اسلامی تاریخ کے الم ناک برسوں میں سے ایک زوال غرناطہ کا سال 1492 ہے ۔ساڑھے سات سو سال حکومت کرنے کے بعد، پورے اندلس میں صرف غرناطہ وہ شہر تھا جہاں مسلمانوں کی حکومت باقی بچی رہی تھی ۔شمال کی عیسائی ریاستیں رفتہ رفتہ جنوب میں، مسلمانوں کے ایک ایک علاقے پر قبضہ کرتی رہیں، سب سے پہلا شہر جو مسلمانوں کے ہاتھ سے نکلا وہ طلیطلہ Toledo تھا اور دو سو سال بعد جو آخری شہر مسلمانوں کے ہاتھ سے گیا وہ غرناطہ تھا ۔
اس کے بعد غرناطہ کے مسلمانوں پر جس طرح عرصہ حیات تنگ کیا گیا، وہ مسیحی تاریخ کا تاریک ترین باب ہے۔جب مسلمانوں نے اندلس فتح کیا تھا تو یہاں کی عیسائی اور یہودی ابادیوں کے ساتھ جو انتہائی روادارانہ برتاو کیا وہ مسلم تاریخ کا درخشاں باب ہے ۔جس پر سیک مسلمان آج بھی فخر کر سکتا ہے ۔
سقوط غرناطہ کے بعد عیسائ بادشاہ فرڈینینڈ اور اس کی بیوی ازابیلا نے ابتدا یہ کوشش کی کہ مسلمان خود ہی عیسائیت اختیار کر لیں ،لیکن جب مسلمانوں نے ترک مذہب کو رد کر دیا تو مختلف مواقع پر مختلف قوانین شہریت بنا کر مسلمانوں کو اسپین سے مٹا دیا گیا ۔
1499 میں پہلا شاہی فرمان یہ آیا کہ جو مسلمان، عیسائیت قبول نہیں کرتا اسے اسپین سے نکل جانا ہو گا ۔لہذا مسلمانوں کی جمعیت کی جمعیتیں شمالی افریقہ کی طرف ہجرت پر مجبور ہوئیں ۔۔۔یہ پر امن ہجرت نہیں تھی ۔۔۔طول طویل راستوں میں مہاجرین کے یہ قافلے لوٹ لئے جاتے ۔۔۔۔۔مزاحمت کی صورت میں قتل عام ہو جاتا ۔ جو لوگ لوٹ مار اور قتل و غارتگری سے بچ جاتے، وہ موسم کے شدائد،بھوک پیاس اور بیماریوں سے مر جاتے ۔
اسپین سے صرف مسلمانوں کو ہی بے دخل نہیں کیا گیا بلکہ یہ حکم یہودیوں کے لئے بھی تھا ۔یہودی چونکہ اندلس کے معاشرے کا سب سے متمول طبقہ تھے لہذا انہوں نے تجارتی کشتیوں پر اجتماعی نقل مکانی کی اور یورپی ممالک کی طرف چلے گئے ۔اس زمانے میں مشرقی یورپ کے بیشتر ممالک سلطنت عثمانیہ کے زیر تسلط تھے لہذا یہ مسلمان عثمانی خلیفہ کی اجازت سے ترکی اور مشرقی یورپ میں آباد ہو گئے ۔
1524 کے لگ بھگ غرناطہ میں "مذہبی تفتیشی عدالتیں "قائم کی گئیں ۔ ہجرت نہ کرنے والے مسلمانوں کو ان عدالتوں میں پیش کیا جاتا، اگر وہ جج کے سامنے عیسائیت قبول کر لیتے تو ان کے پورے خاندان کو بپتسمہ دے دیا جاتا دوسری صورت میں انہیں آگ کے الاو میں پھینک دیا جاتا ۔ان عدالتوں کے فیصلوں کے مطابق ایک دو نہیں ہزاروں مسلمانوں کو باب الرہلہ کے چوک پر اسی غرض سے بھڑکائے جانے والے الاو میں پھینک دیا جاتا اور وہ بھسم ہو جاتے ۔یہ واقعات مسلمان مورخین ہی نے نہیں بلکہ اسکاٹ اور گستاولیبان سمیت متعدد عیسائ مغربی مورخین نے بھی اپنی کتابوں میں درج کئے ہیں ۔
جب ہزاروں مسلمان جلا دئے اور قتل کر دیئے گئے تو حکومت خود پریشان ہو گئ کہ آخر کتنوں کو قتل کیا جائے تو انہوں نے مسلمانوں کو اجازت دے دی کہ وہ اپنے مذھب پر قائم رہ سکتے ہیں مگر انہیں مذہبی ٹیکس ادا کرناپڑے گا ۔سالانہ بنیادوں پر لگایا جانے والا یہ بہت بھاری ٹیکس تھا جسے طبقہ امرا ہی برداشت کر سکتا تھا ۔
وہ اسپینی مسلمان جنہوں نے ہجرت نہیں کی، مذہبی عدالتوں کے قتل عام سے بچنے کیلئے عیسائیت تو قبول کر لی لیکن در پردہ مسلمان ہی رہے ۔۔۔وہ گھر میں احمد،عبداللہ، محمد، عائشہ اور فاطمہ ہوتے تو گھر سے باہر ڈیوڈ، جون، مائیکل، میری اور مارگریٹ ہوتے ۔ گھر میں عربی بولتے باہر اسپینی، گھر میں نماز پڑھتے، اتوار کو چرچ کے ماس میں شرکت کرتے ۔اپنے بچوں کو گھر میں قرآن پڑھاتے جب یہ بچے اسکول جاتے تو ان کے گلے میں صلیب لٹکا دیتے ۔
پھر 1566 میں ایک اور قانون آ گیا کہ کوئی باشندہ عربی نہیں بول سکتا، نہ ہی عربی لباس پہن سکتا ہے، جو اس کا ارتکاب کرتا اس پر "فرضہ " یعنی ایک بھاری ٹیکس لگ جاتا ۔عورتوں کا پردہ تو پہلے ہی ممنوع تھا اب یہ حکم بھی ملا کہ جمعہ کے دن سارے مسلمان اپنے گھروں کے دروازے کھلے رکھیں گے ۔اصل میں مسلمان چوری چھپے جمعہ کی جماعت گھروں میں قائم کرنے لگے تھے، اس لئے یہ قانوں بن گیا ۔
عربی پر پابندی لگی تو ہر گھر کی تلاشی کے بعد ہزاروں عربی کتابیں جمع کر کے باب الرہلہ کے چوک میں سپرد آتش کر دی گئیں،یورپی مورخین کا اندازہ ہے کہ شاہ شیمنس کے حکم سے صرف غرناطہ میں سپرد آتش کی جانے والی عربی کتابوں کی تعداد اسی ہزار 80000 تھی۔ اس میں قرآن کے وہ نسخے بھی تھے جو مسلمان چھپا کر رکھتے اور اپنے بچوں کو پڑھاتے تھے ۔اس کے علاوہ تاریخ، ادب،فقہ،حدیث، تفسیر فلسفہ،کلام،طب،طبعیعات، فلکیات وغیرہ وغیرہ کی کتب، جو آٹھ سو سال میں مشرق و مغرب سے لا کر جمع کی گئ تھیں گھروں اور لائبریریوں سے نکال کر جلا دی گئیں ۔
1604 میں مسلمانوں کے حوالےسے آخری قانون شہریت یہ آیا کہ مسلمان سرزمین اندلس کو بالکل خالی کر دیں ۔ چنانچہ دو سال کے عرصے میں تقریبا پانچ لاکھ مسلمانوں نے اندلس کو خیر باد کہہ دیا، زیادہ تر افریقہ میں یا جہاں انہیں پناہ ملی ،چلے گئے ۔ان میں سے ایک تہائی لوگ راستے ہی میں یا قتل کر دیئے گے یا خود مر گئے ۔اور 1606 کے بعد اسپین میں ایک مسلمان بھی باقی نہ رہا ۔
“