ایم پی اے انشاء اللہ
انتخابات کے دنوں میں سیاسی رنگارنگی میں ثقافتی رنگ بھی خوب ابھر کر سامنے آئے ہیں۔ رقص، موسیقی، شاعری، نعرے اور تقاریر، جو انفرادی طور پر اور سیاسی جماعتیں بھی اپنا آپ دکھا رہی ہوتی ہیں۔ پرنٹ اور اب الیکٹرانک میڈیا انتخابی دنوں میں نت نئے پروگرام پیش کرکے سیاسی فضا میں طنزومزاح سے اپنا حصہ ڈالتے ہیں۔ پنڈی کے شیخ صاحب جن کو ہمارے الیکٹرانک میڈیا والے سیاسی پیشگوئیاں کرنے والے تجزیہ نگار کے طور پر بڑی کوششوں سے بلاتے ہیں، ان کے نام کے ساتھ جڑا دوسرا عوامی نام بھی ایک ٹی وی ڈرامے کے ایک ایسے ہی کردار سے جڑا ہے، شیدا ٹلی۔ انتخابات کے دوران متعدد امیدوار، انتخابی مہم میں اپنا آپ ’’منوانے‘‘ کے لیے کودتے ہیں۔ اُن کو اس سے کوئی غرض نہیں ہوتی کہ وہ الیکشن لڑ کر اسمبلی میں پہنچیں گے۔ انہی معروف انتخابی امیدواروں میں پرانی انارکلی سے تعلق رکھنے والے ایک امیدوار ’’سلیم کِرلا‘‘ نے جنرل ضیا کے خوف زدہ ماحول میں 1985ء کے غیرجماعتی انتخابات میں حصہ لے کر پورے ملک کی فضا کو آمریت کے پھیلائے ہوئے خوف زدہ ماحول سے نکال کر قہقہوں میں بدل دیا۔ سلیم کرلا کو پاکستان کے اخباروں سے لے کر بی بی سی جیسے عالمی نشریاتی اداروں نے اپنی خبروں اور تبصروں کا حصہ بنایا۔پرانی انارکلی کے ایک چوبارے میں رہنے والا سلیم کرلا جب شام کو اپنی انتخابی مہم کا آغاز کرتا تو پورا لاہور وہاں امڈ آتا۔ غیر شادی شدہ، ساٹھ سے زائد عمر کا طویل القامت سلیم کرلا جب اپنے چوبارے سے لوگوں کو درشن کراتا تو پیچھے کھڑے ہزاروں لوگ، ڈفلیاں، ڈھول، جھنجھنے، توتو، سیٹیاں اور اپنی موٹر سائیکلوں سے ہارن بجا کر لاہور کے ہردلعزیز انتخابی امیدوار کا استقبال کرتے۔ لوگ شام ڈھلتے ہی اپنے ’’محبوب لیڈر‘‘ سلیم کرلا کا انتظار کرنے لگتے۔ اور جب سلیم کرلا اپنے چوبارے کی بالکنی سے اپنے لمبے ہاتھ ہلا کر لوگوں کااستقبال کرتا، تو انارکلی کی فضا نعروں سے گونج جاتی۔ لوگ دھمالیں ڈال کر خوشی مناتے اور سلیم کرلا ہاتھ ہلا ہلا کر اپنے چاہنے والوں کو سلام پیش کرتا۔ میں بھی اکثر اپنے ’’فکرمند سیاسی ذہن‘‘ کو رونق بخشنے کے لیے سلیم کرلا کی جھلک دیکھنے دیگر دوستوں کے ہمرا ہ وہاں پہنچ جاتا۔اس کا انداز کسی طرح بھی اٹلی کے مقبول ڈکٹیٹر مسولینی سے کم نہ تھا۔ اُن دنوںمسولینی پر میں ایک فلم دیکھ چکا تھا۔ وہ بھی اسی طرح اپنی بالکنی سے لوگوں سے خطاب کرنے سے پہلے ہاتھ ہلا کر سلامِ محبت پیش کرتا۔ سلیم کرلا کا انداز مسولینی سے کم نہ تھا۔ کاش خادمِ اعلیٰ اورنج ٹرین پر جب اپنا ’’ہاتھ ہلا ہلاکر‘‘ خالی گلیوں کو سلام کررہے تھے تو وہ سلیم کرلا کی کوئی ویڈیو ہی منگوا کر دیکھ لیتے کہ سٹیج سے نیچے لوگوں کو ہاتھ ہلا کر سلام کیسے کیا جاتاہے۔ خادم اعلیٰ پنجاب کا ہاتھ نہیں پانچوں انگلیاں چھنکنے کی طرح ہل رہی تھیں اور نیچے گلیاں خالی تھیں۔ البتہ ان کا افسر شاہی میں گندھا ہوا میڈیا پیچھے سے اُن کے کندھے سے ویڈیو بنا کر اپنی کارروائی ضرور ڈال رہا تھا۔
سلیم کرلا نے 1985ء کے غیر جماعتی انتخابات میں جس طرح ملک کی فضا کو قہقہوں میں بدل دیا، وہ میرے جیسے سنجیدہ سیاسی لوگوں کے لیے ہوا کا ایک جھونکا تھا۔ انہی انتخابات نے موجودہ سیاسی انتخابات لڑنے والوں کی بنیاد رکھی تھی۔ موجودہ Electablesاسی غیرجماعتی انتخابات میں ابھر کر سامنے آئے۔ یہی وہ انتخابات تھے جن میں پہلی مرتبہ جناب میاں نوازشریف نے الیکشن لڑا اور ابھی تک لڑتے اور مسلسل جیتتے چلے آ رہے ہیں۔ افسوس کہ سلیم کرلا اپنی تمام تر مقبولیت کے باوجود 1985ء کے الیکشن ہار گئے۔
ہمارے ہاں انتخابات میں لگنے والے بڑے بڑے بینرز اگر دلچسپی کے موڈ میں پڑھے جائیں تو اس کا اپنا ہی ایک لطف ہے۔ اور اب پارٹی ٹکٹوں، انتخابی شیڈول، انتخابی نشانات اور دیگر حتمی اقدامات سے پہلے ہی ایسے بینرز اور نیون سائن اکثر مقامات پر نظر آنے شروع ہو گئے ہیں۔ مگر ذرا ان امیدواروں کی مہم (Campaign) کی دانش پر توجہ دیں۔ مثلاً امیدوار کا نام ہے ملک تنویر عباس، ابھی اس کی پارٹی نے اس کو ٹکٹ دینے کا فیصلہ تو کجا، ابھی اس نے ٹکٹ کی درخواست بھی جمع نہیں کروائی، مگر بینروں کی وساطت سے موصوف ایم پی اے بن چکے ہیں۔ بینر کچھ یوں ہوتا ہے۔ ملک تنویر عباس، ایم پی اے انشاء اللہ۔ یہ انشاء اللہ کے ایک لفظ نے اُس کو جو مقام دیاہے، شاید ہی کوئی اور لفظ اُس کو یہ مقام دلوا سکے۔ملک تنویر عباس ایم پی اے بڑا ور انشاء اللہ چھوٹا سا۔ اسے کہتے ہیں عوام میں اپنے لیے رائے ہی نہیں بلکہ دھاک بٹھانا۔
ایک مرتبہ میں سپین جارہا تھا، جہاز میں میرے ساتھ ایک ’’محب وطن تارکِ وطن‘‘ تشریف فرما تھے جنہیں وطن ترک کیے ہوئے تیس سال سے زائد عرصہ ہوچکا تھا۔ مگر تارک الوطنی ان کی محب الوطنی کو کم نہ کرسکی۔ بلکہ یورپ کی مغربی تہذیب بھی اُن کی ’’وطنی صلاحیتوں‘‘ کو کم نہ کرسکی نہ دھندلا سکی۔ موصوف نے اپنا تعارف کرواتے ہوئے مجھے بڑے شوق سے اپنا وزٹنگ کارڈ پیش کیا، اس پر لکھا تھا:
Javed Iqbal Gondal