"شہید چرن جیت: غنچہ ہائے تشنہ از گلزار می ترسد"
ہمار گھرانہ جدی پشتی سنی العقیدہ ہے۔ اسی کی دہائی میں والدین کراچی کے علاقے ناظم آباد منتقل ہوئے۔ محلہ عثمانیہ سوسائٹی میں ہم نے آنکھ کھولی، دودھ کے دانت توڑے اور یہیں عقل داڑھ نکلی۔ عثمانیہ سوسائٹی رضویہ سائٹی کے شانہ بشانہ ہے۔ رضویہ سوسائٹی میں شیعہ ہم وطن آباد ہیں۔ میں نے ہندوستان کا شہر امروہہ نہیں دیکھا۔ مگر مجھے لگتا ہے میں نے امروہہ دیکھا ہے۔ امروہہ سے ہجرت کرکے آنے والے اہل علم کا ایک نفیس قافلہ یہیں اترا تھا۔ شائستہ زبان، شستہ پوشاک، مناسب خوراک، دھیمی بولیاں، ستھری گلیاں، قلم اور کتاب، ادب آداب اور آپ جناب اس محلے کی پہچان تھی۔
شیعہ ہمجولیوں کے سنگ ایسے پروان چڑھے کہ خبر ہی نہ ہوسکی شیعہ کافر ہوتے ہیں۔ جس درس گاہ سے تعلیم پارہے ہیں اس کا نام امام حسن عسکری۔ جس شفا خانے سے دوا کرتے ہیں اس کا نام امام زین العابدین۔ جس دکان سے آب و دانہ لیتے ہیں اس کانام معصومین۔ جس گلی میں کرکٹ کھیلتے ہیں اس کانام خیابان رئیس امروہوی۔ تھک ہارکے جس سبیل سے پانی پیتے ہیں اس کام نام سبیلِ غدیر۔ یہ سب نام و نسب اس طرح دل میں اترگئے کہ اہل تشیع کی اقدار وریات ، رسوم و رواج اور ان کے پیشواؤں سے نفرت کرنے کا ٹھیک سے موقع ہی نہ مل سکا۔
رضویہ سوسائٹی میں عاشورہ کا موقع آئے یا چہلم کا، روایت یہ رہی کہ سنی انتظامات سنبھالیں گے اور شیعہ اپنے مذہبی فرائض و واجبات ادا کریں گے۔ سیکیورٹی کے انتظامات کیسے ہوں گے، ذاکر اور نوحہ خواں کیسے پہنچیں گے، سبیلیں کون سجائے گا، رستے گلیاں کون صاف کرے گا، امام بارگاہ کے دروازوں پہ کس کی آنکھ نگاہ رکھے گی، نذر ونیاز کے لیے گھروں سے سبیل کون اکٹھی کریں گے، عزاداروں کو حصار میں کون رکھے گا یہ سب سنیوں کا درد سر ہے۔ محرم کے آنے سے پہلے نوجوان کشاں کشاں چلے آتے تھے کہ کچھ ذمہ داری ہمیں بھی سونپیے۔ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ ذمہ داری سونپتے ہوئے کسی کی نیت پر کسی کو شک گزرا ہو۔ یہ بات بدیہی تھی کہ یہاں کوئی بندہ بشر ایسا نہیں ہے جس سے امام بارگاہ کو سبیلوں کو یا عزاداروں کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔
وقت آیا کہ اس ملک کو زاہدوں کی نظر لگ گئی۔ شرح خواندگی بڑھنے لگی اورلوگ یہ جاننے لگے کہ شیعوں کے عقائد میں کافی مسائل ہیں۔ ان کے ساتھ میل جول رکھنے سے ایمان پر فرق پڑتا ہے۔ ان کا پکا ہوا کھانا معدے میں جہنم کی آگ بھرنا ہے۔ آپ کا عقد کسی شیعہ سے ہوا ہے تو سمجھیے آپ کا نکاح ہوا نہیں۔ جو بچے پیدا ہوئے ہیں ان پر افسوس کیا جانا چاہیے۔ علم میں اضافہ ہوتا گیا تو پتہ چلا کہ شیعہ کافر ہوتے ہیں۔ جس کا علم چار ماشے سے آٹھ پہ پہنچ گیا ہے وہ اس حقیقت کو جان گیا ہے کہ شیعہ محض کافر ہی نہیں ہوتا بلکہ کائنات کا بدترین کافرہوتا ہے۔ آخری تجزیے میں یہ بات کھلی کہ کچھ لوگ شیعوں سے بھی بڑھ کر کافر ہوتےہیں۔ اور یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جنہیں اس بات پر کامل یقین نہیں ہوتا کہ شیعہ کافر ہوتے ہیں۔
بات جو برتن الگ ہونے تک تھی، سرتن سے الگ ہونے تک جاپہنچی ۔ ملک میں قتل وغارت گری کا ایک سلسلہ شروع ہوگیا۔ امام بارگاہیں دھماکوں سے گونج اٹھیں۔ عاشورہ کے جلوس خون خون ہوگئے۔ چہلم میں جانے والے واپس نہیں لوٹے۔ سبیلیں الٹ دی گئیں اور نوحہ خوانوں کے لب سی کر دیواروں میں چن دیا گیا۔ کراچی شہر کیسے بچ سکتا تھا۔ جھنگ میں جس فتنے کی بنیاد رکھی گئی اس کا مرکز کراچی ویسے تو نہیں ٹھہرا۔ پاکستان کے تشیع کے لیے مدینۃ العلم بھی تو یہی شہر تھا۔ اس شہر میں جو امام بارگاہیں دھواں ہوئیں وہ رکھیے ایک طرف۔ چن چن کے اس شہر میں وہ وکلا قتل کیے گئے جو عقیدے سے شیعہ تھے۔ پھر ایک دور وہ چلا کہ جس ڈاکٹر کا علم ہو کہ وہ شیعہ ہے اس کی گردن ناپ لو۔ گلستان جوہر میں ایک سنی داکٹر اس لیے شیعوں کے حساب میں قتل ہوگئے کہ ان کے نام کے ساتھ جعفری کا لاحقہ لگاہوا تھا۔
دیکھتے دیکھتے ہمارے محلے کے حالات بدل گئے۔ رضویہ میں داخل ہوتے ہیں تو کونے کا پہلا گھر ایک شیعہ عالم دین کا تھا۔ ان کا دروازہ صبح آٹھ بجے سے شام نو بجے تک کھلا رہتا تھا۔ عالم دین اندر ایک چبوترے پر کتاب لیے بیٹھے نظر آتے تھے۔ ہر آتا جاتا انہیں سلام کرتا وہ مسکرا کر سر ہلاتے۔ روایت یہ تھی کہ کوئی بھی راہ چلتا ان کے دروازے میں داخل ہوجائے، بیٹھ جائے، دوچار باتیں کرے، چائے پیے، جی چاہے تو لوٹ جائے، جی چاہےتو بیٹھا رہے، جی میں آئے تو اندر جا کر ان کے کتب خانے میں سجے علم سے کلام کرے۔ کون جانتا ہے کہ اس شہر میں یہ قیامت بھی گزری کہ ایک دن علم واخلاق کا یہ دروازہ بند ہوگیا۔ دروازہ ہی کیا بند ہونا صاحب اس گھر کی تو دیوار پربھی خاردار تاریں بچھادی گئیں۔ محلے کے داخلی راستوں پر رکاوٹیں نصب ہوگئیں۔ سبیلِ غدیر پر پڑے آبخوروں کو زنگ لگ گیا اور نلکے خشک ہوگئے۔ امام حسن عسکری اسکول میں سنی طلبا کی تعداد کم ہوگئی۔ جو طلبا آرہے ہیں انتظامیہ ان کی خوب جانچ پڑتال پر مجبور ہوگئی۔ امام زین العابدین ہسپتال کے دروازے پر نصب آنکھوں میں خوف سے جنم لینے والی اجنبیت اتر آئی۔ عاشورہ پر سنی رضا کار اب نہیں آتے۔ آبھی جائیں تو عزاداراب ان پر بھروسہ نہیں کرتے۔ کیوں جائے کوئی سنی؟ انہیں اپنی جان عزیز ہے۔ کیوں بھروسہ کریں شیعہ؟ انہیں بھی اپنی جان عزیز ہے۔
کل پشاور میں سردار چرنجیت سنگھ ہم سے چھین لیے گئے۔ محبت، خدمت، قربانی اور عجز و انکسار کا چلتا پھرتا نمونہ۔ کیسے کوئی ان پر گولی چلاسکتا ہے؟ کل جب میں سرب دیال کے ہمراہ محلہ جوگن شاہ میں واقع گردوارہ بھائی جوگا سنگھ پہنچا تو ایک بچی دامن سے چمٹ گئی۔ انکل! میرے بابا کو واپس لاؤ نا پلیز! سرب دیال نے کہا یہ چرنجیت کی بیٹی ہے۔ میں نے جھک کر اس کے سر پر ہاتھ رکھا تو بولی، انکل قسم سے میرے بابا نے کبھی کسی کو کچھ نہیں بولا۔ اس بچی کے آگے ہم شرمندہ تھے۔ ایک پاکستانی ہونے کے ناطے اور اس گروہ سے تعلق کے ناطے جس کو اکثریت کا زعم ہے۔ میں سردار چرنجیت کے قدموں میں کھڑا تھا اور بچی میرے قدموں میں۔ اس قیامت کا سامنا آپ کب تک کرسکتے ہیں۔ میں گردوارے کے دروازے میں آکر بیٹھ گیا۔
یہاں ایک پولیس اہلکار بیٹھا ہے جو خود سکھ ہے۔ وہ بے تکان سردار چرنجیت کی خوبیاں بتائے جارہا ہے اور میں سر ہلائے جارہا ہوں۔ پولیس اہلکار کیا کہہ رہا ہے میں نہیں سن پارہا۔ دماغ کے ہر خانے میں صرف ایک گونج ہے ”انکل میرے بابا کو واپس لاؤ نا پلیز“۔ سامنے ایک سوزوکی آئی جس سے تین دیگیں اتاری گئیں۔ سکھ پولیس اہلکار نے مجھ سے پوچھا، بتاؤ یہ دیگیں کیوں آئی ہوں گیں؟ ظاہر ہے تعزیت کے لیے آئے ہوئے مہمانوں کے لیے آئی ہیں، میں نے کہا۔ مجھے پتہ تھا آپ کو یہی لگا ہوگا اسی لیے پوچھا، اہلکار نے کہا۔ میں نے استفسارانہ پوچھا، پھر کیوں آئی ہیں؟ کہا، سردار چرنجیت روزانہ یہاں غریبوں کو افطار کرواتے ہیں یہ اسی سلسلے میں کھانا آیا ہے۔
گردوارے کے دروازے پہ بیٹھے بیٹھے ایک تلخ ترین منظر نے میری توجہ کھینچ لی۔ اس منظر کے بیان کے لیے اتنا کافی تھا کہ گردوارے کی حفاظت پر ایک سکھ پولیس اہلکار مامور ہے، مگر یہ منظر اور بھی نمایاں ہوگیا کہ جب مزید تین سکھ اہلکاروں کو وہاں حفاظتی انتظامات سنبھالتے دیکھا۔ یہ منظر مجھے پہلے ہنددوستان کی ریاست اترکھنڈ لے گیا جہاں مندر کی حفاظت پر ایک سکھ پولیس اہلکار تعینات ہے اور وہ ایک مسلمان کی جان بچارہا ہے۔ پھر یہ منظر مجھے کراچی میں اپنے محلے رضویہ سوسائٹی لے گیا جہاں مسلمانوں کا ایک فرقہ اپنی حفاظت کے لیے اب دوسرے فرقے پر بھروسہ نہیں کرتا۔ میں واپس گردوارہ بھائی جوگا سنگھ کے دروازے پہ جمے ہوئے اس منظر میں آگیا۔ یہ کیا منظر ہے کہ جو گردوارہ غریب مسلمانوں کو روزہ افطار کروارہا ہے، وہ گردوارہ اپنی حفاظت کے لیے مسلمانوں پر بھروسہ نہیں کرسکتا۔ وائے دنیا کہ یار از یار می ترسد، غنچہ ہائے تشنہ از گلزار می ترسد۔ افتخار عارف نے کہا تھا، جس کا وارث ہوں اب اسی خاک سے خوف آتا ہے۔۔۔!
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“