یادوں کی ایک پٹاری توسب کے پاس ہوتی ہے لیکن ان یادوں کو سلیقے سے پیش کرنے کا ہنر کسی کسی کے پا س ہی ہوتا ہے۔ غازی علم الدین کی زیر نظر کتاب "میزان انتقاد و فکر “ یادوں کی ایسی ہی ایک دھنک رنگ پٹاری ہے جو انہوں نے ہمارے سامنے کھول کررکھ دی ہے۔ بائیس مضامین پر مشتمل اس کتاب میں وفیاتی شذرات بھی ہیں، شخصیات پر لکھے گئے مضامین بھی،کتابوں پر جائزے اورتبصرے بھی ہیں اور کالم بھی ۔اگر آپ مصنّف کی اس بات کے قائل ہیں کہ مطالعہ دھنک رنگ ہونا چاہیے تو یہ کتاب آپ کو خوشگوار آسودگی سے ہم کنار کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
جس طرح کسی بھی تاج میں جڑے موتیوں اور نگینوں میں سے ایک نگینے کی حیثیت بہرحال مرکزی ہوتی ہے ،اسی طرح ان مضامین میں مرکزی مضمون(میری رائے کی حد تک) ”آں قدح بشکست وآں ساقی نہ ماند‘" ہے ،یہ ڈاکٹر سلیم آغا قزلباش کی وفات کے حوالے سے لکھا گیا مضمون ہے جس میں مصنّف کی تخلیقی صلاحیت عروج پر ہے، آمد ہی آمد ہے !
زیر نظر کتاب شخصیات اور کتابوں کے گرد گھومتی ہے، کئی شخصیات اور کئی کتابوں کا تذکرہ آپ کویہاں ملے گا،اس میں ایک طرف ممدوح کی شخصیت کی پرتیں کھلتی ہیں تو دوسری طرف غیر شعوری طور پر مصنف خود اپنی شخصیت کی نقاب کشائی کررہا ہوتاہے۔حقیقت یہی ہے کہ جب کوئی تذکرہ نگار کسی شخصیت کے خاکے میں رنگ بھرنے میں مصروف ہوتاہے تو فی الواقع ،وہ اپنی ذات کو بے حجاب کرنے کے عمل سے بھی گزر رہا ہوتا ہے، لہذا ان تحریروں میں بین السطورـــــخود غازی صاحب کی نرم و دلکش شخصیت جھلکیاں لیتی ہے، ان کامطالعہ، ان کا ذوق، ان کے مزاج اوران کی فکر کی سلوٹیں کھلتی ہیں، یوں یہ کتاب صرف ظ- انصاری، مظہر محمود شیرانی، ڈاکٹر سلیم آغاقزلباش، ڈاکٹر صابر آفاقی اور گل بخشالوی کی شخصیت نگاری ہی نہیں کرتی بلکہ خود غازی علم الدین کا تعارف بھی بن جاتی ہے اورپھر اپنے ایک مصاحبے ”میری مطالعاتی سرگزشت“ میں توان کوپورے طورپر دیکھا جاسکتا ہے۔یہی نہیں بلکہ ان تحریروں میں کچھ سماجی تانے بانوں سے بھی پردہ اٹھتا ہے اورکچھ ادبی مسائل بھی زیر بحث آتے
غازی صاحب کا اپنا اسلوب ہے، جزئیات نگاری کمال کی کرتے ہیں، ایک ایک منظر کواس طرح بیان کرتے ہیں کہ آنکھوں میں تصویر کھنچ جاتی ہے، بلکہ فلم چلنے لگتی ہے وہ اپنی تحریروں میں ایک حقیقی منصف نظر آتے ہیں ۔بات صابر آفاقی کی کالم نویسی کی ہو یا ظ- انصاری کی علمی فتوحات کی ،شاہدہ لطیف کی مزاحتمی شاعری کا ذکر ہو یا مظہر محمود شیرانی کی تحقیقات کا، غازی صاحب نے سب کے ساتھ انصاف برتا ہے، تاہم لسانیاتی حوالے سے کہیں چُوکتے نہیں۔
یہ مثال بھونڈی سہی، مطلب براری کے لیے بُری نہیں،کہ جس طرح چور ہیرا پھیری سے نہیں جاتا ، اسی طرح غازی صاحب کتابوں پرا پنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے لسانی اغلاط سے چشم پوشی نہیں کر پاتے، لہذا”صفر نامہ“ کی تمام ترخوبیاں بیان کرنے کے بعد چند لسانیاتی اغلاط کی طرف بھی اشارہ کرتے ہیں، یہی ”سلوک“نسیم سحر کی ”محورِدوجہاں“ کے ساتھ کیا ہے، بہت کچھ کرنے کے ساتھ ساتھ بعض مقامات پر ”یت“ کی پخ کو مسترد کیا ہے جس پراپنے مظہر محمود شیرانی (مرحوم) بھی لعنت بھیج چکے ہیں۔
غازی صاحب کے مزاج میں مجھے یک گونہ رجائیت نظر آتی ہے، وہ کسی حال میں اُمید کے چراغ کو بجھنا تو دور کی بات ، ٹمٹانے کی اجازت بھی نہیں دیتے، وہ شاخِ اُمید کو ہر دم ہرابھرا رکھنے کے قائل ہیں، یوں وہ تھکے ماندے اہلِ قافلہ کے لیے کسی مینارۂ نور سے کم نہیں۔ ان کی تحریریں مسلک گزیدگی سے پاک، ادبی دھڑے بندیوں سے بے نیاز، معروضیت اور رجائیت کی آئینہ دار ہیں۔
اس سے قبل وہ متنوع موضوعات پر متعدد کتابیں تحریر کرچکے ہیں جن کی ادبی وعلمی حلقوں میں پذیرائی ہوئی، یہ کتاب بھی حسب سابق ان کی تصنیفی زندگی کااہم سنگ ِمیل ثابت ہوگی۔ ا س دعا کے ساتھ کہ وہ سوچنے اور لکھنے سے کبھی نہ تھکیں۔
ایں دعا ازمن و از جملہ جہاں آمین باد
“