عمران حکومت، سادگی سے زیادہ اہلیت کی ضرورت
نومنتخب وزیراعظم عمران خان نے انتخابات میں کامیابی کے بعد وزارتِ عظمیٰ کے منصب پر فائز ہونے سے قبل جو تقریر کی، اس میں انہوں نے اپنی سادگی اور حکمرانی کے اخراجات کو کم کرنے پر بہت زورد یا۔ اس تقریر میں انہوں نے وزیراعظم ہائوس میں رہنے سمیت دیگر سرکاری اخراجات کو نہایت کم یامعمولی کردینے کے فیصلے کا اظہار کیا اور اسی سلسلے میں وزیراعظم ہائوس، گورنر ہائوسز کو تعلیمی اداروں اور ہوٹلز میں تبدیل کردینے کا اعلان فرمایا۔ ایسی باتیں سادہ لوح عوام کوسحرانگیز کردینے کے لیے بہت کارآمد ہیں۔ سابقہ حکومت میں پرویز رشید، سابق وزیراعظم کے نہایت قریبی ساتھیوں میں شمار ہوتے تھے۔ اسلام آباد میں وہ پچھلے پانچ سالوں میں پنجاب ہائوس کے ایک کمرے میں رہتے رہے۔ لاہور میں اُن کے اہل خانہ کرائے کے مکان میں رہتے ہیں۔ وہ پچھلے پچاس سالوں سے سیاست اور حکمرانی کے ایوانوں کا حصہ رہے ہیں، اپنا مکان تک نہیں بنا پائے، لیکن انہوں نے کبھی بھی اس کو سیاسی ایشو نہیں بنایا۔ سلمان تاثیر پنجاب کے گورنر رہے، رات کو وہ کیولری گرائونڈ میں اپنے گھر چلے جاتے تھے، انہوں نے کبھی اس کو سیاسی ایشو نہیں بنایا۔ میرے درجنوں سیاسی دوست جو وزارتوں تک پہنچے، اُن میں سے اکثر اپنا گھر تک نہیں بنا پائے۔ انہوں نے کبھی اس کو سیاسی ایشو نہیں بنایا۔ میرے مرحوم دوست جناب حنیف رامے جو پنجاب کے وزیراعلیٰ رہے، انہوں نے سینکڑوں لوگوں کو اہل مکان بنا دیا، ہزاروں کچی بستیوں کے بے گھروں کو گھروں کا مالک بنا ڈالا۔ وزارتِ اعلیٰ سے ہٹنے کے سالوں بعد تک وہ خود اہل مکان نہ بن سکے۔ بابائے سوشلزم شیخ محمد رشید جو ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت میں بہ لحاظِ عہدہ نائب وزیراعظم تھے، انہوں نے شیخوپورہ میں اپنی چند ایکڑ زمین اور ایک چھوٹا سا مکان بیچ کر لاہور میں گھر بنایا۔ سابق آئی جی پنجاب اور انٹیلی جینس بیورو کے سربراہ رائو رشید، جو محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومت میں اسٹیبلشمنٹ مشیر نامزد ہوئے، ایک روز مجھے اُن کا فون آیا کہ ’’فرخ! آپ خوش نصیب ہیں۔‘‘ میں نے پوچھا کہ کس طرح؟ تو انہوں نے فرمایا کہ ’’آپ آج میرے ہمراہ گواہ کے طور پر پراپرٹی ڈیلر کے پاس چلیں گے۔ میں اپنی ساری زندگی کی کمائی اور چند ایکڑ آبائی زرعی زمین بیچ کر اپنی پہلی پراپرٹی کا سودا کرنے جا رہا ہوں۔‘‘ وہ مجھے کینٹ کے ایک بڑے پراپرٹی ڈیلر کے پاس لے گئے۔ انہوں نے بڑھاپے میں ڈیفنس قبرستان کے سامنے گیارہ مرلے کا ایک گھر خریدا اور ملکیت کے کاغذات میں مجھے گواہ بنایا۔ جب خریداری کا سارا عمل مکمل ہوچکا تو پراپرٹی ڈیلر نے کہا، ’’حیرانی ہے، ہمارے ہاں تو ایک ایس ایچ او آتے ہیں جو تین چار بڑے بنگلوں کے مالک ہیں۔ آپ آئی جی رہے، انٹیلی جینس بیورو کے چیف رہے، وزیر مشیر رہے اور اب گھر خرید رہے ہیں۔ حیرانی ہے، حیرانی۔‘‘
عمران خان صاحب کی یہ تقریر سادہ لوح عوام کے لیے تو سحرانگیز ہوسکتی ہے، لیکن حقیقت کی دنیا میں یہ کوئی کارنامہ نہیں۔ اگر میں ترکی کے چار مرتبہ وزیراعظم بلند ایجوت مرحوم کی سادگی کے بارے میں لکھوں تو اسلامی تاریخ کو آئیڈیلائز کرنے والوں کی آنکھیں کھل جائیں کہ یہ مردِقلندر جو کمالسٹ تھا، سیکولر تھا اور ترقی پسند تھا، اپنی ذاتی زندگی کس طرح گزارتا تھا۔ وہ میرے ذاتی دوست تھے۔ اُن کی سادگی، ایمان داری اور شفافیت اب جدید تاریخ کا حصہ ہے۔ اُن کی زندگی کے ایسے لاتعداد پہلوئوں سے میں آگاہ ہوں کہ لوگ حیران رہ جائیں، خصوصاً وہ جو ’’مجاہدین‘‘ کی سادگی کے دعوے دار ہیں۔ ’’خاموش مجاہدین‘‘ ۔ بلند ایجوت مرحوم،وزیراعظم کا پروٹوکول توڑ کر ترک وزیراعظم کے سیکریٹریٹ کے دفتر کی چوکھٹ پر اس ناچیز کو ریسیو کیا کرتے تھے۔اِس پر اُن کا سٹاف بھی حیران ہوتا تھا۔ جی، وہی تخت حکمرانی جس پر اُن کے ایک سال بعد جناب طیب اردوآن بیٹھے۔
سادگی سے حکمرانی کوئی کارنامہ نہیں۔ اہم ہے، کارکردگی۔ آپ حکمرانی میں انتہائی سادہ ہوں لیکن حکمرانی میں نااہل ہوں تو اس سادگی سے کیا عوام کی قسمت بدل سکتی ہے؟ میں گزشتہ کئی کالموں میں لکھ چکا ہوں کہ اب تو کرپشن اور ڈویلپمنٹ کے ماڈلز بھی سامنے آگئے ہیں۔ ایسے کئی حکمران ہیں جو بہت کرپٹ بھی ہیں اور اہل بھی، یعنی انہوں نے اپنی قوم کی تقدیر بدل دی۔ گو حکمرانی کی یہ طرز میرے لیے آئیڈیل نہیں اور نہ ہی میں ایسے کرپٹ حکمرانوں، سیاست دانوں کا مداح ہوں۔ لیکن ایسے پانچ چھے حکمران آج دنیا کے چند ممالک میں موجود ہیں۔ اُن میں چند ایک کو ہماری قوم بھی اپنا ہیرو مانتی ہے یا مداح ہیں۔ لیکن وہ نااہل نہیں، کرپٹ ہیں، اور وہ سادہ زندگی بھی نہیں گزارتے۔ پاکستان کا مسئلہ حکومت میں شامل وزیراعظم، صدر، وزرا، وزرائے اعلیٰ اور افسر شاہی کی طرزِزندگی میں تعیش نہیں بلکہ پاکستان کا مسئلہ استحصال ہے۔ کروڑوں انسانوں کے بنیادی حقوق، تعلیم، روزگار، صحت جو کہ سرمایہ دار اور دنیا کی جدیدریاستیں بھی اپنی ذمہ داری سمجھتی ہیں۔ یہ مسائل ہیں۔ نومنتخب وزیراعظم جناب عمران خان اپنی سادگی سے اگر قوم کی قسمت بدل کر کوئی معجزہ کرنے کے درپے ہیں تو یہ ایک سماجی تواہم پرستی ہے۔ اگر عمران خان قوم کی قسمت بدلنا چاہتے ہیں تو اب انہیں بحیثیت وزیراعظم اپنی اہلیت ثابت کرنا ہوگی۔ اپنی اہلیت سے اہل لوگوں کی ٹیم حکمرانی میں سامنے لانا ہوگی، وزرا اور مشیروں سے لے کر افسران اور دیگر اداروں میں اہل لوگوں کی نامزدگیاں۔ اُن کی تقریریں اور خطابات یا اُن کا طرزِزندگی پاکستان کے لوگوں کی قسمت نہیں بدل سکتا۔ وہ غیرملکی حکمرانوں کو سادہ لباس میں ملتے ہیں، اگر اس سے ملک کا وقار بلند ہوگا تو یہ بھی ایک طرح کی خودپسندی کا مظاہرہ ہے۔ بانیٔ پاکستان محمد علی جناح، کمال کا ذوق رکھتے تھے۔ لباس سے لے کر، انگریزی بولنے اور سگریٹ کے کش لگانے تک کا ذوق اور اس حوالے سے ذوالفقار علی بھٹو بھی نہ صرف اہل بلکہ دنیا کے خوش لباس رہنمائوں میں بھی شما رہوتے تھے۔ وہ کوئی بوسیدہ شلوار قمیص پہن کر ہنری کسنجر سے نہیں ملتے تھے۔ وہ اعلیٰ لباس زیب تن کرتے تھے اور بحیثیت حکمران اعلیٰ کارکردگی کا مظاہرہ کرتے تھے۔ انہیں اس بات کا شعور اور ذوق تھا کہ اقوامِ متحدہ یا وائٹ ہائوس میں کیا لباس پہن کر جانا ہے اور موچی دروازے میں کس شلوار قمیص کے ساتھ۔ وہ فضول خرچ بھی نہیں تھے اور مملکت پر اخراجات کا بوجھ بھی نہیں تھے۔ اُن کی بیٹی بے نظیر بھٹو ، اسلام آباد سے لاڑکانہ تک عام ٹرین میں سفر کرتے ہوئے پہنچی تھی اور ساتھ ہی ہدایت یہ بھی تھی کہ کسی کو کانوں کان خبر نہ ہو کہ قائدعوام کی بیٹی بے نظیر بھٹو ٹرین پر سفر کررہی ہے۔ مگر انہوں نے کبھی اس سادگی کو سیاسی ایشو نہیں بنایا۔ انہوں نے ہمیشہ اپنی حکمرانی کی کارکردگی کو ایشو بنایا۔ اُن کے بیٹے میرمرتضیٰ بھٹو کو آکسفورڈ میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے جب زرمبادلہ کی ضرورت پڑی تو افسرشاہی نے وزیرخزانہ ڈاکٹر مبشر حسن کو بہت رام کرنے کی کوشش کی کہ وزیراعظم کے بیٹے کو قانون سے بالاتر ہوکر تعلیم کے لیے زرمبادلہ دیا جائے، جسے وزیر خزانہ نے مسترد کردیا اور نہ ہی وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے ڈاکٹر مبشر حسن کے فیصلے میں کوئی مداخلت کی۔ اور یوں وزیراعظم پاکستان کے بیٹے کو وہی چند سو ڈالر زرمبادلہ ملا جو قانون کے مطابق ہرکسی شہری کا حق تھا۔ مگر ذوالفقار علی بھٹو نے اس سادگی کی حکمرانی کو کوئی سیاسی ایشو نہیں بنایا۔ انہوں نے حکمرانی کی کارکردگی کو سیاست کے میدان میں پیش کیا، اپنی اہلیت کو بنیاد بنایا۔ سادگی اور حکمرانی میں سادگی، ذاتی زندگی کے معاملات ہیں۔ نومنتخب وزیراعظم اردو ادب کی اُن سطحی کہانیوں اور افسانوں سے باہر نکل کر حکمرانی کریں جن کرداروں کو ہمارے ہاں اردو ادب میں بس اسلام کے اوّلین حکمرانوں تک پیش کیا جاتا ہے۔ اس لیے جب ہمارے عوام کروشیہ کی صدر کو سادہ انسان کے طور پر دیکھتے ہیں تو حیران ہوتے ہیں۔ اِن معصوم لوگوں کو چوںکہ بتایا اور پڑھایا ہی نہیں گیا کہ فرانس جیسی چوتھی بڑی عالمی طاقت کا صدر اس معمولی سی کروشیائی ریاست کے صدر کی طرح ہی سادہ زندگی گزارتا ہے۔ فرانسیسی صدرمتراں کو راقم نے اپنی آنکھوں سے اپنے دفتر کے بعد اپنے چھوٹے سے اپارٹمنٹ تک جاتے دیکھ رکھا ہے۔ ہمارے سادہ لوح عوام جن کو اردو ادیبوں کے ایک خاص ٹولے نے ماضی کے سادہ زندگی گزارنے والے صرف مسلمان حکمرانوں کی داستانیں پڑھا رکھی ہیں، اُن کے لیے کروشیائی صدر کو گزشتہ فٹ بال ورلڈکپ میں عام آدمیوں کے ہمراہ میچ دیکھتے پاکر حیران ہونا یقینی تھا اور ایسے ہی نومنتخب وزیراعظم عمران خان کی تقریر میں سادہ زندگی گزارنے کے بیان کے سحر میں گرفتار ہوجانابھی۔ وزیراعظم عمران خان جو ہرروز بنی گالہ کے محل سے نکل کر اپنی سادہ زندگی گزارنے کے لیے حکمرانی کے ایوانوں میں آتے ہیں، انہیں اس سے آگے، اعلیٰ کارکردگی کی بنیاد پر لوگوں کی قسمت کو بدلنا ہوگا، تب ہی پاکستان بدلے گا۔ سادہ کپڑے پہن لینے ، کروڑوں سرکاری اخراجات کی کمی سے دنیا کی ایک غریب قوم کی قسمت نہیں بدلی جا سکتی۔ یہ خودپسندی کا ایک اظہار ہے۔ برا نہ مانیں تو نرگسیت ہے۔ اس نرگسیت کے دائروں سے باہر نکلیں اور ہاں ورلڈکپ کے سحر سے بھی باہر نکلیں۔ اپنی لیڈرشپ ثابت کریں۔ عوامی حکمرانی کی لیڈرشپ۔ آپ بے شک دیسی گھی میں پکی دیسی مرغی کھائیں، مگر پاکستان کے عوام کو اُن کے حقوق دینے کے لیے اپنی حکمرانی کو عوامی حکمرانی کی اہلیت میں کارکردگی کا مظاہرہ کریں۔ نیا پاکستان، اس ملک کو ایک خواندہ پاکستان اور غربت سے پاک پاکستان میں بدلنے سے ہی ابھرے گا، سطحی کہانیوں، افسانوں اور اعلانات سے نہیں۔
“