دھرنوں اور ریلیوں کی سیاست میں کیا چھپا ہے؟
ایک مارچ 2014 میں تحریک انصاف نے انتخابات میں دھاندلی کے نام پر اسکے انعقاد کےایک سال نکالا جس کے ساتھ ساتھ طاہر القادری کا مارچ بھی علیحدہ مگر ساتھ ساتھ چلتا رھا۔ ان دونوں کو حکومت لاھور میں روکناچاھتی تھی۔ مگر پیپلز پارٹی نے نواز حکومت کو رضامند کر لیا کہ انہیں لاھور سے اسلام اباد جانے کی اجازت دی جائے یہ متفقہ جگہ سے اگے نہیں جائیں گے۔
دعوی کیا گیا کہ دس لاکھ لوگ نکلیں گے لاھور سے اور ان کے آگے ایک لاکھ موٹر سائیکل سوار ہوں گے۔ انتخابی دھاندلی کے نام پر یہ دھرنا اسلام اباد میں 14 اگست 2014 سے لیکر 17 دسمبر تک جاری رھا۔ اس وقت ختم ھوا جب پشاور کے ملٹری پبلک سکول میں مزھبی دھشت گردوں نے اندر گھس کر 154 طلبا اوراساتذہ کو شہید کر دیا۔
یہ دھرنا اغاز میں ہی ناکام نظرآیا جب چند ہزار لوگ ہی لاھور سے روانہ ہوئے اور دو علیحدہ ریلیاں مگرمقصد میں یکسانیت اسلام اباد روانہ ہوئیں۔
ان دونوں کو یقین تھا کہ ہم اسلام اباد پہنچیں گے اور "تبدیلی" آ جائے گی۔ 123 دن جاری رھنے والے اس دھرنے کے دوران متفقہ جگہ تک رھنے کی خلاف ورزی کی گئی۔ میڈیا اور پارلیمنٹ پر حملے کئے گئے۔ روزانہ رات کو عمران خان اگلے دن آنے والی خوشخبری کی خبر سنا دیتے۔ انگلی اٹھانے کی نویدبھی سنائی گئی۔ جب ملٹری جرنیل اپنی روٹین کے کور کمانڈرز اجلاس میں بیٹھے تو ان کو بہت غلط فہمی ہو گئی کہ اب انگلی اٹھنے والی ہے۔ پھر جب آرمی چیف نے انہیں اجلاس کے لئے بلایا تو یہ سمجھ بیٹھے کہ آرمی ٹیک اوور ہونے والا ہے۔
اس دوران مسلم لیگ ن حکومت نے انتہائی صبر کا مظاھرہ کیا۔ عمران خان کی پارٹی کےممبران اسمبلی کے استعفے دینے کے باوجود سپیکر نے انہ منظور نہ کیا اور اس دھرنے کے طوالت پکڑنے میں ان دونوں کی مدد کی۔ جوں جوں دن بیتتے گئے، تعداد کم ھوتی گئی اور پھر ان کو پشاور اندوھناک واقعہ نے معقول بہانہ فراھم کر دیا کہ دھرنے کوکسی کامیابی کے بغیر ختم کر دیا جائے۔
اس دھرنے کا ایک ہی مقصد نظر آیا کہ انتخابی دھاندلی کے نام پر نواز سویلین حکومت ختم کر دی جائے چاھے وہ فوج کرے یا عدلیہ، یہ کام ہوناچاھیئے۔ مگر یہ ھو نہ سکا، یہ مارشل لا لگوانے یا جوڈیشل بغاوت کرانے کی کوشش ناکام ہو گئی۔ اس کی بڑی وجہ میڈیا کی غیر معمولی کوریج کے باوجود اس میں عوام کی شرکت بڑے پیمانے پر نہ ہونا تھا۔ وقت گزرتا گیا اورلوگ بڑھنے کی بجائے کم ہوتے گئے۔
عمران خان نے اپنا کام جاری رکھا اور مستقل مزاجی سے سویلین حکومت کو ھٹانے کے حربے استعمال کرتےرھے۔ پنامہ نے انہیں ایک اور موقع دیا۔
اس دفعہ مسلم لیگی حکومت یہ رسک لینے کو تیار نہیں تھی کہ وہ اسلام آباد میں اکٹھے ہوں، ریاستی جبر کو ازمایا گیا، پولیس نے انسو گیس استعمال کی اور جلوسوں کو روکنے کی پوری کوشش کی۔ اس دوران سپریم کورٹ نے اس کا نوٹس لیا۔ اور عمران خان نے ججوں کی "دعوت" پر اپنے دھرنے کو ختم کر دیا
سپریم کورٹ میں مقدمہ کے دوران عمران خان وہ منی ٹریل دینے میں ناکام رھے جس سے ثابت ہو کہ لندن فلیٹ پاکستان سے بدعنوانی کے ذریعے حاصل کردہ رقم سے خریدے گئے۔
یہ حقیقت ہے کہ لندن فلیٹ موجود ہیں، بڑے مہنگے ہیں۔ نواز فیملی کی ملکیت ہیں اور یہ کوئی ان کی محنت کی کمائی کا نتیجہ نہیں۔ مگر سرمایہ داری نظام میں کرپشن کے ثبوت دینا اسان نہیں۔ سب نے کرپشن کرنے میں انتہائی مہارت کی ہوئی ہے۔
پاکستان جیسے غیر ترقی یافتہ ملک میں سرمایہ داری جاگیرداری نظام اپنی سرشت میں ہی بدعنوان ہے۔ان طبقات کا کوئی حصہ ایسا نہیں جو ترقی پسند ھو اور نہ ہی یہ اصلاح پسند ہیں، اصلاحات کے نام پر رد اصلاحات کی جاتی ہیں۔ یہ زیادہ تر رجعتی نظریات رکھتے ہیں، تنگ نظر ہیں۔ جلدی جلدی امیر ہونا چاھتے ہیں۔ اپنی ذاتی انوسٹمنٹ کی بجائے ریاستی بینکوں سے قرضے لے کر انہیں واپس نہ کرنے کے بہانے ڈھوندتےہیں۔ اب تو اس کی بھی نوبت نہیں، انہوں نے میاں نواز شریف کی سابقہ حکومتوں کی مددسے بینک ہی اونے پونے داموں خرید لئے تھے، نجکاری کے نام پر۔
سرمایہ داری طبقات انکے نظریات کے حوالے سے فرق بہت تھوڑا ہے۔ یہ سارے فوج کی مدد سے یا اب عدلیہ کی مدد سے اقتدار میں انا چاھتے ہیں۔ حقیقی جمھوریت ان کے پاس سے بھی نہیں گزری۔ پیسے کے زور پر الیکشن جیتتے ہیں، اربوں لگاتے ہیں کھربوں کمانے کے لئے۔ عوام کی بہت بڑی تعداد انتخابات میں حصہ ہی نہیں لے سکتی۔ یہ سب ایسے ہی ہیں۔ طبقاتی بنیادوں پر ان کے استحصال میں کوئی کمی نہیں ھوتی، چاھے کوئی بھی اقتدار میں ہو۔ ان کے کارخانے اور ادارے چلتے رھتے ہیں، انکی اپس کی بڑی لڑائیوں کے دوران بھی یہ ایک دوسرے کو طبقاتی بنیادوں پر مدد دیتے رھتے ہیں۔
پاکستانی حکمران طبقات نے مزھبی جنونیت کو ختم کرنے کی بجائے اسے بڑھانے کے شعوری یا غیر شعوری اقدامات کئے۔ اور ملٹری ڈکٹیٹر ضیا الحق نے تو کھل کر ان مزھبی جنونیوں کو امریکی سامراج کی مدد سے "سوشلزم" کو ختم کرنے کے نام پر پھلنے پھولنے کا موقع فراھم کیا۔
مگر ان حکمران طبقات میں جو تھوڑا بہت فرق ہے اسے سمجھنے کی ضرورت ہے۔ کچھ ہر وقت فوجی جرنیلوں کی مدد سے اقتدار میں انے کی کوشش کرتے ہیں۔ جیسا کہ عمران خان کی حکمت عملی ہے اب اس میں ٹاپ ججوں کی اکثریت بھی شامل ہو گئی ہے اورفوجی جرنیل ان ہی سیاست دانوں کی مدد سے سویلین کو "گیا گزرا" ثابت کرنے اور فوجی اقتدار کے راستے کو صاف کرنے کی جستجو میں رھتے ہیں۔
میاں نواز شریف کی حکمت عملی ہے کہ سویلین سیٹ اپ قائم رھے، یہ اچھی بات ہے۔ جب بھی فوجی اقتدار میں آتے ہیں یا ان کی مدد سے کچھ سیاست دان اقتدار سنبھالتے ہیں تو محنت کش عوام کاُاستحصال تیز ہو جاتا ہےاور بات کرنی بھی مشکل ہو جاتی ہے۔
میاں نواز شریف کو کرپشن ختم کرنے کے نام پر نکالا گیا۔ مگر یہ ایک بہانہ تھا۔ ان کو "گندا" کرنا مقصود تھا۔ تاکہ انے والے وقت میں ان کی عوام میں پائی جانے والی حمائیت ختم ہو، اور یہ انتخابات میں "جیت" جائیں۔
جی ٹی روڈ کی ریلی ایک غیر معمولی قدم تھا۔ یہ خطرات سے بھرا ایک سیاسی عمل تھا جسے ایک سرمایہ دار پارٹی نے اٹھایا۔ اس کے دوران دو ریاستی ادارے جن کو عام طور پر "اسٹیبلیشمنٹ" کہا جاتا ہے عوام کی نظر میں کسی حد تک بے نقاب ہوئے۔ یہ دونوں ریاستی ادارے عدلیہ اور افواج، عام طور پر مقدس گائے سمجھے جاتےہیں کہ انکے بارے میں کوئی کچھ نہ کہے۔
لاکھوں کی تعداد میں مسلم لیگی ریلی میں شریک لوگوں نے عدلیہ کے فیصلے کو رد کیا۔ اور ہاتھ اٹھا کر کہا کہ انصاف نہیں ہوا۔ یہ پہلے پاکستانی سیاسی تاریخ میں کبھی نہ ہوا۔ بھٹو کو بھی عدلیہ کے ٹاپ ججوں نے غلط طور پر پھانسی کی سزا سنائی اورڑکٹیٹر نے اسے پھانسی لٹکا بھی دیا، بھٹو یادگار بن گیا۔ مگر پچھلے چند دنوں کی طرح لاکھوں عوام سڑکوں پر نہ ائے۔
نواز شریف اس لحاظ سے خوش قسمت تھے کہ کوئی فوجی حکومت نہ تھی ان کی اپنی حکومت ہی تھی۔ اس لئے انہیں اچھا خاصا موقع مل گیا کھل کر دل کی بھڑاس نکالنے کا، مگر یہ سمجھنا کہ ان کی حکومت نے اتنے بندے نکالےٹھیک نہ ہوگا، یہ سب ججوں کے فیصلے سے ناخوش تھے اور نواز شریف کی جانب سے "مظلومیت" کو موثر انداز میں پیش کرنے سے متاثر تھے۔
دو دھرنے نکلے ایک چودہ میں فوج اور عدلیہ کی مدد سے اقتدار حاصل کرنے کے لئے اور ایک 2017 میں پنامہ کے نام پر، ایک ریلی ابھی ہماری انکھوں کے سامنے جی ٹی روڈ پر نکلی، ریلی زیدہ تر عدلیہ اور افواج کے ممکنہ گٹھ جوڑ کو شدید تنقید کا نشانہ بناتی رھی۔ دونوں کے گٹھ جوڑ کو بے نقاب کرنے کی کوشش کرتی رھی کبھی کھلے بندوں اور کبھی اشاروں کنائیوں میں۔ یہ ہے فرق جو سمجھنے کی ضرورت ہے۔
اسی لئے سوشلسٹ ایک کی کھل کر مخالفت کرتے رھے اور دوسرے کو تنقیدی نظر سے دیکھتے رھے۔ یہ کوئی میاں نواز شریف یا انکی پارٹی کی حمائیت نہیں تھی بلکہ یہ اس سیاسی عمل کی تنقیدی حمائیت تھی جو سویلین سیٹ اپ کو اقتدار میں رکھنے کی مدد کرے اور عدلیہ اور فوجی اداروں کی سویلین معاملات میں غیر ضروری مداخلت کا راستہ روکے۔
ایک نیا سیاسی بحرانی دور شروع ہوا ہے۔ ایک جانب زیادہ رجعتی قوتیں ہیں اور دوسری جانب ذرا کم، ایک طرف فوج اور عدلیہ کی مدد سے اقتدار میں آنے کے لئے عوامی موبلائزیشن کا عمل جاری ہے اور دوسری جانب "بےوقوف" عوام جو ان دونوں کی مداخلت کے خلاف ہیں۔ عمران خان نے نواز شریف کے ساتھ شامل لوگوں کو 12 اگست کے ایک ٹی وی انٹرویو میں "بے وقوف" قرار دیا۔
یہ ایک وقتی جنگ ہے حکمران طبقات کی دو اطراف کے درمیان۔ اگرچہ ہمیں دونوں پر اعتماد نہیں لیکن ہم وقتی طور پر تنقیدی نظر سے دیکھیں گے انکی مخالفت کئے بغیر جو زیادہ غیر جمھوری اور repressive اداروں کے خلاف عوام کی موبلائزیشن کرتے ہیں۔
تجزیہ؛ فاروق طارق
ترجمان عوامی ورکرز پارٹی
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“