سونا۔۔شعور۔۔اور جمہوریت
آج سے کوئ پچیس تیس سال پرانی بات ھے کلرکہار اسلام آباد کے جنگلات میں ایک چرواھے کو جانور چراتے ھوے کئی کلو وزنی ایک دھات کا بنا ھوا گول سا گلے میں پہننے والا ایک کڑا ملا، وہ اسے اٹھا کر گھر لے آیا، گھر لاکر اس نے اسے غور سے دیکھا تو اس پر کچھ لکھا ھوا تھا اور کشیدہ کاری بھی ھوئ تھی، جاھل آدمی کو اس کی لکھائ اور پھول بوٹیوں سے کیا لینا دینا، اس نے اسے صاف کیا اور کرچائ کے دوران وہ چمکنے لگا اور پھر گھر کے کسی بڑے بزرگ نے دیکھا کہ دھات کی چمک بتا رھی ھے کہ یہ سونا ھے۔ جب سب کو یقین ھو گیا کہ یہ سونا ھے تو ان کی باچھیں کھل گئیں،کئی کلو وزنی سونا مطلب لاکھوں روپے ۔۔۔فیصلہ ھوا کہ اسے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کرکے سونار کے پاس بیچا جاے، لہذا ایسا ھی ھوا۔ پہلی دوسری بار تو سونار نے سونے کو اونے پونے خریدا اور جلد از جلد اسے پگھلا بھی ڈالا مگر جب تک وہ ایک چوتھائی اس کڑے کو پگھلا چکا تو بات کسی ناں کسی طرح بات لیک ھو گئی اور بات پولیس تک پہنچ گئی، پولیس نے چھاپا مارا وہ سونے کا ٹکڑا برآمد کر لیا، پولیس تو اسے عام چوری کا کیس سمجھ رھی تھی مگر جب بات اعلی حکام ٹکے پہنچی اور تاریخ دانوں اور آرکیالوجیسٹ تک پہنچی تو پتہ چلا کہ یہ سونے کا کڑا کسی بادشاہ کا ھے اور ھزاروں سال پرانا ھے۔ حکومت پاکستان نے باقی ماندہ کٹا پٹا وہ قیمتی کڑا اپنے قبضے میں لے لیا اور اس وقت وہ پاکستان اسلام آباد کے آرکیالوجیکل ڈیپارٹمنٹ کی ملکیت ھے اور یقینا" حکومت پاکستان نے اس کڑے کے سونے کی قیمت تو ان چرواھے کے خاندان کو دے دی ھوگی مگر اس انمول اور کروڑوں روپے مالیت کے قومی اثاثہ کو جو نقصان اس جاھل چرواھے کی جہالت اور بیوقوفی سے ھوا اس کی تلافی شاید اب کبھی بھی نہیں ھو سکے گی۔ کیونکہ اس کڑے کی اھمیت اس لئے نہیں ھے کہ وہ سونے کا ھے بلکہ اس لئے ھے کہ وہ ھزاروں سال قدیم اور اس سے وابستہ ایک تاریخ ھے جس کی کوئ قیمت تعین نہیں کی جاسکتی ھے۔ایک روایت کے مطابق یہ کڑا یونان کے بادشاہ سکندر اعظم کا ھے اور جب وہ انڈیا پر حملہ آور ھوا تھا تب یہ اس کے سامان سے گر گیا ھو گا۔( صاحب علم دوستوں سے گزارش ھے مذید اس کڑے سے متعلق معلومات پر روشنی ڈالیں)۔
تقریبا" سو سال ھوے ھندوستانی قوم کو ایک بہت ھی انمول اور سونے ھیرے جواہرات سے بھی ذیادہ قیمتی چیز ملی، یہ چیز بھی یونانیوں کی طرف سے ھی انسانیت کو تحفہ میں دی گئی تھی۔ آج سو سال گزر جانے کے باجود اس انمول تحفے کی ھم پاکستانیوں (اور کسی حد تک ھندوستان نے بھی) نے اس کی قدر نہیں کی ھے، اپنی جہالت اور خودغرضانہ فطرت کی وجہ سے ھم اس قیمتی شے کو کوڑیوں کے بھاو بیچ رھے ھیں، کبھی بریانی کی ایک پلیٹ پر۔۔۔تو کبھی 500 روپے پر۔۔۔ اور کبھی خوف و ڈر کی وجہ سے ۔۔۔۔۔تو کبھی مفت میں صرف ذات برادری اور مذھب اور مسلک کی وجہ سے۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اکثر دفعہ لسانیات بھی وجہ بنتی ھے۔ جی ھاں ھزاروں سال قدیم اور نایاب چیز کا نام ھے " جمہوریت ۔۔۔ایک فرد ایک ووٹ"۔ مگر اب تک ھم اس آزادی اور اپنے زندہ رھنے کے حق سے ناواقف ھیں صرف اور صرف اپنی جہالت کی وجہ سے، اور سونے سے بھی زیادہ قیمتی چیز کو ھم خود ھر چار سال بعد ان مفاد پرست ۔۔۔لالچی ۔۔۔۔کمین فطرت جاگیرداروں ۔۔۔سرمایہ داروں ۔۔۔گدی نشینوں اور جھوٹے مافیا کے ھاتھوں بیچ رھے ھیں۔ اس بیوقوف لڑکی کی طرح جو معمولی سے تحفے کے لالچ میں ایک مکار مرد کو اپنا سب کچھ دے کر خوش ھو جاتی۔
پاکستانی عوام پچھلے ستر سالوں سے لٹ رھے ھیں قصور ان چوروں ڈاکوؤں کا نہیں ھے بلکہ قصور وار وہ جہالت اور ِخودغرضی ھے جو ھماری فطرت کا حصہ بن چکی ھے۔
یہاں پر میں اپنا مضمون ادھورا چھوڑ رھا ھوں اور آپ سب دوستوں سے گزارش ھے اپنی آراء سے اسے مکمل کریں اور اس کا حل تلاش کرنے میں میری مدد فرمائیں کہ جمہوریت جیسی خوبصورت اور انمول چیز سے فیض کیسے حاصل کیا جاسکتا ھے کیونکہ جمہوریت کا مطلب ھے " عوام کی حکومت ۔۔عوام پر ۔۔عوام کے ذریعے " یہاں پر خواص کا کہیں ذکر نہیں ھے۔ اور عوام کے وسائل پر صرف عوام کا حق ھے ۔۔
اور یہ بات یونان کے مفکر اعظم نے اپنی کتاب جمہوریت میں ھزاروں سال پہلے کہی تھی۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“