پاک روس تعلقات ۔ ترجمہ اور تلخیص
شنگھائی مشن کا ممبر بننے کا ایک مطلب روس سے قریبی تعلقات میں مزید گہرائی لانا ہے روس اور پاکستان کے موجودہ تعلقات کا آغاز 2012 میں ہوا جب جون ۲۰۱۴ء میں روسی قیادت نے پاکستان کو منشیات کے اسمگلروں سے مقابلہ کرنے کی خاطر جدید ترین اٹیک ہیلی کاپٹر فراہم کرنے کے حوالے سے مذاکرات کا آغاز کیا۔ اور معاملات صرف عسکری سطح پر تعاون تک محدود نہیں رہے۔ روس نے پاکستان، ایران اور چین کے درمیان ایک بڑی گیس پائپ لائن کی تعمیر میں تکنیکی تعاون کی پیشکش بھی کی ۔
پاکستان کو اچھی طرح اندازہ ہے کہ جب سی پیک مکمل ہو نے سے بڑے معاشی مواقع اور امکانات پیدا ہوں گے۔ پیش بینی کرتے ہوئے پاکستان نے یوریشین یونین سے آزاد تجارت کا معاہدہ کرنے کو ترجیح دی ہے۔ روس کا ایک اعلیٰ سطحی ثقافتی وفد جلد پاکستان کا دورہ کرے گا اور پاکستان کے فوجی بینڈ نے ماسکو کے انٹرنیشنل میوزک فیسٹیول میں فن کا مظاہرہ کیا ہے۔
گوادر پورٹ کے کامیاب ہونے پر پورے خطے میں غیر معمولی معاشی تبدیلی کا مدار ہے۔ گوادر پورٹ کو ناکام بناکر روس، چین، پاکستان، وسط ایشیا اور جنوب مشرقی ایشیا کے درمیان تزویراتی شراکت داری کو ناکام بنانے کی کوشش کی جاسکتی ہے۔
طاقت کا مرکز مغرب سے مشرق کی طرف منتقل ہو رہا ہے۔ ایسے میں امریکا کے لیے مشکلات بڑھ رہی ہیں اور اس کی بدحواسی بھی۔ یورپی یونین نے اس عمل سے خود کو الگ کر رکھا ہے۔ یورپ کے بیشتر ممالک اب بھی یہ سمجھتے ہیں کہ ان کا معاشی اور اسٹریٹجک مفاد بحرِ اوقیانوس کے پار دیکھنے میں ہے نہ کہ یوریشیا، جنوبی ایشیا اور جنوب مشرقی ایشیا کی طرف دیکھنے میں۔ یوریشین یونین، ایران، سارک اور چین مل کر ایک ایسا عظیم معاشی خطہ قائم کرنا چاہتے ہیں جس میں سب کے لیے امکانات بھرے ہوں۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی کم کرانے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے روس نے پاکستان سے اسٹریٹجک تعلقات کی سطح بلند کرنے کی طرف جس تیزی سے قدم بڑھائے ہیں، اسے دیکھ کر اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ روسی قیادت کی نظر میں پاکستان کس قدر اہم ہے۔ دوسری طرف امریکا ہے جو ا دہشت گردی، سبوتاژ، دھمکی، دباؤ اور ’’انقلابات‘‘ کے ذریعے پاکستان کو غیر مستحکم رکھنا چاہے گا تاکہ یوریشین خطہ سارک اور چین سے مل کر بہتر معاشی امکانات پیدا کرنے میں کامیاب نہ ہوسکے۔ ان تمام خطرات کا سامنا کرنے کے لیے روس، ایران، پاکستان اور چین کو مل کر کام کرنا ہوگا۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“