انسان جب آپس میں گفتگو کرتاہے، تو اس کے مختلف اسلوب و انداز ہوتے ہیں، بات کبھی مثبت ہوتی ہے، تو کبھی منفی، کوئی لمحہ غم کا ہوتاہے، تو کوئی خوشی کا، لہجہ کبھی سخت ہوتا ہے، تو کبھی نرم، کوئی بات اسے تعجب میں ڈالتی ہے، تو کبھی اسے خوف کا سامنا کرنا پڑتا ہے. غرض کہ روز مرہ میں نرمی، سختی، خوشی، غم، تعجب، استفہام، خوف، غصہ. اس طرح کے نشیب و فراز اور اتار چڑھاؤ پائے جاتے ہیں اور یہی حال قلم کابھی ہے، اس لیے کہ قلم بھی انسان کی خاموش زبان ہے اور زبان کے زریعے سے نکلنے والے دلی احساسات وجذبات کا ترجمان بھی۔
انسان جہاں اپنی گفتگو کوموٴثر بنانے کے لیے اس کے آداب کی مکمل رعایت کرتاہے، وہیں اس کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ زبان کے ساتھ اپنے قلم سے نکلی ہوئی تحریر میں بھی اسے ملحوظ رکھے، اس لیے کہ ایک قلم کار اپنی تحریر کے ذریعے دنیا کو عظیم پیغام دیتاہے اور اپنے طبقے کو ترقیات کے بامِ عروج پر دیکھنے کا خواہاں ہوتا ہے اور یہ اس وقت تک ناممکن ہے، جب تک کہ آلہ کو آلہ کے اصول کے مطابق نہ چلایا جائے، یعنی قلم بھی ایک آلہ ہے، بل کہ ابلاغ کا ایک موٴثر ذریعہ ہے اور اس کے بھی کچھ اصول و ضوابط ہیں جن کی رعایت ناگزیر ہے. یہی وجہ ہے کہ ہر نبی اپنے زمانہ کا سب سے بڑا فصیح وبلیغ ہوا کرتا تھا جس کی شہادت قرآن میں صراحتاً موجود ہے۔
قلم کے مسافر کے لیے جس طرح دیگر اصول وضوابط کی ہم رکابی ضروری ہے، اسی طرح اپنی تحریر میں ”رموز اوقاف“ کا توشہ بھی ناگزیر ہے اور نہ صرف رموز اوقاف کی محض معلومات بل کہ ان کا برمحل استعمال مقصود ہے۔
آج ایک طبقہ تو شاید ”رموز اوقاف“ کے رموز سے واقف ہی نہیں اور اگر ہے بھی، تو ان کی رعایت ”آٹے میں نمک“ کے برابر ہے. ہاں ادبی تحریروں میں تو ان کی رعایت کی جاتی ہے، لیکن رموز اوقاف کا تعلق محض ادبی تحریروں ہی سے نہیں ہے بل کہ مطلق اس کا تعلق کسی زبان کے تحریری مواد سے ہے۔
اسی جذبے کے پیش نظر رموز اوقاف سے متعلق مختلف کتابوں۔ بطور خاص بابائے اردو مولوی عبدالحق صاحب کی معروف کتاب ”قواعد اردو“ کو سامنے رکھ کر چند باتیں سپرد قرطاس کی جاتی ہیں۔
تحریروں میں استعمال ہونے والی علامات اور اس کے نام:
(۱) سکتہ (،) (۲) وقفہ (؛)
(۳) رابطہ (:) (۴) تفصلیہ (:-)
(۵) ختمہ (۔/․) (۶) سوالیہ (؟/?)
(۷) مجائیہ،ندائیہ (!) (۸) قوسین (( )/())
(۹) خط (ـــــــ) (۱۰) واوین (” “)
سکتہ(،)
ان چھوٹے چھوٹے جملوں کے درمیان اس کا استعمال ہوتا ہے جن سے مل کر ایک بڑا جملہ بنتا ہے اورایک بات مکمل ہوجاتی ہے۔ جیسے:-
استاذ محترم آئے، درس گاہ میں داخل ہوئے، کرسی پر بیٹھے اور سبق پڑھایا۔
مختلف اسما کو جوڑنے کے لیے بطور حرف عطف کے بھی استعمال ہوتا ہے، خواہ وہ معطوف معطوف علیہ ہوں۔ جیسے:-
حضرت ابوبکر صدیق، حضرت عمر، حضرت عثمان اور حضرت علی ایک ہی شمع کے چار پروانے تھے۔
یا اسم مصدر ہوں۔ جیسے:-
لڑنا، جھگڑنا اور گالی دینا بری بات ہے۔
یا ایک موصوف کی کئی صفتیں ہیں، تو متعدد صفات کے درمیان اس علامت کو لائیں گے۔ جیسے:
عادل ذہین، محنتی، با ادب اور خوش خلق طالب علم ہے۔
اسی طرح کئی منادیٰ ہوں، تو ان کے درمیان میں بھی اسے لایا جاتا ہے۔ جیسے:-
میرے بھائیو!، بزرگو! اور دوستو!
ایسے ہی شرط وجزا اور صلہ وموصول کے درمیان اس کا استعمال ہوتا ہے۔ جیسے:-
جب حق آیا، تو باطل خود بخود چھٹ گیا۔ انسان وہ ہے ، جس کے اندر انسانیت ہو۔
اسی طرح اسے مستثنیٰ مستثنیٰ منہ کے درمیان بھی لایا جاتا ہے۔ جیسے:-
آج کا دور، ترقیاتی دور کہلاتا ہے، لیکن سکون مفقود ہے۔ انگریز ہندوستان سے تو گئے، مگر دو ٹکڑے کرکے۔
درس گاہ پابندی سے آؤ، پر موبائل نہ لاؤ۔
مبتدا اور خبر کے درمیان میں جب موصوف اور صفت کا اشتباہ ہونے لگے، تو اس وقت سکتہ کا لانا ضروری ہے۔مثلاً: اردو زبان میں سیرت کی سب سے شاہ کار کتاب، سیرت النبی ﷺ ہے۔
ہندوستان کے اسلامی مصنّفین میں ایک نمایاں نام، مولانا مناظراحسن گیلانی کا بھی ہے۔
وقفہ(؛)
اس کا استعمال جملوں کے بڑے بڑے اجزا کے درمیان ہوتا ہے، جہاں سکتہ کے (،) بالمقابل زیادہ ٹھہراؤ کی گنجائش ہو۔جیسے:
”سرخیاں بنانے کے طریقے؛ سرخیوں کی قسموں؛ ان کے لیے مطلوبہ صلاحیتوں؛ اخبار کی زینت کاری وغیرہ کے مسائل کو اس طرح بیان کیا ہے کہ قاری کو کسی خشکی کا احساس نہیں ہوتا۔“
اسی طرح جملوں میں ”ورنہ“، ”اس لیے“، ”لہٰذا“، ”اگرچہ“، ”لیکن“ وغیرہ جیسے ربط دینے والے الفاظ سے پہلے وقفہ کی علامت ہوگی۔ جیسے:
مشک کی تعریف کرنا خود اپنی قیمت کو بڑھانا ہے؛ ورنہ مشک تعریف وتوصیف سے اعلیٰ اور کہیں برتر وبالا ہوتا ہے۔
مستقل مزاجی سے تھوڑا کام بھی بہتر ہے اس کام سے جو مستقل مزاجی سے نہ ہو؛ اس لیے کسی بھی فن میں کمال پیدا کرنے کے لیے استقلال ضروری ہے۔
ادب و احترام، پابندی وقت انسان کو آگے بڑھانے والی چیزیں ہیں؛ لہٰذا: ادب کے ساتھ وقت کی انمول دولت کی حفاظت کرو!
محنت اور جدوجہد کو نہ چھوڑو؛ اگرچہ بھوک کی تکلیف برداشت کرنا پڑے اور رات کی نیند قربان کرنا پڑے۔
دنیا روشن پیدا کی گئی ہے؛ لیکن یہی روشنی کبھی تاریکی میں بھی تبدیل ہوجاتی ہے۔
رابطہ (:)
مقولہ یا کہاوت وغیرہ کو بیان کرنے کے لیے اسے استعمال کیاجاتا ہے۔ جیسے:
علامہ اقبال نے کہا:
”دیوبندی نہ فرقہ ہے نہ مذہب، ہر معقول پسند، دین دارآدمی کا نام دیوبندی ہے“۔
سچ ہے:
”وقت ایک ان مول سرمایہ ہے“۔
کہتے ہیں:
”زبان شیریں ملک گیری“۔
تفصلیہ (:-)
کسی لمبے اقتباس یا کسی فہرست کو پیش کرتے وقت اس کا استعمال ہوتا ہے۔ اس کا استعمال اب متروک سا ہوگیا ہے ؛ لیکن پرانی تحریروں میں اس کا استعمال کثرت سے دیکھنے کو ملتا ہے۔ جیسے:
ہمارے ملک میں مختلف مذاہب کے ماننے والے رہتے ہیں:- مسلمان، ہندو، سکھ اور عیسائی وغیرہ۔
اسی طرح جملوں میں ”خلاصہ کلام یہ ہے“، ”مختصر کلام یہ ہے“، ”غرض کہ“ کی جگہ بھی یہ کام آتا ہے۔ جیسے: ہندوستان میں مسلمان آئے، یہاں کی زمین ہموار کی، خونِ جگر سے اسے سینچا، بے شمار خوب صورت عمارتیں تعمیرکرائیں:- آج بھی بڑے بڑے فن کار محوِحیرت ہیں۔ ایسے ہی ”مثلاً“ یا ”جیسے“ کی جگہ بھی اس کا استعمال ہوتا ہے۔ جیسے:
صرف علم ہی کار آمد نہیں ہے:- ابلیس ہی کو لے لیجیے! ختمہ (۔/․)
اس علامت کو وقف تام بھی کہا جاتاہے۔ اس کا استعمال بات یا جملہ کے مکمل ہوجانے پر کیا جاتا ہے۔ جیسے:
مذہبِ اسلام امن عالم کا عَلَم بردار ہے۔ ہندستان گنگا جمنی تہذیب کا عظیم گہوارہ ہے۔
نوٹ: (۔)
یہ علامت عام طور پر اردو زبان میں مستعمل ہے؛ لیکن عربی و انگریزی زبان میں (․) اس علامت کو استعمال کیا جاتا ہے۔
واوین (” “)
کسی مضمون میں موضوع کی مناسبت سے بعینہ کسی مصنف و ادیب کے قول یا کسی کتاب کے اقتباس کو نقل کرتے وقت اس کا استعمال ہوتا ہے۔ جیسے:
”شورش لکھتے ہیں:
ایک نورانی جزیرہ ہے، جس میں فضیلتوں کے آبشار بہ رہے ہیں، احد سونے کا پہاڑ ہے، اس کے دامن میں شہدا کی جھیل ہے، اس جھیل میں چاندی کا پانی بہ رہا ہے اور سونے کی موجیں اچھل رہی ہیں۔“
ٹیپو سلطان فرماتے ہیں:
”گیدڑ کی سوسالہ زندگی سے شیر کی ایک دن کی زندگی بہتر ہے۔“
اسی طرح جملوں کے درمیان میں، اہمیت کے پیش نظر، کسی خاص نام و مقام کو بھی واوین میں لکھاجاتا ہے۔ جیسے:
”عصری علوم سے مسلمانوں کو آراستہ کرنے میں ”سرسید احمد خاں“ کا اہم کردار رہا ہے، جو ”علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی“ کی شکل میں آج ”ہندستان“ میں قائم ہے“۔
فجائیہ وندائیہ (!)
کسی خاص کیفیت اور جذبے کے اظہار کے وقت یہ علامت لگائی جاتی ہے۔ جیسے:
حیرت، خوف، غصہ اور حقارت وغیرہ کے وقت اس کا استعمال ہوتا ہے، ایسے ہی جذبے کی شدت میں کمی و بیشی کے اعتبار سے ایک سے زیادہ علامتوں کا استعمال بھی ہوتا ہے۔جیسے:
سبحان اللہ!
بہت خوب!
معاذ اللہ!
اللہ پناہ!
خبرلیتاہوں!
بس کرو!
رہنے دو!!
فرقہ واریت اور ملک کی ترقی!!! محال ہے.
ندائیہ:(!)
خطاب کے وقت اسی علامت کو ندائیہ کہا جاتاہے۔ جیسے: بچو! محنت، مشقت، ادب اور وقت کی قدر تمھیں ستاروں سے آگے پہنچاسکتی ہے۔
سہیلیو! آنکھیں ترسیں گی ساری عمر ساتھ کی جھولا جھولنے والیوں کو، دل ڈھونڈے گا زندگی بھر پاس بیٹھ بیٹھ کر اور لیٹ لیٹ کر کہانی سننے والیوں کو!۔
سوالیہ (؟/?)
کچھ پوچھنے یا دریافت کرنے کے وقت اس علامت کا استعمال ہوتا ہے۔
نوٹ:
داہنی طرف سے لکھی جانے والی زبانوں میں اس کی علامت اس طرح (؟) ہوگی۔ جیسے:
عربی، فارسی اور اردو وغیرہ.
اور بائیں طرف سے لکھی جانے والی زبانوں میں اس طرح (?) مثلاً:
آپ کا نام کیا ہے؟
تقریر میں عطاء اللہ شاہ بخاری اور تحریر عبدالماجد دریا آبادی بننا چاہتے ہیں؟
عقابی روح آپ کے اندر بے دار ہے؟
کبھی آپ نے سوچا؟ کہ آپ کی منزل آسمانوں میں ہے؟۔
خط ()
جملہ معترضہ کے لیے اسے کام میں لایا جاتا ہے ۔جیسے:
جگن ناتھ آزاد اور فراق گورکھپوری کا کہنا ہے- اگرچہ ان کی اپنی رائے ہے کہ علامہ اقبال شاعر اسلام نہیں؛ بل کہ شاعر اعظم تھے۔
قوسین (( ))
اس کا کام بھی تقریباً وہی ہے، جو خط کا ہے؛ ہاں کسی غیرمانوس لفظ کی وضاحت کے لیے عام طور پر قوسین ہی کااستعمال ہوتا ہے۔ جیسے:
وہ ”انار“ (دارالعلوم دیوبند) استعماریت سے آزادی کی جنگ کا اعلان بھی تھا اور اپنے قومی مذہبی، تہذیبی تشخص کی بقا کی جدوجہد کا آغاز بھی۔
عبدالرحمان (صدر سجاد لائبریری دارالعلوم دیوبند) ذہین وفطین، محنتی اورانتہائی فعال شخص ہے.
نقطے (․․․․․)
کسی محذوف عبارت کی جگہ اس کا استعمال ہوتا ہے؛ یعنی کسی لمبی عبارت کو نقل کرتے وقت، اختصار کے پیش نظر عبارت کا کچھ حصہ نقل کرتے ہیں اور بقیہ عبارت کی جگہ ان نقطوں کا استعمال کرتے ہیں. عام طور پر قلتِ جگہ یا قلتِ وقت کی بنا پر ایسا کیا جاتا ہے۔ جیسے:
اردو شعراء کے مشہور تذکرہ نویس ”محمدحسین آزاد“ نے ”ولی دکنی“ کو شعراء کا ”باوا آدم“ کہا ہے اور ․․․․․
اسی طرح جب کسی شعر وغیرہ کو مضمون کی سرخی بنانا ہو اور مقصد صرف آدھے مصرع ہی سے پورا ہورہا ہو، تو بھی نقطے کا استعمال کرتے ہیں. ہاں اگر مصرع کے جزو اول کو لینا ہے، تو جزو آخر کی جگہ نقطے لگائیں گے اور جزو آخر کو لینا ہو، تو جزواوّل کی جگہ اس کا استعمال ہوگا۔ جیسے:
ع- ․․․․․․لوح وقلم تیرے ہیں۔
ع- من اپنا پرانا پاپی ہے․․․․․․
چند علامات اور جن کاتحریروں میں کثرت سے استعمال ہے۔
(۱) ؎ علامت شعر وہندسہ (۲) ع علامت مصر
(۳) ؔ تخلص (۴) ۔ علامت ہندسہ.
(۵) // علامت ایضاً (بھی)
(۶) ۱۲ بات ختم ہونے کی علامت
(۷) / تاریخ یااعداد شمار کے اختتام پر
(۸) ص، ص صفحہ کا مخفف
(۹) ج جلد کا مخفف (۱۰) ق م قبل مسیح کا مخفف
(۱۱) م متوفی کا مخفف
(۱۲) ف فوت کا مخفف
(۱۳) ر (وفات) رخصت کا مخفف
(۱۴) پ پیدائش کا مخفف
(۱۵) ء عیسوی کا مخفف
(۱۶) ھ ہجری کا مخفف
(۱۷) الخ الیٰ آخرہ کا مخفف
(۱۸) اہ انتہی کا مخفف
(۱۹) وصلعم صلی اللہ علیہ وسلم کا مخفف (۲۰) عل علیہ السلام کا مخفف
(۲۱) رضی اللہ عنہ کا مخفف
(۲۲) رحمة اللہ علیہ کا مخفف
(۲۳) ج/ص جلد و صفحہ کا مخفف
رموز اوقاف کے متعلق یہ چند باتیں تھیں جو سپرد قلم کردی گئیں، اس سے پہلے بھی اس سلسلے کی بے شمار تحریریں آئی ہیں اورآئندہ بھی آتی رہیں گی؛ لیکن مقصداتنا ہے کہ ہم اپنی تحریروں میں ان کا لحاظ کرنے لگیں۔ تحریر کے لیے جہاں تحسین خط اور صفائی ستھرائی ضروری ہے، وہاں رموز اوقاف کی پابندی بھی انتہائی ناگزیر ہے؛ ایک قلم کار کی تحریر اپنی معنویت کے ساتھ ساتھ ظاہری خوبیوں سے بھی معمور ہو، تو پڑھنے والے کا ذہن و دماغ فطری طورپر متاثر ہوتا ہے اور وہ مصنف کی بات کو لیتا ہے، اس کے پیغام سے ملنے والے لعل وجواہر سے اپنا دامن دل بھرتا ہے؛ گویا لکھنے والا جس مقصد کے پیش نظر کچھ لکھتا ہے اس میں اسے بھرپور کامیابی ملتی ہے اور ایک قلم کے شہسوار کے لیے اس سے بڑھ کرکوئی فتح نہیں ہوسکتی۔
————————
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ 1، جلد: 92 ، محرم الحرام 1429 ہجری مطابق جنوری 2008ء
“