کیا برطانوی سامراج سے ایک علیحدہ ملک حاصل کرلینے کے بعد ہم نے ایک کامیاب ریاست وقوم کا سفر طے کرلیا ہے؟ پاکستان کا تمام ریاستی ڈھانچا وہ ہے جو مغلیہ سلطنت کے خاتمے کے بعد یہاں برطانیہ نے تعمیر کیا۔ ریاست کے تقریباً تمام ادارے فوج، پولیس، ریونیو، سول انتظامیہ، مقننہ اور جمہوریت تک۔ 1947ء کے بعد ہم لوگوں نے یہ سمجھ لیاکہ بس اب ہم آزاد ہوگئے، اب امن، انصاف اور خوشحالی معجزوں کی طرح برپا ہوتے چلے جائیں گے۔ ان میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جنہوں نے اس ریاست کو اسلامیانے Islamization کے تحت ان معجزوں کو ممکن بنانے کا خواب دیکھا۔ قراردادِمقاصد سے لے کر جنرل ضیاالحق کی آمریت کے تحت اسلامی قوانین متعارف کروانے تک۔ سول حکمرانی کے مختلف ماڈل ہمارے ہاں تجربہ ہوئے، جس میں سرمایہ دارانہ ماڈلز سے لے کر ذوالفقار علی بھٹو کی ملی جلی سوشلسٹ معیشت وریاست تک شامل ہیں۔ سول وملٹری حکمرانی کے ان تمام تجربات کے باوجود کیا ہم ایک کامیاب قوم اور ریاست بن پائے؟ غربت، جہالت تو چلیے ایک بڑا مسئلہ ہے، کیا ریاست پچھلے ستر سالوں میں عوامیت میں ڈھل پائی؟ کچھ اور رعایت کریں تو یہ سوال کیا جاسکتا ہے کہ کیا ریاست اپنے عوام کی آزادیوں کو برقرار رکھتے ہوئے اُن کو تحفظ دینے میں کامیاب ہوئی؟ اس سارے عرصے میں بحیثیت ملک پاکستان ایک ایٹمی طاقت بن گیا اور اس ایٹمی طاقت کو مزید وسعت دیتے ہوئے ہم نے جدید میزائل بھی بنالیے۔ اور دلچسپ بات یہ ہے کہ ہم یہ بھی گمان کربیٹھے کہ دنیا کی ایک سپرپاور ہمارے ہاتھوں ریزہ ریزہ ہوگئی، یعنی سابق سوویت یونین۔ اس ریاستی سفر میں ہم نے اکثریتی آبادی (مشرقی پاکستان) کو بھی کھو دیا اور اسلامی تاریخ کی ایک شرمناک شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ ہم نے یہ بھی یقین کرلیا کہ اللہ میاں نے ہمیں رہتی دنیا تک قائم رکھنے کا فیصلہ کرلیا ہے، ہمیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ ہم نے ایسے ایسے گمان، وہم اور خواب اکٹھے کرلیے ہیں کہ انہیں ایک صفحے پر لکھا جائے تو ان کی بڑی تعداد بنتی ہے۔ مگر ان سترسالوں میں ریاست، قوم وملک ے نقصانات کو دوسرے صفحے پر لکھیں تو عجب تضاد دیکھنے کو ملتا ہے۔ ہر قسم کے نظریاتی وسیاسی تجربات کے بعد بھی کیا ہم نے آگے کی جانب سفر کیا ہے؟ اپنے تمام تر دعووں کے مطابق جن میں ایک دعویٰ یہ بھی ہے کہ ہم امت مسلمہ کی قیادت کے لیے پیدا کیے گئے ہیں، کیا ہم خود اپنی قیادت کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں؟ پاکستانی ریاست کی کامیابی، پاکستانی قوم کی قیادت کی کامیابی، ذرا مجھے بتائیں کہ کدھر ہے؟ قراردادِ مقاصد سے لے کر 1973ء کے اسلامی آئین کی تشکیل اور پھر اس میں جو اسلامی سقم تھے، ان کو جنرل ضیاالحق نے پورا کرکے مکمل اسلامی ریاست میں ڈھال دیا۔ تو پھر بندوق بردار مسلح گروہ (طالبان) کیوں اس ریاست کو گرانا چاہتے ہیں۔ فی الحال اُن کو دبا دیا گیا ہے، بڑے نقصانات اور فوجی آپریشنز کے تحت اور اب اُن کے بعد عاشقانِ رسول ﷺ کے نام ونعروں پر ریاست کو گرا کر اپنا حکم نامہ جاری کرنے والے یہ دھرنا گروہ۔ کیا یہ ایک کامیاب ریاست کا ثبوت ہیں کہ ریاست کو چیلنج کرنے کا، جو مقننہ، انتظامیہ اور فوجی قیادت کے خلاف بغاوت کا اعلان کرتے ہیں اور ریاست وحکومت اُن کے خلاف قانونی کارروائی کی بجائے اُن سے مذاکرات کرتی ہے۔ کیا اسی کو کہتے ہیں کامیاب ریاست؟
ہمارے ہاں ترکی آج کل عام لوگوں کی دلچسپی کا بڑا موضوع ہے۔ کیا یہ اُس ریاست میںممکن ہے، جیسا ہنگامہ یہاں برپا ہے۔ معلوم ہے کہ وہاں قانون کی پاسداری ریاست کیسے کرتی ہے؟ اس ریاست کی کامیابی کے پیچھے ریاست کی طاقت کیسے ہر وقت متحرک رہتی ہے۔ سوشل میڈیا پر ترکی کی کامیابی پر مامے بننے والوں کو اس کی الف ب کا بھی علم نہیں۔ یہاں بیٹھے بٹھائے تحریریں لکھنے اور ویڈیو کلپ بنانے والے دراصل اس مسلم قوم کی کامیابی کو اپنی جھولی میں ڈال کر اب اس کے مامے بننے پر تلے ہوئے ہیں۔ اپنی کریانے کی دکان چلا نہ پائے یہ دکان دار اور دوسروں کے سپرسٹورز کی کامیابی کے دعوے کرنے چلے ہیں۔ ایٹمی طاقت جو جدید میزائلوں سے لیس ہے، دھرنا بازوں کے ہاتھوں کیسے یرغمال بنتی ہے۔ سیاسی دھرنے ہوں یا مذہبی دھرنے ، یہ دھرنے سیاسی احتجاج کے زمرے میں نہیں آتے۔ سیاسی احتجاج پُرامن آئینی اور قانون کے دائروں میں رہ کر ہوتے ہیں۔ جلوس نکالنا، جلسہ کرنا، گلی گلی احتجاج کرنا بنیادی حق ہے۔ لیکن شہری زندگی کو معطل کرکے ریاست کو بے بس کردینا، سڑکوں اور قومی شاہراہوں پر قبضہ کرلینا، دہشت اور جلائو گھیرائو کے تحت، یہ احتجاج نہیں بلکہ بدمعاشی ہے۔ اور اگر یہ بدمعاشی بڑھتی گئی، جس کے بھرپور امکانات ہیں تو پھر ریاست کہاں نظر آئے گی؟ ریاست کا پہلا کام اپنی رِٹ قائم کرنا ہے۔ اس کے بعد تمام کام، اس رِٹ کو قائم کرنے کے لیے حکومت کو قانون کے مطابق بھرپور ایکشن کرنا ہوتا ہے۔
ہم نے یہ یقین کرلیا ہے کہ ہم اس لیے بھی بڑی قوم ہیں کہ ہم آبادی میں بڑے ہیں۔ قومیں آبادیوں سے چھوٹی بڑی نہیں ہوتیں۔ قومیں، علم، ٹیکنالوجی، معاشی واقتصادی ترقی سے بڑی ہوتی ہیں۔ پاکستان کے ایک دانشور جو چرب زبانی میں اپنی مثال آپ ہیں، وہ مسلمانوں کی یورپ اور دوسرے ممالک میں بڑھتی ہوئی آبادی پر اسے غلبہ اسلام سے تعبیر کر رہے ہیں۔ آج بھی دنیا میں جن قوموں کا غلبہ ہے، وہ آبادی میں کم اور ہر قسم کی ترقی میں آگے ہیں۔ ہماری دانش کے پیمانے ہی جذباتیت پر قائم ہیں، منطق دلیل اور حقائق پر نہیں۔ہم نے یہ یقین کررکھا ہے کہ پاکستان کے تین بڑے دشمن ہیں، بھارت، امریکہ اور یہود۔ کیا یہ حقیقت نہیں کہ ہم خود ہی اپنے سب سے بڑے دشمن ہیں۔ سب سے بڑا دشمن اس قوم کے اندر جنم لے چکا ہے اور وہ اپنی جہالت کو Glorify بھی کرتا ہے اور اس کے لیے وہ گولی، بارود، قتل، فتوے اور آگ کو استعمال کرتا ہے۔ اس کی دہشت کے سامنے ریاست کی دہشت ماند پڑتی نظر آرہی ہے۔ وہ ریاست جسے اپنے سیکیورٹی سٹیٹ ہونے پر ناز ہے۔ کاش وہ اپنے ہتھیاروںکی طاقت وٹیکنالوجی کو اردگرد کے ممالک کے ہتھیاروں، ٹیکنالوجی اور اس کے پیچھے معاشی طاقت کا کسی وقت اپنے عوام کو موازنہ پیش کرے کہ سیکیورٹی سٹیٹ کی حقیقت کیا ہے۔ کوئی ریاست بھی معاشی، اقتصادی، علم وٹیکنالوجی کی ترقی کے بغیر طاقتور نہیں ہوسکتی۔ مضبوط قومیں اپنی اندرونی ترقی سے اپنا وجود قائم رکھنے میں کامیاب ہوتی ہیں۔ دہائیوں پرانے بموں، توپوں، گولوں، خریدے گئے اسلحے کے ذخیروں سے قومیں ترقی یافتہ نہیں کہلا سکتیں۔ پاکستان کے اکثریتی عوام میری طرح اپنے سوالوں کو اٹھا رہے ہیں جو میں نے یہاں بیان کیے ہیں۔ اکثریتی عوام ایسی ریاست کے منتظر ہیں جو اُن کے لیے متحرک ہو۔ اُن کے تحفظ سے لے کر تعلیم، روزگار، خوشحالی، امن اور قومی ترقی تک۔ مگر افسوس ریاست میں وہ تخریبی عناصر عزت دار قرار دئیے جا رہے ہیں جن کی زندگیاں خون اور قتال کے حوالے سے جانی جاتی ہیں۔
“