بابائے سوشلزم شیخ رشید، ملک معراج خالد، حنیف رامے اور راؤ رشید، یہ میرے اُن دوستوں میں شمار ہوتے ہیں جنہوں نے پچھلی صدی کے آغاز میں آنکھ کھولی۔ میں جب اوائل نوجوانی میں داخل ہوا تو میری زندگی میں زیادہ تر دوستوں کا تعلق اسی نسل سے تھا۔ اس نسل کے لوگوں سے دوستی نے میری عملی زندگی میں وہ کچھ متعارف کروادیا، جو انہوں نے اپنی جوانی میں برپا کیا۔
میں نے جب یونیورسٹی میں داخلہ لیا تو میرے ایک دوست تلمیذ حقانی میرے ہاں آئے اور والدہ سے کہا کہ میں فرخ کا دوست ہوں، اُن سے کہیے گا کہ میری ریٹائرمنٹ کے بعد میرے دفتر کے لوگ مجھے الوداعی تقریب میں مدعو کررہے ہیں، اُن کا آنا بہت ضروری ہے۔ میں جب گھر آیا تو والدہ نے پیغام تو دیا، مگر تعجب سے گلہ بھی کیا کہ میری حسرت ہی ہے کہ کبھی میرے بیٹے کا کوئی ہم عمر دوست بھی میرے بیٹے کو ہمارے ہاں ملنے آئے۔ تلمیذ حقانی میرے سیاسی دوست نہیں تھے۔ وہ میرے اُن دوستوں میں شمار ہوتے ہیں جن کا تعلق سیاحت سے تھا۔ اُن کی سیاحتی دلچسپی میں تین ممالک کو خصوصی اہمیت حاصل تھی، ترکی، سپین اور سری لنکا۔ پاکستان کے معروف ادیب مستنصر حسین تارڑ انہیں اپنا استاد کہتے ہیں۔ مرحوم تلمیذ حقانی نے ہی مستنصر حسین تارڑ کو ترغیب دی کہ وہ اخبار میں سفرنامے کو کتابی شکل دیں۔ انہوں نے ہی مستنصر حسین تارڑ کی پہلی اور مقبول ترین کتاب کا نام تجویز کیا تھا، ’’نکلے تیری تلاش میں‘‘۔ انہوں نے ہی میرے کالج کے زمانے میں مجھے مستنصر حسین تارڑ سے رشتۂ دوستی میں منسلک کروایا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ تلمیذ حقانی کے میرے ہاں آکر مجھے دعوت دینے کے کچھ روز بعد موٹر سائیکل پر ایک نوجوان میری عدم موجودگی میں میرے گھر آیا اور والدہ کو پیغام دیا کہ فرخ سے کہیے گا کہ اُن کا ہم جماعت زاہد عزیز آیا تھا۔ جب میری والدہ نے مجھے میرے ہم جماعت کا پیغام دیا تو وہ کھلکھلا کر ہنس رہی تھیں۔ شکر ہے تمہارے کسی ہم عمر دوست کو دیکھا۔ زاہد عزیز آج کل ایک کالج میں شعبہ سیاسیات کے صدر نشیں ہیں۔
میرے ان چار دوستوں نے جس طرح مجھ پر اعتماد کیا، وہ میری زندگی کا قیمتی اثاثہ ہے۔ اور ایسے کئی دوست ہیں جو مجھے پچھلی صدی کے اپنے تجربات، مشاہدات، واقعات کو میرے حافظے کی وراثت میں منتقل کرگئے۔ آج میں پچاس کی دہائی پوری چکا ہوں، لیکن مجھے پچھلی صدی کے آغاز کے سیاسی، سماجی اور انقلابی واقعات یوں معلوم ہیں جیسے وہ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھے اور وہ مجھ پر بیتے۔ جن میں بمبئی میں بحری جہاز کے ہندی ملازمین کی ہڑتال کا واقعہ بھی شامل ہے۔ یہ واقعہ ملک محمد قاسم مرحوم سے دوستی کے سبب میرے حافظے پر نقش ہوگیا۔ ملک قاسم مرحوم کا تعلق بھی میرے انہی دوستوں کے خزینے سے ہے۔
راؤ رشید میرے کس قدر دوست تھے، اس کی مزید تصدیق اُن کی وفات کے بعد ان کی بھابھی غزالہ نے کی، جن کے ہاں راؤ رشید نے اپنی زندگی کے آخری سال گزارے۔ غزالہ بھابھی کہنے لگیں، فرخ آپ کو علم نہیں کہ راؤ صاحب آپ سے کس قدر محبت کرتے تھے۔ میں نے کہا، مجھے معلوم ہے۔ انہوں نے کہا کہ شاید آپ کو پورا علم نہیں ۔ ایک بار جب آپ اُن سے ملنے آئے تو انہوں نے اپنے واحد نوکر کو صرف اس بنیاد پر نکال دیا کہ تم نے فرخ کو اُس کے احترام کے مطابق ریسیو نہیں کیا۔ وہ غصے میں بولے جا رہے تھے اور کہا کہ تم فوراً نکل جاؤ۔ غزالہ بھابھی کہنے لگیں کہ اُن سے ملنے بڑے بڑے لوگ آتے تھے۔ راؤ صاحب کہنے لگے، میرے نزدیک فرخ کے سامنے ان کی حیثیت کیا ہے۔ فرخ واحد آدمی تھا جس نے پارٹی کے نظریاتی زوال کے دنوں میں لوہے کے سریے کھاتے کھاتے اپنے آپ کو لہولہان کروا لیا۔ پاکستان کی تاریخ کا ایک ایمان دار ترین افسر راؤ رشید جو کسی حاکم کو بدعنوانی پر گردن جھکانے پر مجبور کر دیتا تھا۔ میرا یہ دوست جو افسر شاہی کے عروج سے جنرل ضیا کے آمرانہ اقدام کے سبب سیاست میں دھکیل دیاگیا اور جس نے ذوالفقار علی بھٹو کے انصاف اور سچائی کے لیے اپنا سب کچھ قربان کردیا، کیرئیر اور دن اور رات جیلوں کی نذر کر دئیے۔
جب ذوالفقار علی بھٹو مقبولیت کے عروج پر تھے، راؤ رشید بائیسویں گریڈ میں تھے اور وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے خصوصی سیکریٹری تھے۔ بڑے بڑے وزرا اُن کے سامنے چپ سادھے ہوتے تھے۔ اس لیے کہ وہ سچ کے سوا کچھ نہیں کہتے تھے اور حق کے سوا کچھ نہیں کرتے تھے۔ جب محمد احمد خان کا قتل ہوا، وہ اس وقت آئی جی پنجاب تھے۔ وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو اطلاع ہوئی کہ رضا قصوری قتل کی ایف آئی آر میں وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کا نام لکھوانا چاہتا ہے۔ وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے کہا، رکاوٹ کس بات کی ہے۔ جب 5جولائی 1977 کو جنرل ضیا نے مارشل لاء مسلط کیا تو وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو سمیت تمام حکومتی اوراپوزیشن سیاست دانوں کو فوجی حکومت نے اپنی حراست میں لے لیا جن میں بائیسویں گریڈ کا یہ خوب صورت اور خوب سیرت بیوروکریٹ بھی شامل تھا۔ اُن کو ضیا نے اس وقت پہلی بار رِہا کیا جب لاہور ہائی کورٹ نے ذوالفقار علی بھٹو کو سزائے موت سنا دی۔
پاکستان کی تاریخ میں سب سے طویل عرصے تک قائم رہنے والا سیاسی اتحاد ایم آر ڈی (Movement for the Restoration of Democracy) تھا جس میں گیارہ جماعتوں نے تقریباً ایک دہائی مسلسل جنرل ضیا کی آمریت کے خلاف مزاحمت کی۔ اس کا مرکز پنجاب تھا اور انقلاب سندھ سے پھوٹا۔ البتہ سب سے زیادہ قربانیاں پنجاب نے دیں۔ راؤ رشید نے ایم آر ڈی کو اپنی جرأت اور دلیری سے پنجاب میں ضیا آمریت کے خلاف سربلند رکھا۔ اُن کی خود نوشت ’’جو میں نے دیکھا‘‘ پاکستان کی مقبول ترین کتابوں میں شمار ہوتی ہے۔ آئی جی پنجاب اور وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے سیکریٹری خاص، بائیسویں گریڈ کی کرسی سے اٹھا کر جیل میں ڈال دئیے جانے والے میرے اس سربلند دوست راؤ رشید کا ایک دن فون آیا، کہنے لگے، فرخ تم خوش قسمت ہو۔ میں نے پوچھا کہ کیا ہوا، میری لاٹری نکل آئی۔ کہنے لگے، ہاں تمہاری لاٹری نکل آئی کہ تم میری زندگی میں واحد خریدی جانے والی پراپرٹی کے گواہ بننے والے ہو۔ اپنی چند ایکڑ زمین بیچنے اور ریٹائرمنٹ کے بعد ملنے والے پراویڈنٹ فنڈ کو جمع کرکے انہوں نے ڈیفنس میں دس مرلے کا ایک مکان خریدا۔ جب پراپرٹی ڈیلر نے کاغذات مکمل کرلیے تو کہنے لگا، پہلی مرتبہ ایسا پولیس افسر دیکھا، وہ بھی آئی جی سطح کا بلکہ اس سے بھی اوپر ، جو زندگی کے آخری سالوں میں اپنا مکان خریدنے کے قابل ہوا۔ ہمارے ہاں تو ایک اے ایس آئی، ڈی ایس پی سطح کے پولیس عہدے دار آتے ہیں، جو پانچ پانچ مکانوں اور بے حساب پراپرٹی کے مالک ہیں۔ کہنے لگے، ہاں، وہ راؤ رشید نہیں۔
مرتضیٰ بھٹو نے پاکستان واپسی کا فیصلہ کیا۔ حسب روایت ہم دونوں دوستوں نے مرتضیٰ بھٹو کی وطن واپسی کے حوالے سے خوب گپ شپ کی۔ میں نے راؤ رشید صاحب سے کہا کہ آپ مرتضیٰ بھٹو کا ساتھ دیں۔ وہ خاص راجپوتانہ انداز میں کہنے لگے کہ اب مجھے تیسرے بھٹو کی خدمت کرنی ہے۔ میں نے کہا، نہیں اُسے دانا لوگوں کی ضرورت پڑے گی۔ بڑی مشکل سے ایک کالم لکھنے پر مائل ہوئے اور انہی باتوں کو انہوں نے ایک انگریزی روزنامے میں لکھ دیا۔ مرتضیٰ بھٹو نے ان کا کالم دمشق میں پڑھا اور اس کالم کا جواب لکھ دیا، میں آپ کی بہادری کا مداح ہوں۔ ذوالفقار علی بھٹو نے جیل میں لکھی اپنی کتاب میں راؤ رشید کو جو Tributeدیا، یہ اس کا تسلسل تھا۔ مرتضیٰ بھٹو، پاکستان آئے، انہوں نے اپنی پارٹی بنائی اور وہ اس کے سیکریٹری جنرل بنے۔ مرتضیٰ بھٹو پابند سلاسل ہوئے۔ ان کے خلاف قائم مقدمات کی تلاش کرنے میں انہوں نے مجھے کہا اور میں میاں جہانگیر مرحوم کے ہمراہ اس کام میں جت گیا۔ اور پھر ہم نے ضیا دور میں قائم تمام مقدمات کی فائلیں ان تک پہنچا دیں۔
بے نظیر بھٹو اور مرتضیٰ بھٹو کی سیاست کا تصادم ہوا۔ لوگ یقین نہیں کرتے تھے۔اس لیے کہ لوگ اقتدار کی تاریخ پڑھتے ہیں مگر پڑھنے کے بعد بھول جاتے ہیں۔ تصادم میں ایک وقت آیا کہ بھٹو خاندان میں صلح کی کوششیں شروع ہوئیں اور پھر ایک دن یہ خبر جنگل میں آگ کی طرح پھیل گئی کہ مرتضیٰ بھٹو اپنی بہن وزیراعظم بے نظیر بھٹو سے ملنے وزیراعظم ہاؤس چلے گئے۔ راؤ رشید کا فون آیا، فرخ فوراً آؤ۔ اپنا کمپیوٹر کھولا اور وہ خط دکھانے لگے جو انہوں نے مرتضیٰ بھٹو کو بھیجنے کے لیے کمپوز کیا تھا۔ آپ بے نظیر بھٹو کے بھائی کے علاوہ پی پی پی (شہید بھٹو) کے چیئرمین بھی ہیں۔ آپ پارٹی سے اجازت لیے بغیر کیسے پی پی پی کی چیئر پرسن سے ملنے جا سکتے ہیں۔ کچھ ہفتوں مجھے پھر اپنے ہاں بلایا اور موضوع تھا کہ کراچی میں مرتضیٰ بھٹو کے لاتعداد ساتھی گرفتار ہو رہے ہیں۔ وہ کہنے لگے کہ فرخ! یہ کیا ہو رہا ہے؟ میں نے کہا، خطرناک بات ہے۔ علی سنارا کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ اس نے اپنے بھارتی ایجنٹ سے مرتضیٰ بھٹو کو قتل کرنے کا Confession کیا ہے۔ بھلا یہ کیسے ممکن ہے۔ راؤ صاحب خطرناک کھیل شروع ہوچکا ہے۔ اور پھر دو چار روز بعد خبر آئی کہ مرتضیٰ بھٹو پولیس مقابلے میں قتل ہوگئے۔
راؤ رشید میرے دوست کتنے ایمان دار اور بہادر تھے، اس کو تاریخ کے اوراق سے کھرچا نہیں جا سکتا۔ شیخ رشید بابائے سوشلزم، ملک معراج خالد، حنیف رامے اور راؤ رشید میرے دوست ہی نہیں تھے، دراصل وہ ذوالفقار علی بھٹو کے دوست تھے۔ ذوالفقار علی بھٹو اور اُن کی پارٹی جب اِن جیسے دوستوں سے محروم ہونا شروع ہوئی تو آپ دیکھ سکتے ہیں کہ اب بونے کس طرح اپنا قد لمبا کرنے کی خاطر ’’سب کچھ کرنے‘‘ کو تیار ہیں۔ اس جہانِ فانی سے رخصت ہونے سے چار روز قبل انہوں نے مجھے بلا کر کہا، ’’اس سی ڈی میں میری حیات ضبط ہے اور تم اس کے وارث ہو۔ اس کی اشاعت بہت ضروری ہے۔‘‘ اُن کی داستانِ حیات زندہ لوگوں کی داستان ہے۔ خوددار، ایمان دار اور جرأت مند، جنہوں نے وزارت سے اس لیے 1989 میں استعفیٰ دے دیا کہ ہم نے جنرل ضیا کے خلاف گیارہ سال اس لیے جدوجہد نہیں کی تھی کہ ہم حکومت میں آنے کے بعد وزیراعظم سیکریٹریٹ کو سٹاک ایکسچینج بنا ڈالیں۔ راؤ رشید میرے دوست اور اس قوم کا فخر ہیں۔
یہ تحریر اس لِنک سے لی گئی ہے۔
“