مزارعین کی تحریک کو کچلنے کیلئے ریاستی جبر، نئے انداز میں مزارعین دہشت گرد نہیں، غریب کسان ہیں
پنجاب میں کسانوں اور مزارعین کی ایک اہم ترین تحریک کو ریاستی سطح پر کچلنے کا عمل اسی طرح جاری ہے جس طرح وزیرستان یا دیگر قبائلی علاقوں میں ضرب عضب کے دوران بڑے پیمانے پر فوج کا استعمال کیا گیا۔ انجمن مزارعین زیر عتاب ہیں۔ اس کے اہم راہنماؤں کو گرفتار کر لیا گیا ہے اور دوسرے اور تیسرے درجے کے راہنماؤں کی گرفتاریاں جاری ہیں۔ چھاپے مارے جا رہے ہیں۔ دیہاتوں کا گھیراؤ جاری ہے۔ ٹینکوں اور آرمڈ وہیکلز مشین گنیں نصب کیئے دیہاتوں میں فلیگ مارچ کرتی ہیں۔ اوکاڑہ ڈسٹرکٹ انتظامیہ، ملٹری فارمز اور آرمی ویلفیئر ٹرسٹ کی پوری مدد کے ساتھ مزارعین پر حملہ آور ہے۔ ان کو بار بار دہشت گرد قرار دیا جاتا ہے۔ بلیک میلر، مطلوب اشتہاری، جدید اسلحہ سے لیس، غنڈہ گرد عناصر جیسے القابات کا مزارعین قیادت کے لیے استعمال عام ہے۔ مسلم لیگ نواز حکومت خاموشی سے پنجاب کے کسانوں کی اہم ترین بغاوت کو کچلنے کے عمل کو مدد دے رہی ہے۔ وزیرِاعلٰی پنجاب خاموش ہیں۔
انجمن مزارعین پنجاب کا قصور یہ ہے کہ وہ ان ہزاروں ایکڑ زمین کی ملکیت کا مطالبہ کر رہے ہیں جسے ان کے پڑدادا اور ان کے آباؤاجداد نے آباد کیا۔ بار بار وعدوں کے باوجود یہ زمین انہیں دینے سے انکار کیا جا رہا ہے اور اب مزارعین راہنماؤں کو اس مطالبہ سے روکنے کے لیے جھوٹے مقدمات کے ذریعے پھنسانے کے ساتھ ساتھ انہیں طویل عرصہ تک جیل میں قید رکھنے کے منصوبے جاری ہیں۔ مزارعین راہنماؤں کے خلاف قتل، انسداد دہشت گردی اور دیگر سنگین دفعات کے تحت جھوٹے مقدمات درج کیے گئے ہیں۔ ایک گاؤں کے اندر چار دیواری میں انجمن مزارعین پنجاب کے اجلاس کو بھی دہشت گردی کا ایک واقعہ قرار دے کر ان کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا۔ زیادہ تر جھوٹے مقدمات 16/2015 کے دوران درج کیے گئے جب ندیم اشرف سابق ناظم رینالہ خورد کو 2015ء کے آغاز میں گرفتار کیا گیا۔ وہ انجمن مزارعین پنجاب کے نائب صدر تھے ان کی گرفتاری کے خلاف ردِعمل میں ہونے والے تمام مظاہروں کے بعد دہشت گردی دفعات کے تحت مقدمات درج کئے گئے۔ بعد ازاں کلیانہ ملٹری سٹیٹ کے راہنما ملک محمد سلیم جھکڑ، حافظ جابر اور شبیر احمد ساجد کی گرفتاریوں کے بعد بھی ہونے والے مظاہروں پر دہشت گردی کے دفعات کے تحت مقدمات درج کئے گئے۔
17 اپریل عالمی سطح پر کسانوں کا دن منایا جاتا ہے۔ اس روز 1996ء میں برازیل کے اندر 26 کسانوں کو زمین کی ملکیت اور لینڈ ریفارمز کے مطالبات کرنے پر گولیوں سے بھون کر شہید کیا گیا تھا۔ کسانوں کی عالمی تنظیم، لاویا کمنسینا (La Via Campensina) نے اسے کسانوں کا عالمی دن قرار دیا تھا۔ 2009ء سے پاکستان کسان رابطہ کمیٹی اور انجمن مزارعین پنجاب دونوں اشتراک کے ساتھ اس روز اجتماعات کا اہتمام کرتی آئی ہیں۔
اس سال 2016ء میں یہ اجتماع اوکاڑہ کے ایک گاؤں چک 4/4/L میں منعقد کرنے کا اہتمام کیا گیا۔ 14 اپریل کو اس کنونشن پر اوکاڑہ انتظامیہ نے پابندی عائد کر دی۔ دفعہ 144 کا نفاذ کر دیا گیا، جب انتظامیہ کی بات ماننے سے انکار کر دیا گیا تو 16 اپریل کو انجمن مزارعین پنجاب کے جنرل سیکرٹری مہر عبدالستار کو ان کے چک 4/4/L ملٹری مارمز اوکاڑہ میں واقع ان کے گھر سے گرفتار کر لیا۔ اس کے خلاف احتجاج ہوا تو جی ٹی روڈ پر آنے والوں کو بُری طرح مارا پیٹا گیا۔ ایک نوجوان محمد صابر آنسو گیس کا گولہ لگنے سے زخمی ہوا اور شام کو دم توڑ گیا۔ 17 اپریل کو جی ٹی روڈ سے آدھ کلو میٹر ہٹ کر اس کے دونوں اطراف ہزاروں مزارعین اکٹھے ہوئے۔ درمیان میں جی ٹی روڈ پر پولیس اور رینجرز فوج کے دستے مسلح ہو کر کھڑے تھے جبکہ کھیتوں میں ہزاروں کسان اور مزارعین کسانوں کے عالمی دن کے موقع پر کنونشن میں شرکت کر رہے تھے۔ شاید دنیا میں کسی اور جگہ کسانوں نے فوج اور پولیس کی دہشت اور جبر کے باوجود اس طرح کسانوں کا عالمی دن منایا ہو، جس طرح اوکاڑہ میں مزارعین نے منایا۔ یہ بھی ایک بغاوتی عمل تھا۔ راہنماؤں کی گرفتاریوں، چھاپوں، جھوٹے مقدمات، ٹینکوں کے مارچ اور بندوقوں اور سنگینوں کی چھاؤں میں عام کسانوں اور مزارعین نے جس جرأت کا مظاہرہ کیا ہے وہ پنجاب کی تاریخ میں بھگت سنگھ، احمد خاں کھرل اور دلا بھٹی کی دلیرانہ جدوجہد کا عکس نظر آتی ہے۔
بغاوت کا آغاز:
2001ء کے آغاز میں جنرل پرویز مشرف نے 100 سال سے زائد کام کرنے والے مزارعین کو حکم دیا کہ وہ مزارع کا سٹیٹس چھوڑ کر ٹھیکے پر آ جائیں۔ اس سے قبل اوکاڑہ، رینالہ خورد، پاک پتن، دیپال پور، ساہیوال، خانیوال، لاہور سرگودھا، فیصل آباد اور شیخوپورہ میں واقع پبلک سیکٹر کے زرعی فارموں جن میں سیڈ کارپوریشن، رائس کارپوریشن اور ملٹری فارمز، آرمی ویلفیئر ٹرسٹ میں مزارعین غلامانہ زندگی بسر کر رہے تھے۔ ہر جگہ پہر تھے۔ مختلف ٹیکس عائد کئے جاتے تھے اور بھاری جرمانے کئے جاتے تھے۔ مزارعین سے فصل کا تقریباً آدھا حصہ مختلف محکمے لے جاتے تھے۔ مزراعین انتہائی غربت میں زندگی بسر کر رہے تھے۔ اس کے خلاف بغاوت کا ابھرنا ایک قدرتی عمل تھا۔ اس پس منظر میں جب مشرف نے انہیں ٹھیکے پر لا کر ان کی زمینوں پر قبضہ کرنے کا منصوبہ بنایا تو مزارعین جاگ گئے۔ پس پردہ محرکات سمجھ گئے اور پنجاب کی تاریخ کی ایک لازوال بغاوت کا آغاز ہو گیا۔ مزارعین نے انجمن مزارعین پنجاب کے نام سے تنظیم قائم کر کے تمام سرکاری محکموں کو بشمول ملٹری فارمز آدھا حصہ دینے سے انکار کر دیا۔ ’’بہت دے دیا، اب کچھ نہیں‘‘ پر عمل کرتے ہوئے ’’مالکی یا موت‘‘ تحریک کا آغاز کر دیا یعنی اب یا تو ہم مالک ہوں گے یا پھر ہمیں مار دیا جائے۔
یہ مزارعین کی مسلح بغاوت نہ تھی یہ ایک عوامی سرکشی تھی۔ ایک پر امن بغاوت جس میں صرف صدیوں کے استحصال کا بدلہ 50 فیصد حصہ نہ دے کر لیا جا رہا تھا۔ یہ ایک معاشی بغاوت تھی جس میں کسانوں اور مزارعین کے جتھے شریک تھے۔ عورتیں اس کی قیادت میں تھیں اور نوجوان بغاوتی عمل میں سب سے آگے تھے۔ عوامی بغاوت کی ایک شاندار روایت کا آغاز کیا جا رہا تھا۔ 2001ء سے شروع ہونے والی اس بغاوت کو فوجی جنتا نے کچلنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ تین ماہ تک 19 دیہاتوں کا گھیراؤ کیا گیا۔ سبزی، برف، پھل وغیرہ بیچنے والوں کو دیہاتوں میں جانے سے روک دیا گیا۔ جو بھی باہر آنے کی جرأت کرتا گرفتار کر لیا جاتا۔ مزارعین کے شہروں میں موجود رشتہ داروں کی گرفتاریاں شروع ہو گئیں پھر یہ بھی ہوا کہ جن کی شادیاں ان دیہاتوں میں ہوئی تھیں ان کو طلاق دینے پر مجبور کیا گیا۔ یہ فوجی جبر کی ایک ایسی داستان تھی جس کی ہر ایک سیاسی و سماجی جامعت اور تنظیم نے مذمت کی۔
اس دوران مجھے ’’ثالثی‘‘ کے لیے میجر جنرل حسین مہدی سے ملاقات کرنی پڑی پھر میرے اصرار پر مجھے اوکاڑہ جانے کا موقع فراہم کیا گیا۔ جب دیہاتوں میں گیا تو ہر جگہ سرخ پرچم لگے کیمپ موجود تھے اور مزارعین اصرار کر رہے تھے کہ جدوجہد جاری رکھیں گے جھکیں گے نہیں بلکہ مزاحمت کریں گے۔ حصہ نہیں دیں گے، مجھے کرنل سلیم سے ملاقات کے لیے ان کے دفتر میں جانے کا موقع ملا تو ان کے کمرے میں تین مختلف رنگوں کے چارٹ لگے ہوئے تھے۔ سبز، پیلے اور سرخ! ان پر مزارعین کے نام درج تھے۔ معلوم ہوا کہ سبز چارٹ پر درج ان مزارعین کے نام ہیں جو ٹھیکہ دینے پر آمادہ ہیں۔ پیلے رنگ کے چارٹ پر وہ تھے جو ابھی متذبذب تھے اور سرخ رنگ کے چارٹ پر ان کے نام تھے جو فوجی افسران کی بات ماننے سے منکر تھے۔ اس وزٹ کے بعد ہمارے مشورے پر مزارعین نے ’’سرنڈر‘‘ کر دیا کیونکہ دیہاتوں میں فاقوں تک نوبت تھی۔ زخمی فوت ہو رہے تھے۔ بیماریاں پھیل رہی تھیں ایک انسانی المیہ نظروں کے سامنے تھے۔ یہ ایک قدم آگے دو قدم پیچھے والا منظر تھا۔ مزارعین سے ہر گاؤں میں ٹھیکے والے فارموں پر زبردستی دستخط کرا لئے تھے۔ یہ ایک وقتی پسپائی تھی۔ چند ماہ کے اندر ہی مزارعین ایک دفعہ پھر اپنے پاؤں پر کھڑے ہو کر پنجاب کی ایک لازوال پر امن سرکشی کے عمدہ کھلاڑی بن کر ابھرے۔ 2003ء سے 20016ء تک مختلف عروج و زوال کے ادوار آئے مگر تحریک قائم رہی۔
عوامی سرکشی کے سیاسی اطراف:
انجمن مزارعین پنجاب ایک آزاد بغاوتی تنظیم کے طور پر ابھری۔ بائیں بازو کی ایک جماعت کے سیکرٹری جنرل کے طور پر ہم نے اس کی ہر ممکن مدد کرنے عملی نمونہ پیش کیا۔ تحریک کے بعض راہنما ہمارے ممبران بن گئے۔ 2008ء میں عام انتخابات میں یہاں سے آزاد امید وار کی حیثیت سے مہر عبدالستار نے دوسری پوزیشن حاصل کی۔ آزاد امید وار کے طور پر انتخاب میں حصہ لینے کی وجہ سے مزارعین کسی ایک سرمایہ دار جاگیر دار جماعت کے پیچھے متبادل نہ ہونے کی صورت میں لگنے کی بجائے تحریک کے ساتھ جڑے رہے۔ یہ ایک عمدہ سیاسی قدم تھا۔ تین ہزار سے کم ووٹوں کے فرق سے وہ پنجاب اسمبلی کا انتخاب ہار گئے۔ الیکشن ہار گئے مگر تحریک کو بچا کر رکھ لیا۔ افسوس یہ حکمت عملی 2013ء میں جاری نہ رہ سکی۔ مختلف وجوہات کی بنا پر مہر عبدالستار پیپلز پارٹی کے امید وار بن گئے۔ مگر اس بار بھی وہ چند ہزار ووٹوں سے ہارے۔ اگرچہ ان کے 37000 کے لگ بھگ ووٹ پنجاب میں پی پی پی کے کسی بھی صوبائی امید وا سے زیادہ تھے۔ یہ اس کے باوجود ہوا کہ ہم نے ایک اجلاس میں تحریکی راہنماؤں کے ساتھ مل کر فیصلہ کیا تھا کہ اس بار بھی آزاد امید وار کے طور پر انتخاب لڑا جائے مگر عملی طور پر ایسا نہ ہوا۔
انتخاب کے بعد اس انتخابی حکمت عملی کو کمزور اور غلط قرار دے کر اس کو دوبارہ نہ دہرانے کا فیصلہ کر لیا گیا اور 2015ء میں قومی اسمبلی کے ضمنی انتخاب میں آزاد امید وار کی حیثیت سے حصہ لے کر تیسی پوزیشن حاصل کر لی گئی۔ اس عمل سے بہتر بھی تحریک زندہ رہی اور بعد ازاں لوکل باڈیز کے انتخابات میں مقامی سطح پر 4 یونین کونسلوں میں چیئرمین سمیت تمام پینل کی فتح ایک بغاوتی عمل کی درست سیاسی وابستگی کا اظہار تھا۔
بغاوت کو کچلنے کے اقدامات:
مزارعین کی بغاوت کو کچلنے کا آغاز ’’ضربِ عضب‘‘ کے بعد سے ہی مختلف شکلوں میں جاری تھا۔ یہ کیسے ممکن تھا کہ فوجی افسران کو غریب اور کمزور حصہ دینے سے مسلسل انکار کریں۔ اس سرکشی کو کچلنے کے لیے مناسب وقت کا انتظار تھا ایک جامع حکمت عملی کی تشکیل کے لیے آرمی کے ایک ریڑئرڈ کیپٹن کو اوکاڑہ کا ڈسٹرکٹ پولیس افسر تعینات کیا گیا۔ اب پولیس اور فوج ایک صفحے پر تھی۔ کسانوں کو عوامی سرکشی کا مزا چکھانا ضروری سمجھ لیا گیا تھا۔ نیشنل ایکشن پلان تو مذہبی دہشت گردوں کے خلاف ترتیب دیا گیا تھا مگر اوکاڑہ میں اس کو مزارعین کے خلاف استعمال کرنے کا طریقہ کار اختیار کیا گیا۔ اس کے لیے ضروری تھا کہ مزارعین کو دہشت گرد قرار دیا جانا۔ چنانچہ اس مقصد کے لیے سب سے پہلے اوکاڑہ کے مقامی میڈیا کو کنٹرول کیا گیا۔ انہیں ہدایت دی گئی کہ ان کے بارے میں خبر سے پہلے مشورہ کریں۔ پھر مزارعین کے راہنماؤں کو یکے بعد دیگرے گرفتار کرنا شروع کیا گیا اور پھر انسدادِ دہشت گردی کی دفعات کے تحت پے در پے مقدمات درج کرنے کا سلسلہ تیز کیا گیا۔
کیا مزارعین دہشت گرد ہیں؟
انسدادِ دہشت گردی کا ایکٹ ان کے خلاف استعمال کیا جانا قصور ہوتا ہے جن کے عمل سے معاشرے میں افراتفری پھیلتی ہو، دہشت پھیلتی ہو، ڈر اور خوف کی فضا قائم ہوتی ہو اور قتل و غارت اور جرائم میں اضافہ ہوتا ہو۔
یہاں صورتحال بالکل برعکس تھی 2001ء سے شروع ہونے والی تحریک میں 2016ء تک گیارہ مزارعین ریاستی وغیرہ ریاستی مگر ریاستی پشت پناہی پر کام کرنے والے گروہوں کی فائرنگ سے شہید ہوئے۔ اس کے برعکس اس پوری تحریک کے دوران ایک بھی فوجی یا سپاہی مزارعین کی دہشت گردی کا شکار ہو کر فوت نہ ہوا تھا۔
مزارعین کا حصہ نہ دینے سے پورے علاقہ کے اندر دہشت میں اضافہ نہ ہوا بلکہ تنظیمی سوچ میں بڑھوتی آئی۔ حصہ نہ دینے سے مزارعین کی معاشی حالت کسی حد تک بہتر ہوئی۔ وہ انسان بن کر زندگی گزارنے کے عمل کی طرف بڑھنے لگے۔ وہ یہ ضرور کرتے تھے کہ اجلاس منعقد کرتے تھے۔ شہداء کی برسی مناتے تھے۔ راہنماؤں کی گرفتاریوں پر احتجاج کرتے تھے۔ سڑک پر آ کر نعرہ بازی کرتے تھے۔ اوکاڑہ میں ڈی سی او دفتر کے سامنے بیٹھ جاتے تھے اور سرخ جھنڈوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرتے تھے۔ یہ تمام عمل سیاسی تھے، پر امن تھے، آزادی رائے کا اظہار تھے۔ ایک جگہ اکٹھے ہونے کے آئینی حق کا استعمال تھا۔ یہ پہلی دفعہ تھا کہ پنجاب کے کسان زمینوں کی ملکیت کا مطالبہ زور دار انداز سے کر رہے تھے۔ نیشنل ایکشن پلان کی غلط تشریح نے مزارعین کو ان دہشت گردوں کی صف میں کھڑا کر دیا ہے جو واقعی ہم چلاتے ہیں۔ خودکش دھماکے کرتے ہیں، قتل و غارت کرتے ہیں اور ٹارگٹ کلنگ کرتے ہیں۔
یہ سب کچھ نہیں چلے گا جو مشرف دور میں کامیاب نہ ہو وہ اب کیسے ہو سکتا ہے۔ مزارعین کو دہشت گرد قرار دینے کی کوششوں کو بے نقاب کیا جائے گا اور اوکاڑہ انتظامیہ کی طرف سے مزارعین کی تحریک کو دبانے کے لیے ہر ریاستی جبر کا مقابلہ کیا جائے گا۔
تحریک کچلی جا رہی ہے۔ مگر تحریک اب ہر ایک مزارعے نوجوان، عورت اور مرد کے اندر ہے۔ میں نے مزارعین کی تحریک میں اس جبر کے دوران بھی جو عوامی سرکشی کے اظہار دیکھے ہیں وہ میرے لیے انمول سبق ہیں۔ مزارعین کی اس سرکش تحریک کو وقتی طور پر کچلا جا سکتا ہے ختم نہیں کیا جا سکتا۔ یہ آج نہیں تو کل ابھرے گی۔
کس کے روکے، رکا ہے سویرا
“