ایک طرف شام کے مظلومین کا واویلا مچایا جا رہا ہے دوسری طرف شام کے مظلومین کے لئے چندے کا سلسلہ بھی کہیں نہ کہیں جاری ہے اس پر جناب رعایت اللہ فاروقی نے اپنی وال پر خونی چندے کے نام سے ایک زبردست کالم لکھا ہے پورا کالم ان کی وال پر دستیاب ہے میں اس وال کے کچھ اہم حصے دے رہا ہوں۔ اس کالم میں انھوں نے لکھا ہے کہ 2006ء کے اواخر میں سوات کے علاقے چار باغ جانا ہوا۔ اس قصبے کی ایک لب سڑک مسجد میں عشاء کی نماز میں امام نے سلام پھیرا تو سترہ اٹھارہ برس کا ایک لڑکا کھڑا ہوا اور پشتو میں اعلان شروع کیا، ’’حضرات ! عراق میں مجاہدین اسلام کو سخت قسم کی مشکلات کا سامنا ہے، انہیں فوری طور پر ایمونیشن درکار ہے جس کے لئے ان کے پاس پیسے بھی نہیں ہیں، آپ حضرات دل کھول کر چندہ عنایت کیجئے تاکہ عراق اسلحہ بھیجا جا سکے‘‘ اس اعلان نے کامن سینس کے چند سادہ سے سوالات کھڑے کردیئے تھے جو کوئی بھی پوچھ سکتا تھا مگر نمازیوں میں سے کسی نے بھی کوئی سوال نہ اٹھایا، مثلا پہلا سوال یہ بنتا تھا کہ عراق تک اسلحہ پہنچانے کے لئے آپ کی عمر کچھ زیادہ ہی کم نہیں ؟ اس کا ممکنہ جواب یہ ہو سکتا تھا کہ میں چندہ مانگ رہا ہوں، اسلحے کی خریداری اور سپلائی ہمارے بڑے کریں گے تو ایسے میں اگلا سوال یہ ہو سکتا تھا کہ پاکستان اور عراق کے بیچ تو وہ ایران حائل ہے جس کے مفادات کے خلاف اس اسلحے نے استعمال ہونا ہے سو ذرا یہ تو بتایئے کہ آپ یا آپ کے بڑے ایران سے اسلحے کو گزار کر عراق تک پہنچائیں گے کیسے ؟ اعلان کرنے والا نوجوان اپنے ایک معاون کے ساتھ مسجد کے دروازے پر جلوہ افروز ہو چکا تھا اور بقیہ نماز سے فارغ ہوکر مسجد سے رخصت ہونے والے نمازی پورے جذبہ ایمانی کیساتھ انہیں چندہ دیتے جا رہے تھے۔ نہ کسی نے سوال پوچھا اور نہ ہی انہیں جواب دینے کی ضرورت پیش آئی۔ بعد میں سوات میں رہنے والے اپنے مختلف جاننے والوں سے تحقیق کی تو اس اندیشے کی تصدیق ہوگئی کہ یہ چندہ مہم سوات میں عام ہے۔ امید ہے کہ یہ بتانے کی ضرورت نہ ہوگی کہ بہت جلد یہی چندہ سوات کو بصرہ و بغداد بنانے کے کام آیا۔
اس ملک میں ہر دس میں سے چار لوگ خط غربت سے بھی نیچے کی زندگی گزار رہے ہیں۔ صحت کے مسائل اتنے سنگین ہیں کہ نومولود بچوں کی بقاء کو ہی خطرات لاحق ہیں۔ یعنی یہاں پیدا ہوتے ہی خطرے سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ تعلیم کے شعبے میں سکول، کالج اور یونیورسٹیز تینوں ہی ناکافی ہیں۔ غربت اور ناکافی سہولیات کے اثرات دیکھئے کہ سستی خوراک کے نام پر بازاروں میں زہر فروخت ہو رہا ہے اور غریب آدمی خریدنے اور کھانے پر مجبور بھی ہے۔ لاکھوں قابل بچے سکول، کالج یا یونیورسٹی لیول پر تعلیم سے ہی محروم رہ جاتے ہیں۔ شہر کی کسی بھی ورکشاپ پر جا کر دیکھا جا سکتا ہے کہ دس دس برس کی عمر کے بچے مزدوری پر مجبور ہیں جبکہ ان بچوں کی بہت بڑی تعداد تو وہ ہے جو لوگوں کے گھروں پر کام رہی ہے اس لئے نظروں سے اوجھل بھی ہے۔ اب پیش خدمت ہے وہ سوال جس پر غور نہ کیا گیا تو نتائج ریاست اور اس کے باسی بھگتیں گے۔ سوال یہ ہے کہ اپنے ہی ملک کے یہ کروڑوں مستحقین تو کچھ لوگوں کو نظر نہیں آتے لیکن جوں ہی دنیا کے کسی کونے کھدرے میں جنگ کا الاؤ دہکنے لگتا ہے تو ہمارے ہی کچھ فلاحی ادارے اور افراد فورا اپنی اپنی چندہ سکیمیں لانچ کر دیتے ہیں جس میں غذا، دوائیوں اور حتی کہ دیہی علاقوں میں اسلحے تک کے نام پر بھی چندہ مانگا جاتا ہے۔ یہ موسمی چندہ خور اگر واقعی مخلص ہیں تو یہ اپنے ملک کے کروڑوں مستحقین کے لئے کوئی درد کیوں محسوس نہیں کرتے ؟ کیا عراق اور شام کے مستحق پر خرچ کرنے سے زیادہ اور دیسی پاکستانی مستحق پر کم اجر ملتا ہے ؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ دور دراز کے مستحق کی فکر اس لئے دکھائی جاتی ہو کہ چندہ دینے والے جا کر دیکھ نہیں سکتے کہ ان کا چندہ وہاں پہنچا بھی یا نہیں ؟ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ کیا واقعی یہ چندہ وہیں جا رہا ہے ؟ کہیں یہ چار باغ اور سوات کے چندے کی طرح فضل اللہ کے ہی کام تو نہیں آرہا ؟ کون ہے جو انکار کر سکے کہ ہمارے ملک میں بڑے پیمانے کی تباہی مچائی ہی اس چندے نے ہے جو کسی نہ کسی حوالے سے نظریاتی جنگوں سے وابستہ رہا۔ ریاست ہوش میں آئے اور یہ خونی چندے رکوائے ورنہ ہمارے گلی کوچوں میں خون بہنا بند نہ ہوگا !
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“