کیا نوازشریف سول حکمرانی مضبوط کر پائیں گے؟
بے دخل کیے گئے وزیراعظم نوازشریف، مری سے اسلام آباد آئے تو لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے اُن کا استقبال کیا۔ اس موقع پر انہوں نے صحافیوں سے غیررسمی گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ میرے والد سے لے کر بچوں تک کا احتساب ہورہا ہے۔ انہوں نے اپنی اس گفتگو میں یہ بھی کہا کہ ماضی کا ڈکٹیٹر (جنرل مشرف) کہتا ہے کہ جمہوریت ڈکٹیٹرشپ سے بہتر ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے ساتھ تو زیادتی ہورہی ہے اور یہ کہ سازش برپا ہے، ہم عدالت اور قانون کو مانتے ہیں، اس لیے فیصلے کو تسلیم کیا۔ اسلام آباد آمد کے بعد پنجاب ہائوس میں سابق وزیراعظم سے تاجروں، پارٹی لیڈروں اور رہنمائوں کے رابطوں کا ایک نیا سلسلہ چل نکلا ہے اور یوں سیاست میں مزید گرمی پیدا ہوتی جارہی ہے۔ اسلام آباد میں پنجاب ہائوس میں تاجروں کے وفد سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا ہے کہ احتساب کے نام پر استحصال ہورہا ہے۔ انہوں نے سویلین بالادستی تسلیم کرنے پر زور دیا اور اس بات کا عہد کیا کہ میں جھکوں گا نہیں اور مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ میرے ساتھ کیا ہونے والا ہے اور یہ کہ سازش سے پردہ ضرور اٹھائوں گا۔ کل وہ جی ٹی روڈ سے اسلام آباد سے لاہور کے لیے روانہ ہوں گے اور سیاسی گرمی میں مزید شدت آئے گی اور امکان ہے کہ یہ ایک طویل جلوس اور عوامی رابطے کا آغازہوگا۔ عدالت سے نااہل اور وزارتِ عظمیٰ سے بے دخل وزیراعظم اپنا مقدمہ اب سڑکوں پر لڑنے کی طرف جا رہے ہیں اور اسی کے ساتھ اُن کے بڑے مخالف عمران خان نے اُن کی اس حکمت عملی کی شدت سے مخالفت کی ہے۔
عمران خان نے اسلام آباد میں ایکڑوں میں پھیلے پہاڑی پر واقع اپنے شان دار گھر میں ایک اجلاس میں گفتگو کرتے ہوئے نوازشریف کی عوامی رابطے کی مہم کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ میاں نوازشریف کا کارواں کی شکل میں لاہور آنا تشویش ناک ہے اور یہ کہ نوازشریف مقدمات سے بچنے کے لیے عوامی دبائو ڈالنا چاہتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ نااہل سابق وزیراعظم جمہوری نظام کی تباہی کے لیے سرکاری وسائل کو استعمال کررہے ہیں اور یہ کہ تحریک انصاف فساد برپا کرنے کا خواب پورا نہیں ہونے دے گی۔ اسی طرح پاکستان پیپلزپارٹی کے رہنما بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ نوازشریف خوش نہ ہوں کہ نااہل ہوکر آپ کی جان بچ گئی، آپ کو پائی پائی کا حساب دینا ہوگا۔ یہ وہ صورتِ حال ہے جو مستقبل قریب کے سیاسی منظرنامے کا عنوان ہے۔ سیاسی محاذ آرائی۔ لیکن ایک بات سیاسی حقوق میں طے ہے کہ ہر کسی کو عوامی رابطے کا حق ہے، جب عمران خان، اسلام آباد کی سڑکوں کو بلاک کریں تو ٹھیک لیکن جب نوازشریف سڑکوں پر سفر کرتے ہوئے عوامی رابطے کریں تو نامنظور۔ وہ غلط ہیں، کرپٹ ہیں، نااہل ہیں لیکن یہ میاں نوازشریف کا بنیادی حق ہے کہ وہ عوامی رابطوں سے اپنی بات عوام سے کریں۔ ہم اُن کی سیاست، طرزِحکمرانی اور حکومت پر اعتراض اور تنقید کا حق رکھتے ہیں، لیکن عوامی رابطے، جلسے، جلوس اور مظاہرے ہر سیاسی رہبر اور فرد کا بنیادی حق ہے، چاہے وہ غلط ہے یا درست۔ انہوں نے بندوق اٹھانے کا اعلان نہیں کیا۔ انہوں نے عوام سے اپنی صحیح یا غلط بات کرنے کا اعادہ کیا ہے۔ عمران خان، بلاول اور عوام سب کو اُن پر تنقید، مخالفت کا حق تو ہے لیکن اُن کے بنیادی سیاسی حقوق کا استحصال کرنے دینے کا حق نہیں۔
جہاں تک بات ہے کہ میاں نوازشریف کے خلاف سازش ہے اور یہ کہ وہ اسے بے نقاب کریں گے، یہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ معلومات تک رسائی لوگوں کا بنیادی حق ہے۔ سازش اُن کے خلاف ہے، اُن کے خاندان یا اُن کی حکومت کے خلاف، یہ سب کچھ جاننا تو لازم ہے۔ اور اسی طرح عوام اور اُن کی مخالف جماعتوںکا بھی حق ہے کہ وہ سیاسی جدوجہد کرتے ہوئے اُن کو سیاسی میدان میں قانون اور آئین کے مطابق چت کردیں۔ آج میاں نوازشریف نااہل ہوکر اور اقتدار سے بے دخل ہوکر عوام میں مقدمہ لے کر آ رہے ہیں، یہ ایک اچھی بات ہے۔ لیکن زیادہ شان دار بات یہ تھی کہ وہ عدالت میں مقدمہ بازی سے پہلے پانامہ پیپرز میں نام آتے ساتھ ہی مستعفی ہوکر عوام میں اپنا مقدمہ لاتے، تو آج پاکستان کی صورتِ حال مختلف ہوتی۔ مقدمہ بازی کے بعد قانونی نااہلی اور وزارتِ عظمیٰ سے بے دخلی کے بعد عوام سے رابطہ کچھ زیادہ قابل رشک صورتِ حال نہیں۔ اور ہم یہ جو کہتے ہیں کہ جمہوریت کے خلاف سازش، تو پھر اسے بے نقاب کیوں نہیں کرتے۔ میاں صاحب، اگر آپ نے آج ہی سازش بے نقاب نہ کی تو یہ نہ جمہوریت سے انصاف ہے اور نہ ہی جمہور سے اور اس سے آمریت اور خفیہ اقتدار مضبوط ہوگا۔ جمہوریت میں یہ چیز عوام کے سامنے رکھی جاتی ہے، چھپائی نہیں جاتی۔ جہاں تک میاں صاحب کا یہ اعلان ہے کہ وہ سول بالادستی کو قائم اور سربلند رکھنا چاہتے ہیں، ایک بے مثال بات ہے لیکن اسی کے ساتھ یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ انہوں نے پاکستان میں موروثی جمہوریت کو مزید پھیلا دیا ہے۔ اب وہ بھٹو خاندان سے زیادہ طویل اور پھیلی ہوئی سیاسی موروثیت والے خاندان کے سربراہ ہیں۔ انہوں نے اپنی سیاست کو عوام تک پھیلانے کی بجائے خاندان کے اندر ہی اندر پھیلانے کا عمل بڑھا دیا ہے۔ اگر وہ سازش بے نقاب کرکے اقتدار کی بجائے دار کے راہی بنتے ہیں تو ہم انہیں حق پر تسلیم کریں گے۔ جمہوریت میں عوامی رازوں کو عوام سے چھپائے رکھنا اقتداری مفاہمت کے زمرے میں آتا ہے۔
مگر میں اس جگہ معروضی حالات کو سامنے رکھوں تو موجودہ سیاسی صورتِ حال درحقیقت تنگ گلی کی طرف بڑھ رہی ہے۔جس ملک کی جمہوریت چند فٹافٹ برآمد ہونے والی خواتین کے سکینڈلز اور شادیوں سے یرغمال ہوکر رہ جائے، کیا اسے جمہوریت کہا جاسکتا ہے۔ ریحام خان، ایان علی، عائشہ ملک، عائشہ گلالئی۔ یہ ایک بوسیدہ اور بدبودار سیاست میں ممکن ہوتا ہے، عوامی جمہوریت میں نہیں۔ عوامی حاکمیت میں بھی نہیں۔ سکینڈلز کی یرغمال جمہوریت کس قدر مضبوط ہے، ہم ایسے لاتعداد دیگر سکینڈلز سے اندازہ لگا سکتے ہیں۔ ایسے میں جمہوریت مضبوط نہیں ہوتی بلکہ وہ طاقتیں مضبوط ہوتی ہیں جو عوام پر یقین نہیں رکھتے بلکہ طاقت پر۔ وہ سیاسی شخصیات ہوں یا پس منظر کی طاقتیں۔ مختصر یہ کہ اگر یہ سیاسی عمل اسی طرح جاری رہا تو معاملات دوسری شکل اختیار کرسکتے ہیں، تھوڑی بہت جمہوریت، معدوم جمہوریت کو خطرات درپیش آسکتے ہیں۔
پاکستان عوامی حکمرانی کا تقاضا کررہا ہے، خاندانی حکمرانی کا نہیں۔ اگر یہی سلسلہ جاری رہا جو میاں نوازشریف، عمران خان کرنے پر تلے ہیں تو حکمرانی کا سفر عوام کی طرف نہیں، کسی دوسری طرف کا ہے۔ میاں نوازشریف کے پاس وہ سیاسی قوت ہی نہیں جو سول حکمرانی کی بالادستی قائم کرسکے۔ اُن کی جماعت اُن لوگوں سے اٹی پڑی ہے جو سول حکومت ہو یا فوجی حکومت، اسی مقام پر ہوتے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) چند بیانات سے سول حکمرانی کی بالادستی کو قائم کرنے سے بہت حد تک قاصر ہے کیوں کہ اس سارے تصادم میں عوامی حقوق پر تصادم برپا نہیں بلکہ اقتدار میں رہنے یا نہ رہنے پر تصادم برپا ہے اور نہ ہی موجودہ سیاسی قوتیں اس لڑائی کو عوامی حقوق کی جنگ میں بدلنا چاہتی ہیں۔ ہاں اس ساری لڑائی میں ایک کام بہت خوب صورتی سے ہورہا ہے، ’’سول چہروں سے بیزاری‘‘، کسی بھی قسم کے سول چہرے۔ اگر ہم مین سٹریم میڈیا اور سماجی میڈیا میں برپا مہم کو دیکھیں تو سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ سول چہروں کو Defame کیا جا رہا ہے۔کیا ہی اچھا ہو کہ ’’سول چہرے‘‘ اپنی طرزِسیاست، شخصیت پرستی، خاندانیت، موروثیت سے بدل کر عوامی ہوجائیں۔ لیکن وہ عوام کے حقوق کا پرچم سربلند کیے بغیر عوامی نہیں ہوسکتے۔ اگر میاں نواز شریف اپنے خاندان کے استحصال کی بجائے عوام کے استحصال کا پرچم بلند کریں تو۔۔۔ اپنے باپ اور اپنے بچوں کی بجائے، کروڑوں بھوکے اور غربت میں اٹے، استحصال زدہ بوڑھوں اور بچوں کا مقدمہ لڑیں تو۔۔۔ صرف اپنے باپ اور بچوں کا مقدمہ لڑیں گے تو اسے ہم سول حکمرانی نہیں، خاندانی حکمرانی کی جنگ کہیں گے۔ یہ وہ بہت معمولی سا نظر آنے والا فرق ہے جو کہ بہت بڑا فرق ہے۔
“