ایچ آئی وی کی وجہ ایک بے معنی ترکیب ہے- ایچ آئی وی ایک وائرس کا نام ہے- وہ وائرس اگر کسی وجہ سے انسان کے خون میں داخل ہو جائے تو یہ جسم کے مدافعتی نظام پر حملہ کر دیتا ہے جس وجہ سے جسم میں عام جراثیم یا وائرس کے خلاف مدافعت کی قوت ختم ہو جاتی ہے- اس حالت کو AIDS یا Acquired Immune Deficiency Syndrome کہا جاتا ہے- اس صورت میں معمولی بیماری مثلاً نزلہ زکام وغیرہ بھی جان لیوا ثابت ہو سکتے ہیں- اس وائرس کے خلاف دوا موجود ہے لیکن ابھی بھی بہت مہنگی ہے-
ایچ آئی وی انفیکشن اور ایڈز میں کیا فرق ہے؟
ایچ آئی وی کا میزبان میں موجود ہونا ایچ آئی وی انفیکشن کہلاتا ہے۔
ایچ آئی وی انفیکشن کے سپٹمز کے مراحل درج ذیل ہیں:
1۔ ایکیوٹ ایچ آئی وی انفیکشن
ایچ آئی وی میزبان کے جسم میں داخل ہونے کے بعد تیزی سے اپنی کاپیاں بناتا ہے اور جسم میں ہر جگہ پھیل جاتے ہیں اور زکام جیسی علامات ظاہر ہوتی ہیں یہ علامات انفیکشن کے 3 سے 4 ہفتوں بعد ظاہر ہوتی ہیں اس میں مریض سر درد اور بخار محسوس کرتا ہے۔ یہ ایچ آئی وی انفیکشن کی پہلی اسٹیج ہے۔اس مرحلہ میں خون میں وائرس کافی تعداد میں موجود ہوتے ہیں اور ایسے لوگ یہ وائرس دوسروں میں منتقل کرسکتے ہیں۔
2۔ کرانک ایچ آئی وی انفیکشن
اس مرحلہ میں وائرس اپنی کاپیاں خاموشی سے بناتا رہتا ہے اور اس مرحلہ میں کئی سالوں تک لوگوں میں کوئی علامات ظاہر نہیں ہوتیں۔اسی لئے لوگ انجانے میں یہ وائرس دوسروں میں بھی منتقل کرتے رہتے ہیں۔انفیکشن کا علاج نہ کیا جائے تو یہ وائرس مدافعتی نظام کو خظرناک حد تک نقصان پہنچا چکا ہوتا ہے۔
3۔ ایڈز
اگر میزبان کے جسم میں سی ڈی 4 خلیات 200 Cells / mm3 سے کم ہوجائیں یا میزبان کچھ موقعہ پرست انفیکشن یا کینسر کا شکار ہوتو اُسے ایڈز کا مریض کہاجاتاہے۔اس مرحلہ میں مدافعتی نظام خطرناک حد تک تباہ ہوچکا ہوتا ہے اور مدافعتی نظام معمولی انفیکشن سے بھی لڑنے کے قابل نہیں رہتا۔
کیا ایچ آئی وی کا علاج ممکن ہے؟
علاج
ایچ آئی وی انفیکشن یا ایڈز کا مکمل علاج موجود نہیں لیکن ایسی ادویات ضرور موجود ہیں جو وائرس کی سرگرمیوں کو روک دیتی ہیں اور مریض کئی سالوں تک زندہ رہ سکتے ہیں ۔ایچ آئی وی انفیکشن / ایڈز کے لئے استعمال ہونے والی ادویات کو اے آر ٹی / اینٹی ریٹرو وائرل ڈرگز کہاجاتا ہے۔ان ادویات کے میکانزم کو تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔
ایچ آئی وی انفیکشن / ایڈز کے علاج کے لئے جو ادویات استعمال کی جاتی ہیں وہ وائرس کی لائف سائیکل کے مختلف مراحل کو متاثر کرتی ہیں۔
مرحلہ 1
جب وائرس مدافعتی سیل پر حملہ کرتا ہے تو سی ڈی 4 ریسیپٹر پر اٹیچ ہوجاتا ہے ۔ اس کے بعد سی ڈی 4 سیل کے کو-ریسیپٹر کیساتھ اٹیچ ہونے کی کوشش کرتا ہے۔کو-ریسپٹر یا تو CCR5 ہوگا یا CXCR4
وائرس کو ان کو۔ریسیپٹرز کیساتھ اٹیچ ہونے سے روکنے کے لئے کچھ ادویات موجود ہیں
جو CCR5 یا CXCR4 کو بلاک کردیں گی اور وائرس اٹیچ نہیں ہوسکے گا۔ایسی ادویات سی سی آر فائیو بلاکرز کہلاتی ہیں ۔
نوٹ : کچھ لوگوں میں CCR5 یا CXCR4 بنانے والی جین میں نقص ہوتا ہے اس لئے یہ ریسیپٹرز نارمل نہیں ہوتے ایسے افراد میں یہ وائرس اثرانداز نہیں ہوپاتا کیونکہ وائرس ان ریسیپٹرز کیساتھ اٹیچ نہیں ہوپاتا اس کے علاوہ کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جن میں CCR5 یا CXCR4 بنانے والی جین میں جزوی نقص ہوتا ہے ایسے لوگوں میں یہ انفیکشن پھیلتا توہے لیکن بہت آہستہ آہستہ۔
مرحلہ 2
اگر وائرس CCR5 یا CXCR4 کیساتھ اٹیچ ہوچکا ہے تو وائرس سی ڈی 4 سیل کی ممبرین میں فیوز ہونے کی کوشش کرتا ہے اور فیوز کرنے میں کامیاب ہوجائے تو سیل میں داخل ہوجاتا ہے۔اس مرحلہ کو ناکام بنانے کے لئے بھی کچھ ادویات موجود ہیں۔یہ ادویات وائرس کو سی ڈی 4 سیلز میں داخل نہیں ہونے دیتیں ۔
ایسی ادویات جو وائرس کو میزبان کے مدافعتی سیلز (سی ڈی 4) کی ممبرین میں فیوز ہونے سے روکتی ہیں ایسی ادویات کو Fusion Inhibitors کہتے ہیں
مرحلہ 3
کاپیاں بنانا
سیل میں داخل ہونے کے بعد وائرس یہاں ڈائریکٹلی پروٹین بنانے کی بجائے آر این اے کو ایک خامرہ (ریورس ٹرانس کرپٹیز) کی مدد سے پہلے ڈی این اے میں کنورٹ کرتا ہے۔یہاں یہ بات ذہن نشین کرنا ضروری ہے کہ جو بھی ڈی این اے کی کاپی بن رہی ہے یا جو بھی نیوکلیوٹائڈز کی چین بن رہی ہے اس کے ساتھ ہائڈروکسل یونٹ بھی ضرور موجود ہوگا جس کے ساتھ نیوکلیوٹائڈز جڑتے جائیں گے۔اس مرحلہ کو ناکام بنانے کے لئے بھی کچھ ایسی ادویات ہیں جن میں موجود مالیکیولز اس چین کے کچھ اجزاء کیساتھ مماثلت رکھتے ہیں اس لئے وائرس ان مالیکیولز کو اپنا سمجھ کر اپنی چین میں جوڑ لیتا ہے لیکن ان مالیکیولز میں چونکہ ہائڈروکسل یونٹ موجود نہیں ہوتا اس لئے یہ چین مکمل نہیں ہوپاتی اور کاپی بنانے کا عمل مزید جاری نہیں رہتا اور یہ مرحلہ یہیں اختتام پذیر ہوجاتا ہے۔ایسی ادویات کو نیوکلیوٹائڈز یا نیوکلیو سائڈز ریورس ٹرانس کرپٹیز ان ہیبی ٹرز کہتے ہیں۔
مرحلہ 4
اس مرحلہ میں وائرل ڈی این اے میزبان کے ڈی این کیساتھ جڑجاتا ہے اس مرحلہ میں ایک اور خامرہ (Integrase)فعالہوجات¬اہے جو وائرل ڈی این اے کو میزبان کے ڈی این اے کیساتھ جوڑ دیتاہے۔ایسی ادویات کو Integrase Inhibitors کہتے ہیں۔وائرس اس وقت تک نیا وائرس نہیں بناپاتا جب تک وہ اپنا ڈی این اے میزبان کے ڈی این کیساتھ نہ جوڑ دے۔اس مرحلہ کو روکنے کےلئے متذکرہ بالا ادویات کا استعمال کیا جاتا ہے اگر یہ مرحلہ مکمل ہوجائے تو یہ ہمیشہ کے لئے میزبان کے ڈی این اے کا حصہ بن جائے گا ہمارے پاس اس وقت ایسی کوئی دوا نہیں جو اس وائرل ڈی این اے کو میزبان کے ڈی این اے سے الگ کرسکے۔اسی وجہ سے جو شخص ایک بار ایچ آئی وی پازیٹو ہوگیا وہ مرتے وقت تک ایچ آئی وی پازیٹو ہی رہے گا۔
کیا ایڈز زدہ مریض کا گلاس وغیرہ کے استعمال کرنےسے بھی ٹرانسفر ہوتا ہے؟
جی نہیں ایچ آئی وی محض برتن شیئر کرنے سے نہیں پھیلتا۔ایڈز اگر معدہ میں داخل ہو بھی جاۓ تو وہاں موجود تیزابی مادے اس کو خون کا حصہ بننے سے پہلے ہی ختم کر دیں گے، تھوک میں بھی ایڈز نہیں ہوتا۔ ایڈز یا ایچ آئی وی کھلی ہوا میں فوری ختم ہو جاتا ہے اور کسی سرنج سے صرف اس لیے جسم میں داخل ہو سکتا ہے کیوں کہ سرنج کی بناوٹ یا اس کا سسٹم کھلی ہوا یا آکسیجن کو اندر جانے سے روکتا ہے ۔۔۔ ایڈزکسی ریزر یا بلیڈ سے نہیں پھیلتا کیوں کہ وہ کھلی ہوا میں ہوتے ہیں بلکہ استعمال شدہ ریزر یا سرنج سے زیادہ خطرہ ہیپاٹایٹس پھیلنے کا ہوتا ہے جس کا متاثرہ خون کسی جاندار کے جسم سے نکل کر بھی کھلی ہوا میں تین سے چار دن تک اثر رکھتا ہے۔۔۔ ایڈز کے متاثرہ شخص کے خون اور ہر قسم کی جنسی رطوبت میں ایڈز ہوتا ہے لیکن ایڈز کے متاثرہ شخص کے ساتھ جنسی عمل سے اس لیے ایڈز پھیل سکتا ہے کیوں کہ کنڈوم وغیرہ کے بغیر یہ جنسی رطوبت کھلی ہوا کے بغیر دوسرے تک پہنچ جائے گی۔
“