ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ مہنگائی سے پریشان اور تنگ عوام نے ضمنی انتخابات اور خیبر پختون خوا کے بلدیاتی انتخابات میں شدید ردعمل دیا ہے۔ مگر یہ ٹریلر تھا اور ابھی عام انتخابات کی پکچر ابھی باقی ہے ۔
آئندہ عام انتخابات اگلے سال ہونے ہیں لہذا تبدیلی سرکار کا ہنی مون پیریڈ کب کا ختم ہوچکا اب کارکردگی دکھانے کا وقت ہے اور حالت یہ ہے کہ آخری ایک ڈیڑھ سال میں ریلیف دینے کی بجاے آئے روز پٹرول اوربجلی کے نرخوں میں اضافہ کیا جارہا ہے ۔ملک کی تاریخ میں پہلی بار کسان دس ہزار کی ڈی اے پی اور تین ہزار سے آٹھ ہزارروپے تک یوریا خریدنے پر مجبور ہیں ۔گندم کی فی ایکڑ کاشت کا خرشہ کئی گنا بڑھ چکا ہے مگر گندم کے مقرر کردہ نرخ سے اخراجات بھی پورے نہیں ہونے مطلب یہ کہ اس نئے سال میں کسان بھی معاشی طورپر برباد ہوجائے گا۔جبکہ اندازہ لگایا گیا ہے کہ اس سال چینی کی قیمت میں بھی خاطر خواہ اضافہ ہوگا اور 17 فیصد سیلز ٹیکس لاگو ہونے کے بعد مہنگائی کا ایک اور سونامی بھی آنے کو تیار ہے۔
اس سب کے باوجود کپتان پرعزم ہے کہ حالات بہتر ہوجائیں گے مہنگائی میں کمی ہوگی اور ملکی معیشت ٹھیک سمت میں سفرکرنے لگے گی ۔آئی ایم ایف کے معاشی پلان پر کام کرنے والی سرکار کی خوش فہمی اپنی جگہ مگر کیا دنیا میں کوئی اور ملک بھی آئی ایم ایف کے روڈ میپ پر کام کرکے خوشحال ہوا ہے کیا؟اگر کوئی خوشحال ہوا ہے تو بتا دیں ۔ نئے سال پر پیش گوئی یہ ہے کہ کچھ بہتر نہیں ہونے والا ۔مہنگائی اور بے روزگاری کے ساتھ ساتھ قرضوں میں بھی اضافہ ہوگا۔اب بات حکومت کی مدت کی نہیں بلکہ حکومت کو دی گئی مہلت کی ہورہی ہے مطلب یہ کہ عمران پراجیکٹ بری طرح ناکام ہوچکا ہے۔
رہی بات اپوزیشن جماعتوں کی تو حکومتی کارکردگی کی بدولت حکومت پر نااہلی اور نالائقی کے الزامات کے بیانیے کو تقویت ملی ہے۔پی ڈی ایم مارچ میں حکومت کے خلاف صرف مارچ کرئے گی باقی حکومت کے جانے کا چانس اس لیئے زیادہ نہیں ہے کہ فی الوقت کوئی سیاسی جماعت اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ وہ حکومتی غلطیوں کا ملبہ صاف کرسکے لہذا سیاسی حکمت عملی یہی ہوگی کہ حکومت کو مدت پوری کرنے کی مہلت دی جائے تاکہ تبدیلی کی ٹھیک تصویر عوام کے سامنے آسکے اور حکومت کو مظلوم بننے کا موقع نا ملے ۔اس ضمن میں سوال یہ نہیں کہ حکومت حالات کب تک ٹھیک کرئے گی سوال تو یہ بنتا ہے کہ کیا آئندہ بننے والی حکومت میں حالات ٹھیک ہوجائیں گے ؟؟