آنکھوں پر پٹی بندھے میرے سَر میں دایاں کان زور سے مروڑتے ایک ان دیکھا شخص بڑی تلخی سے بولتا ہے، ’’حرامی! سوال کا صحیح جواب کیوں نہیں دیتے؟ کچھ اخلاقی جرأت دکھاؤ!‘‘
تکلیف کی لہر کے ساتھ اُسکے سوال نے میرے ماضی کے کتنے سارے دروازے اور دریچے کھول دئے ہیں جن سے آتی سرگوشیاں کرتی رونگٹے کھڑی کرتی سَرد ہوا نے جون کی گرمی میں بھی مجھے ریڑھ کی ہڈی تک یخ کر دیا ہے۔
زخموں نے مجھ میں دروازے کھولے ہیں
میں نے وقت سے پہلے ٹانکے کھولے ہیں
میَں کچھ مہینے پہلے سات سال کا ہو گیا ہوں۔ میری ماں نے مجھے گھر میں ہی اردو پڑھنا سِکھا دیا ہے اور گلی کے دوسرے بچوں کی نسبت میَں اُردو کی موٹی موٹی کتابیں فر فر پڑھ جاتا ہوں، سمجھ میں کچھ آئے نہ آئے۔ ابھی ابھی میں نے ہمارے بڑے کمرے میں بیٹھے بیٹھے نسیم حجازی کی ’’آخری چٹان‘‘ ختم کی ہے اور باہر صحن میں آ کر چُندھیائی ہوئی آنکھوں سے اُوپرنیلے آسمان کی طرف دیکھ رہا ہوں۔ ہوا زیادہ تیز نہیں لگتی ہے۔ بسنت کا تہوار آیا بھی اور چلا بھی گیا۔ ایک بڑی پتنگ ہماری چھت پر آ گِری تھی۔اِسکومیَں اُوپر چھت پر جا کر اُڑانا چاہتا ہوں لیکن میرے پاس نہ ڈور ہے نہ دھاگہ۔ میرا شیعہ دوست مرُتضیٰ جو سامنے والے مکان میں رہتا ہے اُس نے مجھے دِکھایا تھا کہ سکاٹ لینڈ کا بنا آٹھ نمبر دھاگہ سب سے مضبوط ہوتا ہے جِسکی نلکی پر زنجیر کا نشان ہوتا ہے۔ میں کنکھیوں سے صحن میں پاؤں سے چلانے والی سِنگر سِلائی مشین پر باجی جان کو مصروف دیکھ رہا ہوں مجھے معلوم ہے اُنکی مشین کی ایک دراز میں کشیدہ کاری کے رنگا رنگ دھاگوں کے ساتھ آٹھ نمبرکے دھاگے والی نلکیاں بھی ہوتی ہیں۔میرا مسئلہ یہ ہے کہ ایسی ایک نلکی کو کیسے اپنی جیب میں منتقل کیا جائے۔
باجی جان اپنی کشیدہ کاری پر مکمل توجہ دے رہی ہیں۔ انہوں نے لکڑی کے ایک گول ڈبل فریم پرسفید کپڑے کا ایک بڑا ٹُکڑا کھینچ تان کر چڑھایا ہوا ہے جِس پر انہوں نےکشیدہ کاری کے رسالے سے کاربن پیپر کی مدد سے ایک پھولوں اور پتوں والے پودے کا خاکہ بڑی احتیاط کے ساتھ نقل کیا ہوا ہے۔ انکے کام کے بارے میں اُلٹے سیدھے سوال پوچھنے کے بہانےمَیں سلائی مشین کے درازوں کے ساتھ لگ کر کھڑا ہو جاتا ہوں۔
میری بے تُکی بکواس کے خلل سے تنگ آ کر باجی جان مجھے کہتی ہیں ’’چُپ کرو اور صرف دیکھتے جاؤ‘‘۔
ایک رنگین دھاگے کی نلکی مشین کے اوپر چڑھا کر اور اسکے دھاگے کو مشین کے مختلف پُرزوں کے پیچ و خم اور سوئی سے گزار کر ایک طرف کھینچ کر وہ گول فریم میں لگے کپڑے کو بڑی احتیاط سے مشین کی سوئی کے نیچے رکھتی ہیں جِسکے نیچے والا پاؤں انہوں نے پہلے سے نکال کر علیحدہ رکھ دیا ہوا ہے۔ اپنے ایک ہاتھ سے مشین کے نیچے والے بڑے پہیے کو زور لگا کر وہ مشین کو چلانا شروع کرتی ہیں اور پیڈل پر دونوں پاؤں رکھے چلاتی جاتی ہیں۔ بار بار مشین چلانے اور روکنے کے درمیان وہ مختلف رنگوں کے چمکدار دھاگوں کی نلکیاں پُھرتی سے بدلتی جاتی ہیں۔ہر دفعہ مشین چلتی ہے تو وہ کپڑے والےفریم کو سوئی کے نیچے تیزی سے آگے پیچھے اور دائیں بائیں حرکت دیتی جاتی ہیں۔ رنگین دھاگہ باری باری سوئی سے گُزرتا کپڑےپر خاکے کی لکیروں کے درمیاں بھرتا جاتا ہے۔
ایسے جیسے جادو کے زور پر، ایک خوبصورت پودا آہستہ آہستہ کپڑے پر اُبھرنا شروع ہو جاتا ہے جِس کی خاکی مائل سبز ٹہنیوں پر قوس و قزح کے سبھی رنگوں پر مشتمل پھول اور سبز و سفید پتے ایسے زندہ لگتے ہیں جیسے میں انکو ہاتھ بڑھا کر محسوس کرسکتا ہوں۔ مَیں اس جادو میں اتنا محو ہو جاتا ہوں کہ سانس لینا بھی بھول جاتا ہوں۔ مشین کا کام ختم کرنے کے بعد باجی جان سوئی کے نیچے سے نکال کر فریم کو کھول کر کپڑے سےعلیحدہ کر دیتی ہیں اور اپنی خوبصورت کارگردگی کو جائزہ لینا شروع کر دیتی ہیں۔ میَں آخر کار زور سے سانس لیتا ہوں تو باجی جان میری طرف دیکھتی ہیں اور اُنکی نظریں میرے ہاتھ میں دبی آٹھ نمبر کی نلکی پر پڑتی ہیں۔ اپنا ہاتھ بڑھا کر وہ نلکی کو میرے ہاتھ سے نکال لیتی ہیں اور مجھے کہتی ہیں۔
’’بَچھو! کیا تمہیں معلوم ہے کہ تُم حرامی ہو؟ ایک ننگا بچہ جِسکو ہم نے کوُڑے کے ڈھیر سے اُٹھایا تھا۔ وہ تو اِتفاق سے ہماری امی اُس رات وہاں سے گُزر رہی تھیں۔ اُنہوں نے تمہارے رونے اور چیخ و پکارکی آواز سُنی تو تُمہیں دیکھ لیا اور گھر لے آئیں۔ اِسطرح تُم ہمارے بھائی بن گئے۔ شُکر کرو اور اِس طرح کی حرکتیں نہ کیا کرو۔‘‘
لفظ حرامی میرے دماغ میں ایک کانٹے کی طرح چُبھا ہوا ہے۔ میرا ذہن ایک ننگ دھڑنگ بچہ ہے جو کُوڑے کے ڈھیرپر پڑا چِیخ چلّا رہا ہے۔ چلچلاتی گرمی سے سڑک پر پِگھلتی تارکول نرم ہوکرمیرے ننگے پاؤں کو چِمٹ رہی ہے۔ میَں نے ایک ہِندو پنڈت کی لکھی ہوئی یوگا کی کِتاب میں پڑھا ہے کہ دھرتی ماتا سے جو شکتی ہمیں ننگے پاؤں چلنے سے حاصل ہو سکتی ہے وہ پاؤں کے نیچے مرُدہ چمڑے کا ایک ٹُکڑا حائل کرنے سےختم ہو جاتی ہے۔ نسیم حجازی اور دوسری کِتابوں کے بہادروں کی طرح میَں بھی بہادر بننا چاہتا ہوں۔ میَں بھی اپنے کردار میں ویسی ہی شکتی چاہتا ہوں، اسلئے جِتنا ہو سکے میَں ننگے پاؤں چلنے کی کوشش کرتا ہوں۔ ہماری گلی کی دو روئیہ گندی نالیوں کے ساتھ چلتا چلتا میَں گُورو تیغ بہادر روڈ پر پہنچتا ہوں۔ ہر گلی کی نالیاں سڑک کے دورویۂ دکانوں کے آگے لگے ہوئے تختوں کے نیچے اینٹوں اور کنکریٹ سے بنےایک ایک فٹ گہرے نالوں کو مِلتی ہیں۔ میَں سڑک پار کر کے دوسری طرف کے نالے کے ساتھ چلتا چلتا سُوری بلڈنگ کے سامنے والے موڑ پر پہنچ جاتا ہوں۔ مجھے معلوم ہے اِس جگہ سب نالے ایک بڑے نالے کو مِل جاتے ہیں جو ایک لوہے کی جالی سے گُزرتا زیرِ زمین پائپ میں چلا جاتا ہے۔ نالے میں بہہ کر آتا بڑے سائز کا کچرا جالی کے اُوپر پھنس جاتا ہے۔ لاہور میونسپل کارپوریشن کے جمعدار آتے ہیں تو اِس کچرے کو اُٹھا کر پاس ہی ڈھیر کرتے جاتے ہیں۔ ہفتے میں ایک دفعہ کارپوریشن کا ٹرک اور بعض دفعہ بیَل گاڑی اِس کوُڑے کو اُٹھا کر لے جاتی ہے۔
میَں کوُڑے کے ڈھیر کو دیکھ رہا ہوں۔ ساندہ روڈ کی دوسری طرف خالی کچی زمین پر عارضی جھونپڑیوں میں مقیم خانہ بدوش چنگڑ پہلے ہی اس ڈھیر میں سے ہر وہ چیز مثلاً ٹوٹا شیشہ ، خالی بوتلیں ، دھات سے بنی چیزیں ، کپڑا ، گتے اور اخبار کے بڑے ٹکڑے نکال چُکے ہیں جو دوبارہ استعمال میں آ سکتی ہے۔ یہ وہ دِن ہیں جب پلاسٹک ابھی عام استعمال میں نہیں آیا ہے۔ اب اس ڈھیر میں رہ گئے ہیں جھاڑو کے تنکے ، سگریٹ کی خالی ڈبیاں، ماچس کی تیلیاں، المونییم کی پنیاں اور پرانی اخباروں کے کاغذ سے بنے پان کے کتھئی رنگے چھوٹےتکونے پچکے خالی لفافے۔ کوُڑے کے ڈھیر پر چاروں شانے چِت لیٹا لمبی ننگی کالی پیلی دُم والا ایک مرُدہ چُوہا کُھلے مُنہ میں پیلے زرد نوکیلےدانت نکوسے مُجھے کُھلی آنکھوں سےگُھور رہا ہے۔ اسکے خاکی پیلے سُرخی مائل سیاہ خار پشت نما بالوں والے بدبو دار جِسم کو مکھیوں نے ڈھانپ رکھاہے۔ ڈھیر کے کنارے پراچانک ہوا سےلہراتے ہلکے نیلے رنگ کے کاغذ کےایک پھٹے ہوئے ٹُکڑے پر میری نظر پڑتی ہے۔ نیلی روشنائی سے اِس پر اُردو میں ہاتھ سے کُچھ لکھا ہوا ہے۔ میں اس کو اٹھا کر اپنی قمیض پر رگڑ کر صاف کر کے پڑھتا ہوں۔
’’ میں ہمیشہ تُمہارا اِنتظار کروں گی‘‘
کِسی لڑکی کی تحریر لگتی ہے۔
میَں پریشانی ، تذبذب اور ذہنی اُلجھن کے سوالیہ عالم میں کوُڑے کے ڈھیر کو غور سے دیکھتا ہوں کہ اگر میَں یہاں سے مِلا تھا تو گھر میں موجود وہ عورت کون ہے جِسے میں امی جان کہتا ہوں؟ اگر وہ میری ماں نہیں ہے تو پھر میری ماں کون ہے؟ اُس نے کیوں مجھے اس کوڑے کے ڈھیر پر ننگ دھڑنگ چھوڑ دیا؟ اگر مجُھے نہ اُٹھایا جاتا تو کیا میں مر چُکا ہوتا؟ کیا میں بھی بھنبھناتی مکھیوں کا شکار اسی چوہے کی طرح چاروں شانے چِت لیٹا ہوتا اور اپنی کھُلی ہوئی بے نُور آنکھوں سے مُجھے کیا نظر آتا؟ کل شام میں نے اپنی بڑی بہن باجی مانی کےایک رسالے میں جو چند شعر پڑھے تھے کیا وہ بھی کوئی ایسی ہی بات تھی؟
پیڑ سو جائیں گے
راستے گرد میں کھو جائیں گے
میری پتھرائی ہوئی آنکھوں سے
کوئی دیکھے گا مجھے
نام لے کر اپنا
کوئی پوچھے گا مجھے
ہر کرن اینٹوں سے ٹکرائے گی
خواب کانٹوں سے لٹک جائیں گے
اِک کہانی یاد آئے گی مجھے
اور راہگیر بھٹک جائیں گے
میں پکاروں گا تجھے
اور کشکولِ گدائی کی طرح خالی ہاتھ
میری آواز میرے پاس ہی لوٹ آئے گی
وہ لڑکی کسِ کا اِنتظار کر رہی ہے؟ یہ خط پھاڑ کر کسِ نے کوُڑے میں پھینک دیا اور کیوں ؟ یہ’’ہمیشہ‘‘ کتنا لمبا وقت ہوتا ہے ؟ اور کہانی یاد آنے سے راہگیر کیوں بھٹک جاتے ہیں؟
اُس رات ہمارے والد جن کو ہم پیار سے بآجی کہتے ہیں سونے سے پہلے کہانیاں سُننے کے وقت میَں اور مجھ سے دو سال بڑا بھائی مسعود اُن کےساتھ لیٹے ہوئے ہیں۔ آسٹریلیا میں قوس و قزح کے ریچھ کی وہ کہانی آج بھی مُجھے یاد ہے کیونکہ اُس کے بعد میَں بآجی سے پُوچھتا ہوں۔
’’بآجی! حرامی کیا ہوتا ہے؟‘‘
بآجی چند لمحوں کے توقف کے بعد کہتے ہیں ’’ بعض دفعہ ایک بچہ پیدا ہوتا ہے جِسکے والدین کی ابھی شادی نہیں ہوئی ہوتی۔ اسکو لوگ حرامی کہتے ہیں۔‘‘
’’ کیا یہ ایک بُری بات ہے؟‘‘ میں پوچھتا ہوں۔
باؔجی جواب دیتے ہیں ’’ ہمارے جیسے معاشروں میں جب ایسا ہوتا ہے تو ایسے بچے کو بُرا سمجھا جاتا ہے۔ ہمارے قانون میں ایسے واقعہ کو جُرم سمجھا جاتا ہے۔ عموماً سزا کے ڈر سے بچے کا باپ بھاگ جاتا ہے۔ لڑکی اور اسکے ماں باپ کو وہ بچہ پالنا پڑتا ہے۔ دوسرے مرد ایسی لڑکی سے شادی کرنے سے انکار کر دیتے ہیں۔ اگر ماں باپ غریب ہوتے ہیں تو انکی مشکلات اور بھی بڑھ جاتی ہیں۔ لوگ اس بچے کو برا بھلا کہتے ہیں‘ اسکو ظلم کا نشانہ بنائے رکھتے ہیں اور اسکو حرامی کہتے ہیں۔ لیکن میرے خیال میں یہ صحیح نہیں ہے کیونکہ اس معاملے میں بچے کا کوئی قصور نہیں ہوتا۔ ایسے بچے کے ساتھ لوگوں کا سلوک نرمی اور محبت کا ہونا چاہیے۔‘‘
میَں ابھی یہ سب معلومات ہضم کرنے کی کوشش میں مصروف ہوں کہ بآجی کہتے ہیں ’’ تُم نے کیوں پُوچھا؟‘‘
میَں جواب دیتا ہوں ’’آج صبح باجی جان نے مجھے حرامی کہا کیونکہ میَں نے پتنگ اُڑانے کے لئے بغیر اِجازت ان کی دھاگے کی نلکی لینے کی کوشش کی تھی۔‘‘
’’اچھا؟ وہ اور بات تھی۔ باجی جان کا مطلب تھا کہ تُم نے حرامیوں جیسی حرکت کی ہے‘‘
’’ مگر بآجی! کیا حرامی ہی ایسی حرکتیں کرتے ہیں؟‘‘
’’نہیں نہیں! میرا یہ مطلب نہیں تھا۔‘‘ بآجی جلدی سےکہتے ہیں۔ ’’عموماً ایسے معاشرے میں لوگ ایسے بچے پر اتنا ظلم کرتے ہیں کہ وہ بڑا ہو کر معاشرے کے ہی خلاف ہوکر جرائم کرنا شروع کر دیتا ہے۔ اسکے بُرے رویے کے باعث لوگ اُس پر ظُلم کو جائز سمجھنے لگتے ہیں اور کہتے ہیں کہ کیونکہ وہ حرامی تھا اسلئے ایسی ہی حرکتیں کرے گا۔ جب کوئی اور ویسی ہی بری حرکت کرتا ہے تو لوگ کہتے ہیں کہ اس نے حرامیوں جیسی حرکت کی ‘‘
اگلا سوال میرے منہ سے فوراً نکلتا ہے۔’’لیکن بآجی! اگر حرامی کا اپنا کوئی قصور نہیں تھا تو ہم کیسے کہہ سکتے ہیں کہ کوئی اور جو حرامی نہیں تھا اگر اس نے ایسی حرکت کی تو اس کا اپنا قصور تھا۔ کیا یہ ممکن ہے کہ معاشرے کی غلطیوں کی وجہ سے یا قدرت نے اسے ایسا ہی بنایا ہو؟‘‘
’’ہاں تم نے سوال تو صحیح پوچھے ہیں لیکن مجھے نہیں معلوم کہ میَں ابھی اس وقت ان کا صحیح جواب دے سکتا ہوں ان الفاظ میں جو تمہیں سمجھ آ جائیں۔‘‘ باؔجی دبے لہجے میں کہتے ہیں۔
میَں ابھی سات سال کا ہوں۔ میَں ابھی بہت کُچھ نہیں جانتا ہوں۔ ابھی دست کشی اور احساسِ عدم تحفظ جیسے موٹے موٹے الفاظ میَں نے نہیں پڑھے۔ میَں نہیں جانتا کسی کے مذاق یا غصے میں کہے گئے لفظوں کا میرے لا شعور کی گُتھیوں اور اُلجھنوں سےکیا تعلق ہو گا۔ میَں نے ابھی یہ سیکھنا ہے کہ اکثر اوقات معاشرہ بھی اُسی ماں کی طرح کا سلوک کرتا ہے جب گھِسے پِٹے متعصب سماج کے ظُلم کے ڈر سے وہ اپنے معصوم بچے کو حرامی سمجھتے ہوئے کُوڑے کے ڈھیر پر ننگ دھڑنگ پھینکنے میں کوئی پس و پیش نہیں کرتا۔ مُجھے ابھی یہ نہیں معلوم کہ قُدرت کے نظام میں قسمت اور موقع کی بے ترتیبی کے ازلی کھیل میں یہ بچہ بعض دفعہ بچ بھی جاتا ہے۔ کوئی نہ کوئی ماں یا باپ یا ایدھی اُسے کوُڑے کے ڈھیر سے اُٹھا کر سینے سے لگا کر گھر لے جاتا ہے۔ مُجھے ابھی یہ نہیں معلوم کہ کائنات کے بہت سارےپُر اسرار رازوں کا ایسی ظاہری بے ترتیبی سے کیا رِشتہ ہے اور اِن رِشتوں کا ہماری زِندگی میں آنے والے دوسرے لوگوں کی زِندگیوں سے کیا تعلق ہے۔ میَں نے ابھی سائنس ، فزکس اور کوانٹم مکینکس نہیں پڑھی۔ ابھی مادی حقیقت کے ظاہر اور باطن کا فرق نہیں سیکھا۔ ابھی اِنسانی فطرت کے اُتار چڑھاؤ کی حقیقت میری پُہنچ سے بُہت دوُر ہے۔
مجھے ابھی نہیں معلوم کہ میری بساط اور مرضی سے باہر میرا ایک اقلیتی گھرانے میں پیدا ہونا بھی ایک دن میرے خلاف اسی طرح استعمال کیا جائے گا۔ میرے ساتھ بھی حرامی بچے جیسا سلوک کیا جائے گا۔ اخباروں میں ضمیر فروش صحافیوں کے ہاتھوں میرے خلاف بہُتان لگا کر میری عزت کو تار تار کر کےمجھے بھی حرامی قرار دے کر ننگ دھڑنگ حالت میں کوُڑے کے ڈھیر پر پھینک دیا جائے گا۔ مجھے نہیں معلوم کہ معاشرے سے ڈر کرمیری مدد نہ کرنے والے اونچی اونچی حیثیت پر فائز اربابِ اقتدار اور وفاقی محتسب کو اپنی کرسی زیادہ پیاری ہو گی اور خدا کا ڈر کم۔
مجھے ابھی نہیں معلوم کہ حکومتی اداروں کے جو سَربراہ کوُڑے کے ڈھیر پر مجھے ننگ دھڑنگ دیکھ کر اپنی بدنامی کے خوف سے نظر اندازکر سکتے ہیں وہ بزدل افسران میرے ملک کے دفاع کی ذمہ داری بخوبی نبھانے کا عہد کرنے کی جُرأت کیسےکر ینگے؟
کیسے دریا کی حفاظت ترے ذمے ٹھہراؤں
تجھ سے اک آنکھ اگر نم نہیں رکھی جاتی
مجھے ابھی نہیں معلوم کہ کوڑے کے ڈھیر پر ننگ دھڑنگ لیٹے میری چیخ و پکاُر سُننے والا کوئی مکمل اجنبی ہو گا۔ کہ مجھےاُٹھا کر سینے سے لگا کر گھر لے جانے والے کو میرے پیدائشی مسلک، میری حیثیت، میری قوم یا ذات سے نہیں صرف اِنصاف اور انسانیت سے غرض ہو گی۔ وہ میری ماں بنے گا۔ وہ میرا باپ بنے گا۔ وہ ابراہیم بن کر آتش کو سرد کرے گا۔ وہ صحیح اِنسان ہو گا۔ وہ خدا کی طرف سے بھیجا ہوا سُلْطَانًا نَصِيرًا ہو گا۔ باقی سب کسی اور قسِم کی مخلوق ہونگے۔
لیکن اس وقت تکلیف سے میرا کان ایک جاپانی ڈھول کی طرح بج رہا ہے۔ میری آنکھوں پر پٹی بندھی ہے۔ مجھے حرامی کہہ کر مجھے اخلاقی جرأت دکھانے کا چیلنج دینے والے ، مجھے اور میرے انجینئرز کو غیر قانونی طریقے سے اغوا کر کے تشدد کرنے والے، میرے ارد گرد کرسیوں پر تشریف فرما میرے اپنے بھائی خود پردہ نشینی اختیار کئے ہوئے ہیں۔ اُن میں خود اتنی اخلاقی جرأت نہیں کہ میری پٹی کھول کر اپنا چہرہ دکھا کر، میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر مجھ سے بات کریں۔ مجھے میرے قصور کا کوئی ثبوت کیوں نہیں دکھاتے؟ اگر انکے پاس کوئی ثبوت نہیں تو مجھ سے میری بے گناہی کا ثبوت کیوں مانگ رہے ہیں؟ وہ تو خود خوفزدہ ہیں۔ اُنہیں کس نے خوفزدہ کیا ہے؟ کیا میَں ایک مچھر ہوں جو کسی نمرود کی ناک میں بھنبھنایا ہے؟ اور وہ نمرود کون ہے جس نے میرے بھائیوں کو بھی خوفزدہ کر رکھا ہے؟ میرا نجات دہندہ، میرا ابراہیم کب اس آتش کو سرد کرے گا؟ سُرخ آندھی اور طوفانِ بادوباراں کب آئے گا؟ نمرود کی خدائی کب ختم ہو گی؟ میَں یہ سب سوچ رہا ہوں اور کچرے کے ڈھیر پر ننگ دھڑنگ لیٹا چیخ چلا رہا ہوں، اپنی ماں کو پکار رہا ہوں، زندگی کے ساز کی طرح بج رہا ہوں مگر بے آواز ہوں۔ کشکولِ گدائی کی طرح خالی ہاتھ میری آواز میرے پاس ہی لوٹ آئی ہے۔ پیڑ سو گئے ہیں۔ راستے گَرد میں کھو گئے ہیں۔ زندگی کی ہر کرن اینٹوں سے ٹکرا رہی ہے۔ میرے خواب کانٹوں سے لٹک گئے ہیں۔ پٹی کے پیچھے میری کُھلی آنکھیں پتھرا رہی ہیں۔ ان آنکھوں سے کوئی دیکھ رہا ہے مجھے۔ نام لے کر اپنا کوئی پوچھ رہا ہے مجھے۔ میرا سانس بند ہو رہا ہے۔ میرا مُنہ کھل گیا ہے ۔ بارہ دن سے نہائے بغیر، ننگے فرش پر سوتے مجھے اپنے آپ سے سخت بدبو آ رہی ہے۔ میرے مُردہ جسم کو مکھیوں نے ڈھانپ دیا ہے۔ معاشرے کے جھوٹ اور بہتان کے بدبودار کچرے کے ڈھیر پر چاروں شانے چِت لیٹا میَں اپنے نوکیلے دانت نکوس رہا ہوں۔ میرے بجتے ہوئے کان میں مکھیوں کی طرح بھنبھناتی ایک آواز پڑتی ہے۔ ’’ڈاکٹر دَندیاں کَڈّدا اے!‘‘ اِک کہانی مجھے یاد آئے گی اور میرے ارد گرد بیٹھے راہگیر بھٹک جائیں گے۔
"