پاکستان کے ممتاز نعت گو شاعر ، صحافی اور دانش ور محمّد رشید ہادی بھی یہ دھوپ بھری دنیا چھوڑ گئے۔۔ نعت گوئی کا وہ خورشید ِ جہاں تا ب جو 10/ دسمبر 1948ء کو حافظ علی محمّد کے گھر لائل پور ( فیصل آباد) پاکستان سے طلوع ہوا ،وہ 23/ جون 2006ء بروز جمعتہ المبارک کے دن غروب ہو گیا۔ اپنی رہائش گاہ کے کے نواح میں واقع پریمیئر ملز ملحقہ ایوب کالونی فیصل آباد کے شہر خموشاں کی زمین نے نعت گوئی کے اس آ سمان کو ہمیشہ کے لیے اپنے دامن میں چھپا لیا۔۔۔ان کے نماز جنازہ میں سینکڑوں عاشقان نعت اور عاشقان رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شرکت کی ۔۔۔مجھے جون 2006ء کی سخت تپتپاتی دھوپ میں لوگوں کا والہانہ و جوق در جوق ان کے جنازہ کو کندھا دینا ابھی تک یاد ہے ۔کہ لوگ کس طرح عقیدت سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ایک عاشق صادق کو کس شان سے رخصت کر رہے تھے ۔۔کسی نے سچ ہی کہا ہے کہ عاشق کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے ۔۔ رشید ہادی ایک درویش منش اور عجز و انکسار کا پیکر دانش ور جس نے اپنے اشہبِ قلم کی جولانیوں سے فیصل آباد کے آسمان ادب پر اپنی خوبصورت نعتوں کے بے بہا پھول مہکائے ، اب ہمارے درمیان نہیں رہا ۔ وطن ،اہل ِ وطن اور پوری انسانیت کے ساتھ ٹوٹ کر محبت کرنے والا مفکر ہماری بزم وفا سے کیا اُٹھا کہ بے ثبات کارِ جہاں سے ہمارا اعتماد ہی اُٹھ گیا ہے ۔۔
فیصل آباد کو شہر نعت کا شرف بھی رب کریم کی خاص عطا ہے ۔۔جہاں لفظوں کی کان کنی کرنے والے ہر شخص کی یہ خواہش رہی ہے کہ وہ بارگاہ کرم اور لطف و عنایت کے بازار رحمت میں اپنے لفظوں کو اپنی ہمت و استقامت کے ہاتھوں میں پرو کر اس بازار میں پہنچ تو جائے اور یہ اسی کا کرم ہے ۔۔اور اسی کا کرم ہے کہ جوں کا توں پہنچ ضرور جاتا ہے الحاج محمد رشید حدیث شہر نعت فیصل آباد کے ممتاز اور منفرد نعت گو شاعر ہیں ۔وہ ایک عرصہ سے شہر مداح رسول کے مکین ہیں۔ فصیح اللسان اختر سدیدی اور مداح رسول محمد علی ظہوری قصوری سے ان کا سالہا سال تک قریبی تعلق رہا ہے۔۔۔ دھواں اگلتی چمنیوں کے اس شہر فیصل آباد کو شہر نعت ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے ۔۔۔فیصل آباد میں بہت تواتر سے مسلسل نعتیں کہیں اور لکھی جا رہی ہیں۔۔ غلام رسول خلیق قریشی ،حافظ لدھیانوی، ڈاکٹر احسن زیدی سے لے کر ڈاکٹر ریاض مجید اور عارف رضا تک ، صائم چشتی سے لے کر حافظ محمد حسین حافظ اور اقبال شیدا سے ہو کر زیارت حسین جمیل تک ،منظر فارانی سے لے کر شفقت حسین شفقت ،اور نادر جاجوی سے لے کر حاتم بھٹی تک، عبدالستار نیازی سے لے کر صدف جالندھری تک ، ریاض احمد پرواز سے لے کر آصف بشیر چشتی تک ، اختر سدیدی سے لے کر محمد طاہر صدیقی تک ،احمد شہباز خاور سے لے کر ریاض احمد قادری تک، امیر نواز امیر سے لے کر افضل خاکسار تک ، بسمل شمسی سے لے کر نور محمّد نور کپور تھلوی تک ،قمر الزمان قمر قادری سے لے کر خان منیر احمد خاور تک، سبھی اپنے اپنے داماں میں نعتوں کے گجرے ، پھول اور ملائیں لیے بازار رحمت میں کشاں کشاں پھرتے نظر آتے ہیں ۔۔۔اسی قافلے میں ہمیں رشید ہادی بھی بڑی تمکنت سے اپنی نعتوں کے گجرے لیے نمایاں نظر آتے ہیں ۔۔۔۔" جمال مدینہ "ان کا پہلا نعتیہ مجموعہ 1984ء کو منصہ شہود پر آیا ۔۔پھر غمِ روزگار کے شکنجے میں وہ ایسا جکڑے کہ 2000ء تک چند نعتیں ہی کہہ سکے ۔۔چنانچہ ان کا دوسرا نعتیہ مجموعہ "بہار گنبد خضرا " 2000ء چھپ کر منظر عام پر آیا ۔۔۔۔رشید ہادی کا کہنا ہے کہ "میں نے اپنے سینے کے درد، اپنے دل کی دھڑکنیں اور اپنی آنکھوں کے آنسو سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ بے کس پناہ میں اشعار کی صورت میں پیش کیے ہیں اور اپنی صدائیں مکین گنبد خضرا تک پہنچانے کے لیے نعت پاک کا سہارا لیا ہے۔مجھے کسی بھی مقام پر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مایوس نہیں ہونے دیا ۔""
رشید ہادی کی عوامی نعت میں نعتیہ شاعری کا ہر رنگ اور ہر ذائقہ موجود ہیں لیکن ان کی نعت کا غالب رنگ حاضری و حضوری کی حسرتوں ،کیفیتوں اور مشاہدات پر مبنی ہے ،جو نعت کو ایک دلکش موضوع بناتا ہے ۔۔رشید ہادی کو بہت بار حرمین شریفین کی حاضری نصیب ہو چکی ہیں اور وہاں سے مدینہ منورہ کے حسن و جمال اور وارداتوں کو قلب و نظر میں بساتے رہے ہیں ۔شہر تجلیات میں نگاہ و دل ہی مرکز گنبد خضرا ہوتا ہے ۔۔جس کے خنک سائے میں جان کائنات جلوہ گر ہے ۔۔گنبد خضرا دنیا میں بہار کی سب سے بلیغ اور نمایاں علامت ہے ۔۔اور اس پر نگاہوں کا مرکز ہونا حضوری کیفیات کا حامل ہوتا ہے ۔۔یوں رشید ہادی پے در پے حاضریوں کی بدولت حضوری لذتوں سے بہرہ مند ہوتے رہے ہیں ۔۔اور اپنی حاضریوں اور حضوریوں کی کیفیات میں "بہار گنبد خضرا "کے ذریعے اپنے احباب اور قارئین کو بھی شامل کر رہے ہیں ۔۔اس مجموعہ کی بیشتر نعتیں حضوری کی تڑپ اور آرزؤ کو بھی ظاہر کرتی ہیں۔۔
نعت نبی کی لکھنا ، پڑھنا ، سننا عین عبادت ہے
یہی وسیلہ بخشش کا ہے اور یہ ایک سعادت ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رہ حیات میں مشکل کوئی جو آتی ہے
مدینے والے کی نسبت مجھے بچاتی ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کونین جسم ہو اگر تو جان آپ ہیں
افسانہء جہان کا عنوان آپ ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جو بھی قطرہ آ گیا دہلیز پر سرکار کی
آپ کے لطف و کرم نے اس کو پار کر دی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رشید ہادی کا کلی تشخص اور تعارف نعت ہی کے حوالے سے بنتا ہے ۔لگتا ہے کہ ان کے باطن میں بسنے والا ہادی فطری طور پر عقیدت آشنا اور عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم واقع ہوا ہے ۔جس نے انھیں ذوق کی غزل سے لذت اندوز نہیں ہونے دیا تھا اور ان کے دل و دماغ کو نور نعت سے مستنیر اور کیف نعت سے بہرہ مند رکھتا ہے ۔۔۔ ان کے دونوں نعتیہ مجموعہ "جمال مدینہ "اور "بہار گنبد خضرا " میں ان کے ہاں سوز عشق کی تپش بھی ہے اور کثیف عقیدت کی خنکی بھی ۔۔۔ان کی نعت درودی بھی ہے اور کیف حضوری بھی ۔۔۔۔۔۔۔۔ان کا اسلوب نگارش ، عقیدت کی شبنم سے دھلا ہوا ہے ۔۔وہ جدیدیت کے جنوں میں ایوان روایت کو منہدم کرنے کی کوشش نہیں کرتے بلکہ ان کی نعت روایت ہی کے سائے میں پروان چڑھتی ہے ۔۔اور ان کی شاعری میں عقیدت و محبت کے حوالے سے وہ سب کچھ موجود ہے جس کی ایک سنجیدہ قاری کو تلاش ہے۔۔یوں بھی کہا جا سکتا ہے کے رشید ہادی کی نعت میں طیبہ کی طیب فضاؤں کو ترستی روحوں اور دیار حبیب صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے دوری میں دھڑکتے دلوں کے لئے تسکین و طمانیت کے بیشتر لوازم موجود ہیں ۔۔جن سے عشق مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی باران سکینت بار گنبد خضرا کی متلاشی آنکھوں اور فراق حضور میں سلگتے دلوں پر ساون کی رم جھم کی صورت مسلسل برستی ہے ۔۔جس سے ایک جان فزا راحت و آسودگی کا احساس ہوتا ہے ۔۔۔۔رشید ہادی کی شاعری زندگی کے خارجی مشاہدات و تجربات کا ثمر نہیں بلکہ اس کے سوتے اس کے اندر سے پھوٹتے ہیں اور کلی طور پر جمال عشق مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مرہون منت ہے ۔یہی وجہ ہے کہ ان کے ایک ایک شعر سے عشق حبیب خدا کے گھر شعور و ادراک کی حسی بازگشت سنائی دیتی ہے ۔۔۔۔۔
رشید حاجی کی شعری محاسن وردائع سے خالی نہیں جو علامات اور لوازمات شعری لاتے ہیں وہ نہایت عام فہم ہوتے ہیں ۔۔ان میں غرابت کا نقص موجود نہیں ہوتا ۔۔۔وہ اسقام و معائب سخن سے بڑی حد تک بچتے ہیں ۔۔۔ژولیدگی بیان ، اثقال اور ٹفافر حروف ، ابہام و اہمال ، تعقیب و تعقید ، لفظی و معنی ،تنافر کلمات ، توالی اضافت ، اخلال ،ضعف تالیف ، تغیر الفاظ ، ابتدال اور بے ضرورت فک اضافت اور صرفی نحوی اصولوں کو نظر انداز کر دینا ، خلاف روز مرہ و محاورہ زبان استعمال کرنا ، ان کے یہاں موجود نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔رشید ہادی کی نعت میں وہ تمام قرینے ، وہ تمام سلیقے اور تمام زاویے اور وہ تمام ضابطے موجود ہیں ، جو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نعت کے لئے ضروری ہیں ۔۔رشید ہادی کے اس شعر میں داخلی کیفیت ملاحظہ ہو۔۔۔
خیال آٹا ہے طیبہ سے جب بچھڑنے کا
حریم جسم سے جاں تو نکل ہی جاتی ہے
رشید ہادی کی نعت میں وہ تمام مضامین ظہور پذیر ہوئے ہیں جو آج کی جدید نعت کا ایک لازمی عنصر سمجھے جاتے ہیں ۔۔ان کی نعت میں حضور یوں حاضری کی کیفیت کا ذکر ،حاضری کی تمنا اور وہ آپ ہیں پر ہی اپنی زندگی کے باقی دن گزارنا ان کی زندگی کا مقصد اور ایمان ہے ۔۔
یہی دعا ہے کب ہادی کی اب مرے مولا
کٹے مدینے میں جتنی بھی اور باقی ہے
ہر صدی میں نعت لکھنے اور نعت کہنے والوں نے اپنی اپنی فنی چابکدستی کے ساتھ نعت کے اس سلسلہ کو حسن و عقیدت کی خوشبوؤں میں بسایا اور آگے بڑھانے میں مقدور بھر اپنا حصہ ڈالا اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے اور تا قیامت جاری رہے گا ۔۔اور اس موضوع میں نت نئے امکانات سامنے آتے رہیں گے ۔۔رشید ہادی نے "بہار گنبد خضرا "میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ محبت اور دلی وابستگی کو خصوصی طور پر پیش نظر رکھا اور اپنی ذات سے وابستہ کوتاہیوں ، مشکلات اور رنج و غم کو زیادہ موضوع بنایا ہے ۔۔
کثرت ، رنج و الم نے گھیر رکھا ہے مجھے
المدد محبوب داور رحمتہ للعالمین
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں نے لیا حضور کا جب مشکلوں میں نام
لمحات مشکلوں کے سبھی سر سے ٹل گئے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
غم و آلام کے طوفان کی زد میں ہے یہ خادم
لگا دیجئے کنارے پر مکین گنبد خضرا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مجبوری و مقہوری اور ذات سے وابستہ رنج و الم نعت میں پیش کرتے ہوئے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مدد مانگنا ایک سلسلہ سفر ٹھہرتا ہے ،لفظوں کی پرخار داری میں اترنے والوں اور سفر کی آبلہ پائی کرنے والوں کا ۔۔۔۔۔۔۔
دور سب ہو جائیں گے غم مشکلیں حل جائیں گی
پڑھ درود پاک آقا پر میرے تو صبح و شام
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ابر رحمت مجھ پہ بھی برسائیں طیبہ پاک سے
مصیبت کی دھوپ میں چلتا ہوا صحرا ہوں میں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رشید ہادی کی نعتوں میں در اقدس سے عقیدت، عشق ، شیفتگی جذبے کی فراوانی ،محبت و احترام ایک مسلمان کی حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ذات سے محبت یہ سارے جذبے "بہار گنبد خضرا" میں باد صبا کی طرف موجود ملتے ہیں۔۔وہ لفظوں کی کانکنی کرتے ہوئے اس بات کو بھی جانتا ہے جانتے ہیں کہ زندگی اور روح کے پیاسے صحرا میں اس کی تشنگی صرف اور صرف اس ذات کے ساتھ وابستگی سے مٹے گی ، اس لیے وہ کہ اٹھتا ہے کہ
بڑھے ہی جاتا ہے ہادی یہ پیاس کا صحرا
شراب دید سے ہی دور تشنگی ہوگی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رشید ہادی کو یہ بھی احساس ہے کہ در حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے وابستگی و دلبستگی سے ہی اس کی توقیر بڑھی ہے اور اس سے اس کی عزت بنی ہے ۔۔
تیرا شاعر تیرا بندہ ہوں میں
یوں بڑھی ہے میری عظمت آقا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دربار رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں دعا و استمداد کا بھی ان کی نعتیہ شاعری میں ظہور ہوا ہے انہوں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی ذاتی اور قومی مسائل کے حوالے سے ان کے حل کے لئے فریاد کی ہے جو عصر حاضر کی نعت کا ایک نمایاں وصف بن گیا ہے
کثرت رنج و الم نے گھیر رکھا ہے مجھے
المدد محبوب داور ب رحمت اللعالمین
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تلخیوں نے فراق میں آقا
عمر بھر دل کو بیقرار کیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سرکار کائنات فخر موجودات رحمۃللعالمین کی حیات مبارکہ سے شروع ہونے والا نعت گوئی کا یہ سلسلہ تا ایں دم جاری ہے ۔۔مسلمان جہاں جہاں بھی گئے انہوں نے مقامی زبانوں میں صنعت نعت کوئی میں طبع آزمائی کی۔۔برصغیر بلکہ ایران میں بھی مصنفین کا یہ وطیرہ رہا ہے کہ اپنی تصنیف کا آغاز حمدونعت سے کرتے ۔۔۔اگرچہ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی اجمعین کی نعتوں میں جو وقعیت ، حقیقت نگاری ، زور بیان سلاست و روانی پائی جاتی ہے ۔۔اس کی بعد کے زمانوں میں کمی آتی گئی، تاہم نعت مدح رسول فداہ ابی و امی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے متعلق ہے ۔۔۔۔۔اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اسم مبارک زبان پر آتے ہیں عقیدتوں کا سمندر ٹھاٹھیں مارنے لگتا ہے ۔۔اس لیے نعت گو آمد کی کیفیت میں ڈوب جاتا ہے اور اس کے لیے محض لفاظی ممکن ہی نہیں رہتی ۔۔بلکہ وہ جو کچھ کہتا ہے وہ کیف و سرور اور وجد و مستی سے معمور ہوتا ہے ۔۔البتہ اس کا ظہور اور نعت کا ادبی مقام اس امر پر منحصر ہے کہ نعت گو کو زبان و ادب اور بیان پر کس قدر عبور اور قدرت حاصل ہے ۔۔۔سچ اور حق یہ ہے کہ جذبہ عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی فراوانی کے بغیر نعت وجود میں نہیں آتی۔۔آورد کے زیر اثر شعر تو لکھے جاسکتے ہیں لیکن کیف و مستی پیدا کرنے اور تڑپانے والے شعر ہیں کہے جاسکتے ۔۔اور یہ بھی درست ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ثناء کا حق بھی ادا نہیں ہو سکتا ۔،۔فارسی کا ایک مشہور شعر ہے کہ جس کا ایک مصرع عربی اور دوسرا فارسی میں ہے ۔۔شاعر کہتا ہے ۔۔
لا یمکن الثناء کما کان حقہ
بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یا پنجابی کا ایک شعر ہے ۔۔
کس کی مجال دم بھرے صفت رسول کی کرے
جس پر خدا نے خود کہا صلی علی محمد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رشید ہادی بڑے خوش بخت ہیں کہ انہیں حب رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بے بہا نعمت میسر ہے ، دوسرا یہ کہ انھوں نے اپنے جذبے کے اظہار میں احتیاط و ادب کو ہاتھ سے نہیں جانے دیا ،ورنہ یہ وہ مقام ہےکہ گنبد خضرا کے مکین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آرام گاہ کا فقط دور سے نظارہ ہی جنید و بایز ایسے جید اولیاء کرام کے لیے ہوش ربا ہے۔ پھر ہما و شما کس قطار میں ہیں ۔؟
ادب گاہ ہیست زیر آسمان از عرش نازک تر
نفس گم کردا می آید جنید و بایزید ایں جا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رفتگاں کی یادوں کے زخم کبھی بھر نہیں سکتے جب تک دم میں دم ہے ،ان کی یادیں نہاں خانہء دل میں اپنے وجود کا اثبات کرتی رہیں گی اور ہمیں زندگی کی کم مائیگی کا احساس دلاتی رہیں گی ۔۔ رشید ہادی اس لحاظ سے بھی خوش قسمت ہے کہ رب ذوالجلال نے انہیں نعت گوئی جیسی عظیم نعمت سے نواز دیا ہے اللہ تعالی ان کی کاوشیں ، کوششیں اور چاہتیں قبول فرمائے۔۔۔۔۔۔ آمین ثم آمین۔۔
ان کے اپنے اس شعر پر بات سمیتے ہیں ۔۔۔۔
حسب نسب پہ کچھ مجھے ہادی نہیں فخر
آقا کا نعت خوان ہوں پہچان ہے یہی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“