اے رب تو مصنف اور میں کردار اس کہانی کا جو ’زندگی‘ کے عنوان سے تُو نے رقم کی۔ اے رب تو میرا کردار لکھتا ہے اور پھر رفتہ رفتہ میں اس کہانی کو جینے لگتا ہوں۔ اس کہانی کا لازمی جزو بن جاتا ہوں اور جب میں اس کہانی سے، اس کے کرداروں سے محبت کرنے لگتا ہوں تو اچانک کہانی اختتام پزیر ہو جاتی ہے۔ میرا کردار ختم ہو جاتا ہے اور یوں میری کہانی ساقی کے دھندلکوں میں کھونے لگتی ہے۔ زمانے کی گرد اس کو آلودہ کر دیتی ہے، یہاں تک کہ یہ مٹی کی ڈھیر تلے دب جاتی ہے نئی کہانیاں رقم ہونے لگتی ہیں۔ نئی کہانیاں افق پر مرتب ہونے لگتی ہیں۔ نئے کردار ابھرتے ہیں عروج کی نئی داستانیں رقم ہونے لگتی ہیں۔ پھر کوئی کردار ڈھیروں تلے دبی ’’میری کہانی‘‘ کو ڈھونڈھتا ہے۔ اس پر سے زمانے کی گرد کو صاف کرتا ہے اور ’’میری کہانی‘‘ سے یہ باور کرانے کی کوشش کرتا ہے کہ کبھی یہ کردار سانس رکھتا تھا۔ کبھی عروج اس کردار کو بھی چھو کر گزرا تھا۔ لیکن اس حقیقت کا ادراک کہ کبھی یہ کردار بھی ’’کہانی‘‘ کا حصہ بنا تھا ہر نئے کردار کے لیے ناممکن سا ہو جاتا ہے۔
لیکن اے میرے رب! میری بے بسی تو دیکھ یہ جاننے کے باوجود کہ میں نے ماضی کا حصہ بننا ہے میری کہانی کو بھی اختتام کو پہنچنا ہے، زمانے کی گرد نے میرے وجود کو بھی ڈھانپنا ہے اس کو مٹی کر دینا ہے۔ میں پھر بھی اس کہانی کو حقیقت جان بیٹھا ہوں ادراک رکھنے کے باوجود کہ یہ کہانی محض سراب ہے میں پھر وجود رکھنے لگتا ہوں۔
میں کتنا نادان، بے سایا، بے وقوف ہوں کہ بھول جاتا ہوں—- کردار صدا نہیں جیتے—– کہانیاں لازوال نہیں ہوتیں—– مصنف صدا ایک ہی کہانی رقم نہیں کرتا—– عروج کو زوال آتا ہے——- مٹی کو مٹی سے ملنا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ اور ہر کہانی کے آخر میں ’’ختم شد‘‘ آتا ہے۔۔۔۔۔
“