فدک کا معاملہ یہ تھا کہ خیبر کے بعد آپ فدک کی طرف روانہ ہوئے، اہل فدک نے اہل خیبر کے انجام سے عبرت پکڑی اور اپنی نصف اراضی رسول اللہ کو دے کر صلح کر لی، یہ نصف فدک رسول اللہ کا خالصہ قرار پایا کیونکہ یہاں کوئی جنگ نہیں ہوئ تھی ۔ اصطلاحا یہ علاقہ فئے کہلاتا ہے ۔یعنی فئے وہ جائیداد ہے جو کسی جنگ کے بغیر مسلمانوں کو صلح کے ذریعے حاصل ہو۔ایسے اموال میں خمس نہیں ہوتا بلکہ یہ ان لوگوں کا حق ہے جن کی نشاندہی اللہ اور اس کے رسول نے کی ہے ۔
قرآن کریم میں فئے کی مدات سورہ حشر،آیت 7 میں بیان ہوئ ہیں ۔(ترجمہ:جو کچھ بھی اللہ ان بستیوں کے رہنے والوں سے اپنے رسول کی طرف پلٹا دے وہ اللہ اور رسول اور قرابتداروں، یتیموں، مسکینوں اور مسافروں کے لئے ہے تاکہ وہ تمھارے مالداروں کے درمیان ہی گردش نہ کرتا رہے ۔)۔
اس سے اگے آیت نمبر 8 اور 9 میں مزید مستحقین کا ذکر کیا گیا ہے جس میں فقرا مہاجرین اور انصار مدینہ کو بھی شامل کیا گیاہے ۔سورہ حشر کی ان آیات کی رو سے فئے کے مصارف کی مخصوص مدات 9 ہیں ۔
بلاذری اور دوسرے ارباب سیر کا بیان ہے کہ رسول اللہ فدک کی آمدنی مسافروں، مہمانوں اور وفود کی میزبانی پر خرچ کیا کرتے تھے ۔لہذا یہ رسول اللہ کی ذاتی حیثیت میں کوئی جاگیر نہیں تھی جس کا تقاضا حضرت عباس اور حضرت فاطمہ نے کیا، اور جس کو خلیفہ اول نے مسترد کر دیا ۔فدک کی آمدنی جن مدات میں عہد رسالت میں خرچ کی جاتی تھی، عہد صدیقی میں بھی بعینہ انہی مدات میں خرچ کی گئی ۔
جب حضرت عمر کا دور آیا اور رسول اللہ کے فرمان کے مطابق یہود کو حجاز سے بیدخل کیا گیا تو اہل فدک کی نصف اراضی جو ان کے قبضے میں تھی، ان زمینوں کی انہیں ادائیگی کر دی گئی اور وہ لوگ نقل مکانی کر کے شام چلے گئے ۔
حضرت عمر، حضرت عثمان اور حضرت علی کے زمانوں میں فدک کی یہی حیثیت رہی، یعنی یہ سرکاری تحویل میں رہا ۔ اور اس کی آمدنی اسلامی ریاست کے مصالح پر خرچ ہوتی رہی۔
حضرت امیر معاویہ اور یزید کے زمانے میں بھی صورت حال یہی رہی البتہ مروان بن حکم نے فدک کی آمدنی میں تصرف کیا ،اھل مدینہ کو محروم کر کے اسے اپنے مصارف میں خرچ کیا ۔یہ صورتحال عبدالملک بن مروان، ولید بن عبدالملک اور سلیمان بن عبدالملک کی خلافت میں جاری رہی البتہ حضرت عمر بن عبدالعزیز نے اسے پھر انہیں مصارف کےلئے مخصوص کر دیا جو عہد رسالت و خلافت راشدہ میں تھے ۔گویا 34 سال کے تعطل کے بعد فدک کی سابقہ حیثیت بحال ہو گئی ۔210ھج تک فدک مسلمانوں کا وقف(صدقہ)رہا ۔
210ھج میں عباسی خلیفہ مامون الرشید نے فدک حضرت حسین کی اولاد میں یہ کہہ کر لوٹا دیا کہ فدک رسول اللہ نے فاطمتہ الزہرا کو دیا تھا ۔حضرت حسین ابن علی کے خاندان کے دو افراد محمد بن یحیی اور محمد بن عبداللہ کو فدک کا نگران مقرر کیا ۔یہ صورتحال 22 سال رہی پھر جب متوکل علی اللہ خلیفہ ہوئے تو انہوں نے آل حسین سے لے کر اسے واپس مسلمانوں کا وقف بنا دیا ۔
یہاں ایک اور بات کی وضاحت کر دی جائے کہ حضرت عمر کے عہد میں حضرت عباس اور حضرت علی بنو نضیر کے خالصہ کی نگرانی کی تحویل کی درخواست لے کر آئے تھے ۔حضرت عمر نے ان دونوں حضرات کو خالصہ بنو نضیر کا نگران بنا دیا تھا ۔لیکن دو سال بعد ہی حضرت عباس، حضرت علی کی شکایت لے کر آئے ۔ ( صحیح بخاری، کتاب المغازی، باب قرض الخمس )
شیعی نقطہء نظر
فدک کے حوالےسے شیعی نقطہء نظر یہ ہے کہ فدک فئے نہیں بلکہ انفال تھا ۔مشہور شیعی محدث اور فقیہ ابو جعفر محمد بن یعقوب کلینی(م 328ھج ) نے اس حوالے سے "الکافی " میں لکھا ہے ۔
"اللہ تعالی نے یہ دنیا ساری کی ساری اپنے خلیفہ(نائب) کے لئے بنائی ہے سو یہ دنیا آدم علیہ السلام کو ملی ان کے بعد ان کے خلفا اور نیکو کار اولاد کو اس کی ملکیت منتقل ہوئی ۔سو جن چیزوں پر ان کے دشمن غالب اور قابض ہو گئے اور وہ انہیں جنگ یا غلبے کے ذریعہ لوٹا دی گئیں وہ فئے کہلائیں اور اس فئے کا حکم سورہ انفال کی 40ویں آیت کے مطابق یہ ہے کہ اس کا پانچواں حصہ(خمس) اللہ، رسول، رسول کے قرابتدار، یتامی، مساکین اور ابنا السبیل کے لئے ہے۔اور اموال دنیا میں سے جو ان(نیکو کار اولاد آدم اور خلفا ) کی طرف جنگ اور قتال کے بغیر لوٹا دیا جائے ۔یہ انفال ہے ۔یہ انفال اللہ اور رسول کے لئے مخصوص ہے اس میں کسی اور کا کوئی حصہ اور شرکت نہیں، کیونکہ شرکت ان اموال میں ہے جن کے لئے قتال کیا گیا ہو ۔یہ انفال اللہ اور رسول کے لئے خاص ہیں، فدک بھی رسول اللہ کے لئے مخصوص تھا کیونکہ اسے آپ نے اور علی علیہ السلام نے (بغیر جنگ کے )فتح کیا تھا اور ان دو کے علاوہ اس میں کوئی شریک نہیں تھا اس لیے اس سے "فئے "کا نام ساقط ہو کر "انفال "کا نام لازم ہو گیا ۔(یعنی یہ فئے کے بجائے انفال قرار پائے گا "(بحوالہ "الصدیق " از علی محسن صدیقی،
گویا مسلمان جس اراضی کو "فئے " قرار دے رہے ہیں، اسی اراضی کو شیعہ مجتھد "انفال " قرار دے کر خاص اللہ اور اس کے رسول کا حصہ قرار دے رہے ہیں ۔ یہ ہے اصل اختلاف ۔
شیعہ عالم ملا باقر مجلسی نے اپنی کتاب بحار الانوار کی آٹھویں جلد میں باب الفتن میں یہ لکھا ہے کہ فدک صرف رسول اللہ اور علی علیہ السلام نے(بغیر جنگ کے ) فتح کیا تھا، جو کہ حقیقت نفس الامری کے بالکل خلاف ہے ۔
بات طویل ہو گئ ہے لیکن ملا باقر مجلسی کا بیان لکھنا ضروری ہے:
مجلسی کہتے ہیں کہ" جبرئیل، رسول اللہ کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔آپ نے ہتھیار لگائے اور سواری پر زین کسی، حضرت علی نے بھی ہتھیار سجائے اور زین کسی پھر دونوں آدھی رات کو نامعلوم مقام کی طرف چل پڑے یہاں تک کہ دونوں فدک پہنچے اس وقت رسول اللہ نے حضرت علی سے کہا یا تم مجھے اٹھا کر چلو یا میں تمھیں اٹھا کر چلوں؟ حضرت علی نے عرض کی کہ میں آپ کو اٹھا کر چلوں گا ۔ فرمایا:نہیں میں تم کو اٹھا کر چلوں گا، پس آپ نے علی کو بازوں میں اٹھا لیا اور چلے یہاں تک کہ فدک کی شہر پناہ پر پہنچ گئے ۔علی قلعے میں داخل ہوئے اور اذان دی۔اسے سن کر اہل قلعہ گھبرا کر دروازے کے باہر نکل آئے ۔یہاں رسول اللہ ان لوگوں کے سامنے تھے،اسی اثناء میں علی بھی وہاں آ گئے، انہوں نے 18 سرداران فدک کو قتل کر کے باقیوں کو رسول اللہ کے حوالے کر دیا۔یوں فدک کی تسخیر میں رسول اللہ اور حضرت علی کے علاوہ کسی کو کوئی تکلیف نہیں اٹھانی پڑی۔اس لئے فدک آپ اور آپ کی ذریت کے لئے مخصوص ہو گیا اور مسلمانوں کا اس میں کوئی حصہ نہ رہا " (بحوالہ "الصدیق "از علی محسن صدیقی
المختصر فدک جسے مسلمان فئے قرار دیتے ہیں اسے شیعہ انفال قرار دیتے ہیں ۔یوں فدک کی حیثیت ہی بدل جاتی ہے کیونکہ فئے اور انفال کے احکامات مختلف ہیں ۔
“