فیصل آباد کے قابل فخر فرزند ' نابغہ روزگار محقق، نقاد ، دانشور ، ماہر لسانیات ،جی سی یونیورسٹی کے شعبہ اردو کے سینئر استاد اور درویش صفت شخصیت پروفیسر ڈاکٹر شبّیر احمد قادری اپنی مدت ملازمت پوری کر کے ریٹائر ہو رہے ہیں ۔۔۔۔۔ڈاکٹر شبّیر احمد قادری صاحب ، اس فیصل آباد کا فخر اور فیصل آباد کے ادب کے صحیح مورخ ہیں ۔۔۔۔۔انھوں نے فیصل آباد کی ادبی تاریخ اپنے سامنے بنتی ، مرتب ہوتی دیکھی ہے ۔۔۔۔۔آج ان کے ہم عصر ادبا اور اساتذہ میں بیشتر اں کے شاگردان ہیں ۔۔۔ڈاکٹر صاحب نے تحقیق کے میدان میں بہت پر مغز تحقیقی مقالہ جات لکھے ہیں جو مختلف تحقیقی جریدوں میں شایع ہوتے رہے ہیں ۔۔۔۔۔
۔انھوں نے فیصل آباد کے مقامی روزنامہ " عوام " سے ١٩٨٧ سے" شعرو ادب "کے عنوان ایک ھفتہ وار ادبی صفحہ شروع کیا جو کم از کم چودہ پندرہ سال تواتر سے چھپتا رہا ۔۔۔۔اس وقت کمپیوٹر کا زمانہ نہیں آیا تھا تو کتابت قلم سے پیلیکن کی سیاہی سے کاتب خود لکھا کرتے ٹھے ۔۔۔میں نے یہ عہد بھی دیکھا ،جب ادب کے اتنے مخلص اور انتھک خدمت گار ڈاکٹر شبّیر احمد قادری اپنا صفحہ جڑوا کر رات کو بارہ ایک بجے گھر جاتے ٹھے ۔۔۔۔یہ بات ان کی علم اور ادب دوستی کی خوبصورت مثال ہے ۔۔۔۔
ڈاکٹر شبّیر احمد قادری کی زندگی اپنی دنیا آپ پیدا کرنے کی درخشاں مثال ہے۔ انھوں نے اسی شہر سے ابتدائی تعلیم حاصل کی ۔۔انٹر سے بالترتیب ماسٹر تک گورنمنٹ کالج فیصل آباد سے تعلیمی مدارج طے کیے۔ ۔۔۔پھر۔انھوں نے فیصل آباد کے دو جید ادبا محترم خلیق قریشی پر ایم – فل اردو کا مقالہ لکھ کر ڈگری حاصل کی اور ممتاز نعت گو جناب حافظ لدھیانوی پر پی ایچ – ڈی کا مقالہ لکھ کر ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی ۔۔۔۔
اس وقت بڑے بڑے ادیب اور پروفیسر روزنامہ "عوام " کے اس ادبی صفحہ میں چھپنے کے لیے قادری صاحب سے راہ و رسم بڑھانے کے چکر میں ہوتے ٹھے ۔۔۔اور ان کی اخبار کے ادبی صفحہ میں چھپنے کو ایک اعزاز سے کم نہ سمجھتے ٹھے ۔۔ ڈاکٹر شبّیر احمد قادری صاحب ، ان لوگوں کو خوش کرنے کے لیے کسی نہ کسی ادیب یا پروفیسر کے نام صفحے کا انتساب کر دیا کرتے تھے ۔پھر وہ شاعر ،ادیب اپنا انتساب دیکھ کر سارا دن خوشی سے پھولے نہ سماتے تھے ۔۔۔۔۔
ڈاکٹر صاحب کے بہت سارے تحقیقی و تنقیدی مقالات مختلف جریدوں میں چھپ چکے ہیں ۔۔۔۔وہ یقینا ریٹائرمنٹ کے بعد اپنے مقالہ جات کو منصہ شہود پر لائیں گے ۔۔۔۔
ڈاکٹر صاحب کا علمی قد بہت بڑا ہے ۔۔۔جتنے بڑے وہ ادیب ہیں ، اس سے بڑھ کر ایک زیرک اور منجھے ہوۓ محقق اور نقاد ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔لیکن اپنی ان تمام خوبیوں سے بڑھ کر وہ ایک عظیم انسان ہیں ۔۔۔۔۔۔اور ان کی یہی خوبی ان کی دیگر خوبیوں پر حاوی ہے ۔۔۔۔۔انتہائی منکسر المزاج ، مرنجاں مرنج ، خلیق ، شفیق اور ہمدرد انسان ہیں ۔ انھوں نے ہمیشہ انسانیت کے وقار ، سر بلندی اور عزت و تکریم کو ملحوظ رکھا ۔۔انسانیت کی تضحیک اور بے توقیری کرنے والے درندوں سے انھیں شدید نفرت ہے
اللہ کریم نے ڈاکٹر شبّیر احمد قادری کو بردباری ،تحمل ،حق گوئی و بے باکی ،خلوص و درد مندی ،حب الوطنی اور انسانی ہمدردی کے اوصاف سے متمتع کیا تھا ۔وہ ایک وسیع المطالعہ ،وسیع النظر اور وسیع المشرب انسان ہیں ۔ ۔ان کے دل کی دھڑ کن سے ایک ہی نغمہ پھوٹتا ہے اور یہ صدا آتی ہے کہ میرا پیغام بے لوث محبت ہے اور اس کے سوا کچھ نہیں۔وہ بلا امتیاز سب سے والہانہ محبت کرتے ہیں ۔ہر قسم کے لسانی ،علاقائی ،نسلی اور فرقہ وارانہ تعصبات سے وہ ہمیشہ دور رہے ۔وہ لسانی ، نسلی ،مذہبی اور فر قہ وارانہ تعصبات اورہر قسم کی انتہا پسندی کو ملکی سالمیت اور بقا کے خلاف سمجھتے ہیں ۔ایک عظیم محب وطن پاکستانی کی حیثیت سے انھوں نے قومی تعمیر و ترقی کے لیے ہمیشہ اچھی سوچ رکھی۔ وہ سب کے ساتھ اخلاق اور اخلاص سے بھر پور سلوک کرتے ہیں اور ان سے مل کر ہر ملاقاتی خود اپنی نظروں میں معزز اور مفتحر ہو جاتا ہے ۔ وہ مس خام کو کندن اور ذرے کو آفتاب بنانے والے معلم ہیں ۔ ان کے شاگرد ان کے فیضان نظر سے زندگی کی دوڑ میں کامیاب و کامران ہو رہے ہیں۔ ۔
تاریخ اور اس کے مسلسل عمل پر ڈاکٹر شبّیر احمد قادری کی گہری نظر ہے ۔ڈاکٹر شبّیر احمد قادری کی عالمی ادبیات سے گہری دلچسپی کا ایک عالم معترف ہے ۔۔ایم – اے اردو کرنے کے بعد کیڈٹ کالج حسن ابدال میں تدریسی خدمات پر مامور ہوۓ اور ان کے تمام معاصرین نے ان کی لسانی مہارت اور ذوق سلیم کا برملا اعتراف کیا ہے ۔۔ پاکستان کی تمام علاقائی زبانوں کے ادب ، اردوادب کے کلاسیکی ادب اور عالمی کلاسیک کا انھوں نے تفصیل سے مطالعہ کیا ہوا ہے ۔۔۔۔
اپنی تنقیدی بصیرت کو بروئے کار لاتے ہوئے ڈاکٹر شبّیر احمد قادری نے اپنے مطالعہ ،تجربات ،احساسات ،تجزیہ اور تاثرات کو جس مہارت سے زیب قرطاس کیا ہے اسے پڑھ کر قاری مسرت کے احساس سے سرشار ہوتا ہے ۔ان کے تحقیقی و تنقیدی تجزیہ کو پڑھ کر قاری کو نہ صرف ادب پارے کے بارے میں آگہی ملتی ہے بل کہ وہ تخلیق کار اور اس کے لا شعوری محرکات کے بارے میں کافی معلومات حاصل کر لیتا ہے ۔
ڈاکٹر قادری صاحب کی ریٹائرڈ منٹ تک زندگی فروغ علم و ادب میں گزری ۔۔ پرورش لوح و قلم کے ذریعے نئے حقائق اور نئی بصیرتوں کی جستجو کاجو نادر انداز انھوں نے اپنایا ،وہ ان کی ذات کے درخشاں پہلو سامنے لاتا ہے ۔وہ زندگی کے فیوض و برکات کے معترف ہیں ۔ان کا کہنا ہے کہ زندگی تو حرکت و حرارت سے عبارت ہے جب کہ جمود کو وہ موت سے تعبیر کیا کرتے ہیں ۔۔۔انھوں نے ہمیشہ اپنے چاہنے والوں کو آگے بڑھنے کی ترغیب حوصلہ افزائی کے ذریعے کی ۔۔۔۔اگرچہ ان کی کوئی تصنیف نہیں لیکن ان کا تحقیقی کام کئی صاحب کتب افراد سے زیادہ ہے جو چھپنے کے مراحل میں ہے ۔
میرے لیے انھوں نے ہمیشہ دیدہ و دل کشادہ رکھے ۔ ۔۔۔اخبار کے زمانہ میں ١٩٨٨ کے اوائل میں میری ٹوٹی پھوٹی تحریروں کو اپنے صفحے میں شامل کر لیا کرتے تھے ۔۔۔۔۔بعد ازاں جہاں بھی ان سے رہنمائی لینا مقصود ہوتی ، انھوں نے ہمیشہ خندہ پیشانی سے میری مدد کی ۔۔۔۔۔۔۔۔میرے پی ایچ – ڈی اردو کے مقالہ کے سلسلے میں کتب کی ضرورت پڑی تو انھوں نے اپنی علالت کے باوجود الماری سے گرد آلود کتب خود صاف کر کر کے ایک بڑے شاپنگ بیگ میں ڈال کر دیں ۔۔۔۔۔اور یہ پریکٹس ایک بار نہیں ، اس درویش صفت انسان ، سراپا خلوص و محبّت نے کئی بار یہ مشقت کی ۔۔۔۔۔۔۔ان کا بار احسان میرے ناتواں کندھوں پر ہے ۔۔اور میں تا حیات ان کے اس احسان کو یاد رکھوں گا ۔۔۔۔۔۔۔اس سلسلے کئی دوستوں سے روابط کیے جو حوصلہ افزائی کے علاوہ کچھ نہ دے پاۓ ۔۔
میں قبلہ ڈاکٹر صاحب کے لیے سراپا سپاس گزار ہوں ۔۔۔۔۔۔
اللہ پاک ان کو۔ عمدہ صحت کے ساتھ سلامت رکھے اور درازی عمر سے نوازے ۔۔۔۔آمین
رُکے تو چاند ، چلے تو ہواؤں جیسا ہے
یہ شخص دھوپ میں بھی چھاؤں جیسا ہے
“