(Last Updated On: )
کوئی لفظ خواہ وہ کسی بھی زبان سے تعلق رکھتا ہو، جب اپنے معنی کا اظہار کرتا ہے،تو اس معنی کے ذریعے ، جو در حقیقت صدیوں کی تاریخ پر مبنی ہوتا ہے ،وہ متکلمین کی ثقافت کوبھی ظاہر کرتا ہے۔با الفاظِ دیگر کسی بھی زبان میں اس کے بولنے والوں کی تہذیب اور تاریخ پنہاں ہوتی ہے ،جو الفاظ کے معانی کے ساتھ ساتھ ظاہر ہوتی چلی جاتی ہے۔غالباً اسی لیے لغات میں بھی ، ان کی نوعیت کے مطابق، کسی لفظ سے متعلق تمام ضروری معلومات کے اندراج کے وقت لسانی ماخذات اور اشتقاقات کو بھی مد نظر رکھا جاتا ہے۔ تاکہ نہ صرف لفظ کی اصل بل کہ اس کا اور اس کےمعنی کا عہد بہ عہد ارتقا بھی محفوظ کیا جا سکے۔اسے لغت نویسی کا لازمی جزو قرار دیا جا تا ہے اور اس کے بغیر ترتیب دی جانے والی لغات نا مکمل تصور کی جاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دیگر زبانوں کے ساتھ ساتھ اب اردو لغت نویسی میں بھی لسانی مآخذ اور اشتقاق سے متعلق معلومات کا اہتمام کیا جاتا ہے ۔ لیکن چو ں کہ زیر نظر مقالے کا مقصد اردو لغت بورڈ ،کراچی کی بائیس جلدوں پر مشتمل لغت اردو لغت (تاریخی اصول پر)(۱۹۷۷ء۔۲۰۱۰)میں لسانی مآخذ اور اشتقاق کا جائزہ لیناہے ، اس لیے ذیل کی سطور میں صرف اسی سے بحث کی جائے گی۔
عام طور پر اردو لغات میں کسی لفظ کے لسانی ماخذ یا اشتقاق سے متعلق معلومات لیما(Lemma) یعنی راس لفظ کے ساتھ ہی درج کر دی جاتی ہیں ، لیکن اردو لغت(تاریخی اصول پر)میں روایت سے انحراف کرتے ہوئےایک لفظ کی بابت تمام تر معلومات کی فراہمی کے بعد اس کی اصل اور اشتقاق عمودی بریکٹ( [] ) میں درج کیا گیا ہے ۔ تاہم ضرب الامثال،محاورات ،فقرات اور مرکب افعال کے اشتقاقات اور لسانی ماخذات کی نشان دہی سے احتراز کیا گیا ہے۔
لفظ کی اشتقاقی معلومات کا انحصار لغت میں اس کے لیے مخصوص جگہ پر بھی ہوتا ہے۔چوں کہ اردولغت (تاریخی اصول پر) ایک تاریخی لغت ہے اس لیے اس میں معانی اور مختلف ادوار سے اسناد کی فراہمی پر زیادہ زور دیا گیا ہے۔ لغت میں ناگزیر اشتقاقی معلومات درج کی گئی ہیں ۔ ا ن میں پہلے لفظ کی اصل ظاہر کی گئی ہے اور اس کے بعد اس سے متعلق انتہائی ضروری اضافی معلومات مہیا کی گئی ہیں ۔ تاہم یہ اہتمام ضرور کیا گیا ہے کہ ہر لفظ کو پرکھے بغیر ہی اردو نہ ٹھہرایا جائے بل کہ لفظ کو اس کی اصل زبان سے منسوب کر کے اس میں معنوی یا دیگر تبدیلیوں کی وضاحت کی جائے۔
لغت میں لفظ کی اصل کے اظہار کے لیے مختلف زبانوں کے جو اختصارات و اشارات وضع کیے گئے ہیں ان کی تفصیل یہ ہے:
س سنسکرت
سندھ سندھی
ع عربی
عبر عبریہ(عبرانی)
ف فارسی
کش کشمیری
گ گجراتی
لاط لاطینی
فر فرانسیسی
انگ انگریزی
اوستا اوستائی
بنگ بنگالی
پ پراکرت
پا پالی
پر پرتگالی
یو یونانی
پش پشتو
پن پنجابی
پہلو پہلوی
ت ترکی
ان کے علاوہ ’جاپانی‘،’بھوج پوری ‘اور ’نبطی‘(عجمی) الفاظ بھی مندرج ہیں، جن کے اختصارات وضع کرنے کے بجاے زبان کا مکمل نام تحریر کیا گیا ہے۔ مصدر،حاصل مصدر،اسم کیفیت،حالیہ تمام،حالیہ نا تمام،جمع الجمع اور موضوع کی اصطلاحات بھی اشتقاقی تفصیل کے لیے استعمال کی گئی ہیں۔ایسے الفاظ جو دوسری زبانوں سے مستعار لیکن مفرد ہیں، ان کی اصل بتائی گئی ہے جب کہ مرکبات کا تجزیہ کیا گیا ہے۔اگر کسی لفظ کے اصل یا اشتقاق میں کوئی اختلاف ہے تو اس کی مختصر وضاحت بھی لغت میں شامل کی گئی ہے۔لفظ کے ماخذ کے بیان میں اس کی لفظی اور معنوی حیثیت کی وضاحت کی گئی ہے ۔ فارسی الفاظ کی اشتقاقی تفصیل میں فارسی مصادر تک کی وضاحت کی گئی ہے، جس سے قیاس کیا جا سکتا ہے کہ لغت میں کسی بھی لفظ کی اصل تک پہنچنے کے لیے حتی الامکان کوشش کی گئی ہےاور مصادر سے الفاظ میں جو تبدیلی رونما ہوئی ہے اس پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے ۔ با الفاظ دیگراردو لغت میں الفاظ میں تصرف کی مختصر ترین تاریخ کی فراہمی کا بھی اہتمام کیا گیا ہے،مثلاً:
راہ بر: [راہ+ف:بر،بردن۔لانا،لے جانا] ۱
مسافر نواز: [مسافر+ف:نواز،نواختن۔نوازنا] ۲
استخواں شناسی: [استخواں+ف:شناس’شناختن‘(=پہچاننا)سے فعل امر+ی،لاحقۂ کیفیت] ۳
لغت میں سنسکرت اور پراکرت اور ہندی الفاظ کے اشتقاق کی وضاحت کرتے ہوئے اسے اردو رسم الخظ کے ساتھ ساتھ دیوناگری رسم الخظ میں بھی تحریر کیا گیا ہے جو ایک اہم اور احسن اقدام ہے ۔تاہم اس اصول کی یکساں طور پر پابندی نظر نہیں آتی۔مثال کے طور پر کہیں ’مٹھا(۱)‘ بمعنی ’پتلا دہی‘ جیسے الفاظ ہیں ،جسے سنسکرت زبان کے دو الفاظ ’منتھن ‘ اور ’مرشٹ+کم‘ سے مشتق قرار دیتے ہوئے دونوں لفظوں کو اردو کے بعد کو دیوناگری رسم الخط میں بھی تحریر کیا گیا ہے؛۴ کہیں’ہنس‘ بمعنی ’لبمی ٹانگوں لمبی گردن پتلی چونچ والا بطخ سے مشابہ ایک سفید آبی پرندہ۔۔۔‘ ۵ اور ’ماکند‘بمعنی ’آم‘۶ ایسے اندراجات کے ساتھ لفظ کی اصل درج کر کے اسے صرف دیوناگری رسم الخظ میں لکھا گیا ہے اور اردو کو نظر انداز کر دیا گیا ہے ؛کہیں دیوناگری لپی کے بغیر تمام تر معلومات اردو رسم الخظ میں دی گئی ہیں:
اوچا: اونچا[س: اُچّ(=اونچا)] ۷
ور خرچ: آمدنی سے زیادہ خرچ کرنے والا[س:ور+خرچ(رک)] ۸
تو کہیں محض لفظ کی اصل کی نشان دہی کو کافی سمجھا گیا ہے،مثلاً:
واس(۲): علامت حاصل مصدر[س] ۹
واتاین: جھروکا،چھوٹی کھڑکی[س] ۱۰
تاہم لغت میں ان تمام انواع واقسام کے اشتقاقات کی وضاحت کے لیے کوئی ایک ہی طریقہ کار مقرر ہونا چاہیے تھا،لیکن ایسا نہیں ہے۔اس کی ایک وجہ اردو لغت بورڈ کے ایک صدر محمد ہادی حسین نے بھی بیان کی ہے ۔ان کے مطابق ہندی نژاد الفاظ کی اشتقاق نگاری کے لیے بورڈ کے پاس سنسکرت کے عالم ناپید تھے ۔آغاز میں ڈاکٹر شہید اللہ کو مشرقی پاکستان سے بلایا گیا ،جو کام شروع کرنے کے کچھ ہی دن بعد ہی بعض ذاتی وجوہات کی بنیاد پر واپس چلے گئے۔ان کے بعد یہ کام ڈاکٹر شوکت سبزواری نے اور سبز واری صاحب کی رحلت کے بعد ڈاکٹر اختر حسین رائے پوری نے سنسکرت سے متعلقہ کام کو آگے بڑھایا،جس کے بعد بورڈ ہی کے ایک مدیر اعلیٰ ڈاکٹر ابو اللیث صدیقی نے تمام کام پر نظر ثانی کرنے کے بعد اس کی تکمیل کی۱۱ اور جلد اول کی اشاعت عمل میں آئی۔ ظاہر ہے کہ اس کے بعد بھی اس کام میں رکاوٹیں آئی ہوں گی اور سنسکرت کے کئی علما نے اس کے بعد بھی اپنا حصہ ڈالا ہوگا ،جن میں ایک اہم نام محترمہ نجم السحر کا بھی ہے کہ بورڈ کی لغت میں ہاتھ سے تحریر کیے گئے سنسکرت ،پراکرت یا ہندی کے اشتقاقات انھی کے تحریر کردہ ہیں ۔ تاہم بورڈ کے صدر محمد ہادی حسین کی درج بالا توجیہ سے لغت کے اس کمزور حصے کے متعلق اطمینان ظاہر نہیں کیا جا سکتا ۔ اتنے بڑے منصوبے کے تحت مدون کی جانے والی لغت کے کام کی بابت سنسکرت کے ماہرین کی خدمات کے حصول کے لیے مزید اور ہر ممکن کوشش کی جانی چاہیے تھی۔
لغت میں جہاں ہندی نژاد الفاظ کے اندراجات کے ضمن میں مختلف طریقہ ہاے کار ملتے ہیں ،وہیں اسی سے ملتی جلتی صورت حال عربی الفاظ کے اشتقاق کے ذیل میں بھی نظر آتی ہے ۔ بورڈ کے اصول کے مطابق عربی الفاظ میں لفظ کی اصل کی نشان دہی کے بعد اس کا مادہ بھی ہلالی بریکٹ میں دیا گیا ہے،مثلاً:
خدشہ: فکر[ع:(خ د ش)] ۱۲
شطاّر: ذہین[ع:(ش ط ر)] ۱۳
لیکن کہیں ’مغرورت‘ بمعنی’زبردستی لیا ہوا‘ جیسے اندراجات کے ذیل میں لفظ کی اصل کی نشان دہی کے بعد اس کے مادے کے اندراج کی جگہ خالی چھوڑ دی گئی ہے۔۱۴ تو کہیں لسانی ماخذ کے لیے مقرر کردہ عربی زبان کی علامت ’ع‘ کے بعد مادے کا اندراج ہی نہیں کیا گیا۔ حالاں کہ ان میں سے کئی الفاظ اس قدرعام فہم الفاظ ہیں کہ ان کے مادےمعلوم کرنے کے لیے زیادہ تردد کی بھی ضرورت نہیں تھی ۔مثال کے طور پر یہ الفاظ دیکھیے:
فواسق: فاسق کی جمع[ع] ۱۵
لطف: مہربانی،کرم[ع] ۱۶
قطعہ: کسی چیز کا ٹکڑا[ع] ۱۷
لزج: چپکنے والا[ع] ۱۸
فکر: اندیشہ[ع] ۱۹
یہاں اس امر کا اظہار بھی ضروری ہے کہ چوں کہ اب لغت نویسی کے لیے مادے کی ساخت کے ساتھ ساتھ مادے کے معنی کا ہونا بھی ضروری ہے تاکہ معنی کی مکمل تفہیم کو ممکن بنایا جا سکے، اس لیے اردولغت کو بھی جدید اور مزید سائنٹفک بنانے کے لیے ضروری ہے کہ مادوں کے ساتھ ان کے معانی کی فراہمی کا اہتمام بھی کیا جائے۔
مآخذ و اشتقاقات کی فراہمی کے ذیل میں درج بالا مسائل کے علاوہ کئی اور مسائل بھی جا بجا نظر آتے ہیں اور بعض اوقات تو ایسے الفاظ بھی مل جاتے ہیں جنھیں درج تو کر دیا گیا ہے لیکن ان کے لسانی ماخذات کی نشان دہی کے لیے بالکل بھی کوشش نہیں کی گئی بل کہ اس ضمن میں بورڈ کی طرف سے وضع کردہ ایک نیا طریقہ یہ اپنایا گیا کہ جن الفاظ کا اشتقاق معلوم نہیں ہو سکا ان میں سوالیہ کی علامت(؟) لگا کر اپنی ذمہ داریاں پوری کر لی گئیں ،مثلاً:
پالیتی: جاسوس،مخبر[؟]۲۰
پڑوی: ایک قسم کی ایکھ[؟]۲۱
ُٹوکی: وہ کپڑا جو ملکٹ کے اوپر لگایا جاتا ہے[؟]
ٹوکی: تخت[؟]
ٹول: قند[؟]۲۲
جنک: چینی بحری جہاز[؟]۲۳
جوّا: ہاتھ کی پشت کا زیور[؟]۲۴
اگرچہ ایسی صورت حال آغاز کی جلدوں میں پائی جاتی ہے لیکن انھی جلدوں سمیت کچھ اور مقامات پر تو سوالیہ کی بھی ضرورت نہیں سمجھی گئی اور عمداً یا سہواً اشتقاق ہی کو نظر انداز کر دیا گیاہے۔اس بات کے ثبوت کے طور پر ’راؤنڈ‘ بمعنی ’مقابلہ کا ایک دور‘ کا ذکر کیا جا سکتا ہے ،جس کے اشتقاق میں لسانی ماخذ ’انگ:انگریزی‘ کا ذکر کرنے کے بعد 'Round ' کا اندراج ہی نہیں کیا گیا ۲۵یا پھر اس کے لیے’ہم سفر زیست‘ ایسے اندراجات کی مثال دی جا سکتی ہے ،جس کی سند دینے کے بعد اشتقاق دینے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی گئی۔۲۶یہ درست ہے کہ لفظ کی اصل کے بیان میں تمام تر معلومات حاصل نہیں کی جا سکتیں ،اس کے لیے ایک حد تک ہی سعی کی جا سکتی ہے ،لیکن پھر بھی اگر لغت میں ایک لفظ کا اندراج ہے تو اشتقاق نہ سہی لیکن لسانی ماخذ کے لیے ضرور کوشش کی جانی چاہیے۔لغت میں موجود مقامی الفاظ بھی اسی کے ذیل میں آتے ہیں ،جن کے سلسلے میں ان کے مقامی ہونے کی نشان دہی کرنے کے بعد اس خطے یا علاقے کی نشان دہی بھی ضروری تھی جہاں وہ مستعمل ہیں لیکن ان کے لیے کوئی التزام نہیں۔یہاں تک کہ بعض مقامی الفاظ کی توضیح میں ہی ان کے لسانی ماخذ کی توضیح موجود ہے لیکن اس کے باوجود ان سے اغماض برتا گیا ہے ،مثال کے طور ’ڈھ‘ کی تقطیع میں ایک لفظ ’ڈھوڈرکاں‘ بمعنی ’کلاغ،پہاڑی کوا،زاغ سیاہ‘ہے ،جس کی سند میں لکھا ہے:
اس کو پنجابی میں ڈھوڈرکاں کہتے ہیں اور ہندوستان میں پہاڑی کوا(سیر پرند) ۲۷
لیکن اس کے باوجود اسے صرف’ مقامی‘ بتایا گیا ہے ۔جب ’ہو‘(وہ) کو ’بھوجپوری‘،۲۸ اور ’ہوٹا‘(لہر) ۲۹اور ’واہی‘(کاشت کاری) ۳۰ کی اصل کو ’پنجابی‘ قرار دیا جا سکتا ہے تو ’ڈھوڈرکاں‘ کو بھی مقامی کے بجاے پنجابی لکھنا بہتر ہے۔
اردولغت میں بعض اندراجات ایسے بھی ہیں ،جن کے اشتقاق تو مہیا کیے گئے ہیں لیکن ان میں بدیہی اغلاط پائی جاتی ہیں۔مثلاً انگریزی لفظ ’فینٹسی‘ کا اندراج 'Pantasy'دیا گیا ہے ۳۱جو یا تو ''Fantasyیا پھر'Phantasie /Fantasie'ہونا چاہیے تھا؛’گٹار‘ کا اشتقاقGutterاور ’گٹر‘ کا اشتقاقGuitarتحریر کر کے دو یکسر مختلف الفاظ کوآپس میں خلط ملط کر دیا گیا ہے؛۳۲’واچ واچ‘ بمعنی ’واہ ،واہ‘کو ’حکایت الصوت‘ بنا دیا گیا ہے۳۳جب کہ ’یسرت‘کا لسانی ماخذ ’[ی: (ی س ر)]‘ تحریر کیا گیا ہے، ۳۴ جو اس بنا پر غلط کہا جا سکتا ہے کہ لغت میں ’ی‘ سے کسی زبان کا اختصار ظاہر نہیں کیا گیا۔یہ عربی لفظ ہے لہٰذا مادے کے اندراج سے پہلے ’ع‘ ہونا چاہیے ۔ذیل میں ایسی ہی مزید اغلاط ملاحظہ کی جا سکتی ہیں:
باباے قوم: [بابا+قوم(رک)] ۳۵
نستعلیق کمپوزنگ: [انگ:نستعلیق+Compsing] ۳۶
شرافت پناہ: [شراف+پناہ(رک)] ۳۷
کرنسی آفس: [انگ:Current Office] ۳۸
ملز اونر: [ انگ:Mills Owners] ۳۹
ہیٹ یونٹ: [انگ:Heat Unite] ۴۰
تاہم کچھ الفاظ ایسے بھی ہیں جن کے ماخذات کی وضاحت میں قیاس آرائیوں سے بھی کام لیا ہے ۔ جس نے لغت میں ابہام کو جنم دیا ہے۔یہ طریقہ قدیم لغات کے لیے تو کسی حد تک قابل قبول تھا لیکن اب جدید لغت نویسی کے اصولوں پر کاربند ایک لغت نویس کو اس کی چھوٹ نہیں دی جا تی بل کہ مبنی بر تحقیق معلومات کی فراہمی کو ہی قابل قدر گردانا جانا ہے ۔ بہ طور ثبوت مختلف النوع اشتقاقات دیکھیے:
اَنڈکی: [غالباً مقامی] ۴۱
بویا: [غالباً: انگ:Buoyسے] ۴۲
پنجیان: [پنجہ(رک)سے؟]۴۳
ٹپّڑ: [رک:ٹپّر؟]۴۴
ڈھوک: [غالباً ڈھکنا ۔چھپانا (رک)سے ماخوذ] ۴۵
کپکپا: [غالباً قمقمہ(رک) کا بگاڑ] ۴۶
لجلجا: [غالباً لسلسلا(رک)کا بگاڑ] ۴۷
ماندرا/ماندری: [غالباً،س: منتری کا بگاڑ] ۴۸
اردولغت(تاریخی اصول پر) میں معنوی وضاحت کی طرح لسانی ماخذ اور اشتقاق کے لیے بھی دیگر اندراجات کی طرف رجوع کروایا گیا ہے۔ تاہم اس میں بھی مسائل موجود ہیں ۔مثلاً ’جَعل‘(بمعنی بنانا،کرنا) کے تحتی اندراجات کےاشتقاق کے سلسلے میں ’جعل‘ کی طرف رجوع کرنے کے لیے کہا گیا ہے لیکن ’جعل‘ کا اشتقاق ہی نہیں۔۴۹’جغرافی میل‘ کے ذیل میں ’[جغرافی+میل(رک)]‘ تحریر کیا گیا ہے ۵۰ لیکن ’جغرافی‘کا اشتقاق بھی مندرج نہیں۔ ’بھ‘ کے ایک مرکب ’بھبھاس گر‘ کے لیے ’بھبھاس‘ کی طرف راہ نمائی کی گئی ہے،جب کہ ’بھبھاس ‘ کی اشتقاقی تفصیل موجود نہیں۵۱ایسے ہی ’اچھی طرح:[اچھی+طرح(رک)]‘ ۵۲ اور ’وہی بات ‘ اور ’وہی بھر‘۵۳کے لسانی ماخذات اور اشتقاقات کے لیے بالترتیب’اچھی‘ اور ’وہی‘ کی طرف رجوع کروایا گیا ہے لیکن ان اندراجات کے ذیل میں بھی کسی قسم کی اشتقاقی معلومات درج نہیں کی گئیں۔چوں کہ لغت نویسی کے اصولوں کے مطابق ہر اندراج کا اشتقاق مکمل صورت میں درج ہونا چاہیے اس لیے اس بابت بھی بورڈ کے اراکین کی توجہ درکار ہے ۔
غرض الفاظ کے لسانی ماخذات اور اشتقاقات کے حوالے سے اردولغت(تاریخی اصول پر)میں پائے جانے والے تاریخی حقائق کا تجزیہ کرنے کے بعد یہ کہا جا سکتا ہے کہ اردو لغت میں لغات کی تدوین کے تاریخی اصولوں کو مد نظر رکھتے ہوئے اردو لغت نویسی کے جدید اور سائنسی طریقہ ٔ کار کو فروغ دینے کی ہر ممکن سعی کی گئی ہے اور تقریباً ہر لفظ کی اصل و اشتقاق تک پہنچنے میں کڑی محنت کا ثبوت دیا گیا ہے۔اگرچہ کئی مقامات پر ان کی عدم فراہمی یا ادھوری اشتقاقی تفاصیل جیسی کوتاہیاں سامنے آئی ہیں، جو لغت کے معیار و مرتبے کو نقصان پہنچانے کا باعث بھی بنی ہیں، لیکن اس کے باوجود ان کی بنا پر بائیس(۲۲) جلدوں میں موجود لاکھوں الفاظ کی اصل و اشتقاق سے متعلق معلومات کی دست یابی نیز ان کی جمع آوری کے سلسلے میں کی جانے والی عرق ریزی اور جگر کاوی کو ہر گز نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے کیوں کہ اس سے قبل اردو کی کسی بھی دوسری لغت میں الفاظ کےاشتقاقی اورتاریخی حقائق کی بابت اس قدر وقیع سرمایہ موجود نہیں۔مزید برآں ابھی لغت کی مزید اشاعتیں منظر عام پر نہیں آئیں اور نہ یہ پہلی اشاعت حرف آخر کہی جا سکتی ہے۔چوں کہ وقت کے ساتھ ساتھ ہی بہتری کی طرف قدم بڑھایا جا سکتا ہے لہٰذا اگر لغت کی آئندہ اشاعتوں میں درج بالا تمام مسائل پر سنجیدگی سے غور کیا جائے تو مذکورہ بالا نوعیت کے تمام تر تسامحات کو دور نہ بھی کیا جا سکے تو کم از کم ان میں کسی حد تک کمی ضرور لائی جا سکتی ہے۔
حواشی اور حوالہ جات:
۱۔ اردولغت(تاریخی اصول پر)،جلد دہم( کراچی: اردو لغت بورڈ،۱۹۸۹ء)،ص ۴۵۴۔
۲۔ ایضاً،جلد ہفت دہم(کراچی: اردو لغت بورڈ،۲۰۰۰ء)،ص ۹۶۳۔
۳۔ ایضاً،جلد اول(کراچی:ترقیٔ اردو بورڈ،۱۹۷۷ء)،ص ۴۴۳۔
۴۔ ایضاً،جلد ہفت دہم،ص ۴۱۲۔
۵۔ ایضاً،جلد بیست و دوم(کراچی: اردو لغت بورڈ،۲۰۱۰ء)،ص ۲۲۳۔
۶۔ ایضاً،جلد ہفت دہم،ص ۱۸۵۔
۷۔ ایضاً،جلد اول ،ص ۱۰۲۸۔
۸۔ ایضاً،جلد بیست و یکم(کراچی: اردو لغت بورڈ،۲۰۰۷ء)،ص۱۹۲۔
۹۔ ایضاً ،ص ۵۷۔
۱۰۔ ایضاً ،ص ۲۰۔
۱۱۔ محمد ہادی حسین،’’تعارف‘‘ مشمولہ اردو لغت(تاریخی اصول پر)،جلد اول،صفحہ ب۔
۱۲۔ اردولغت(تاریخی اصول پر)،جلد ہشتم(کراچی: اردو لغت بورڈ،۱۹۸۷ء)،ص ۴۹۵۔
۱۳۔ ایضاً،جلد دو از دہم(کراچی: اردو لغت بورڈ،۱۹۹۱ء)،ص ۵۹۰۔
۱۴۔ ایضاً،جلد ہژدہم(کراچی: اردو لغت بورڈ،۲۰۰۲ء)،ص ۳۷۸۔
۱۵۔ ایضاً،جلد چہار دہم(کراچی: اردو لغت بورڈ،۱۹۹۲ء)،ص ۳۴۔
نوٹ: لفظ ’فواسق ‘ کا مادہ (ف س ق) ہے۔
۱۶۔ ایضاً،جلد شانز دہم(کراچی: اردو لغت بورڈ،۱۹۹۴ء)،ص ۷۹۶۔
نوٹ: لفظ’لطف‘ کا مادہ ( ل ط ف) ہے۔
۱۷۔ ایضاً،جلد چہار دہم،ص ۲۹۰۔۲۹۱۔
نوٹ: لفظ’قطعہ‘ کا مادہ (ق ط ع) ہے۔
۱۸۔ ایضاً،جلد شانز دہم،ص ۷۸۳۔
نوٹ: لفظ ’لزج‘ کا مادہ (ل ز ج) ہے۔
۱۹۔ ایضاً،جلد سیز دہم(کراچی: اردو لغت بورڈ،۱۹۹۱ء)،ص ۹۸۸۔۹۸۹۔
نوٹ: لفظ’فکر‘ کا مادہ ( ف ک ر) ہے۔
۲۰۔ ایضاً،جلد سوم(کراچی: اردو لغت بورڈ،۱۹۸۱ء)،ص ۴۵۱۔
۲۱۔ ایضاً،جلد چہارم(کراچی: اردو لغت بورڈ،۱۹۸۲ء)،ص ۱۷۔
۲۲۔ ایضاً،جلد ششم(کراچی:اردو لغت بورڈ،۱۹۸۴ء)،ص ۱۶۳۔
۲۳۔ ایضاً ،ص۸۱۸۔
۲۴۔ ایضاً ،ص ۸۶۳۔
۲۵۔ ایضاً،جلد دہم(کراچی: اردو لغت بورڈ،۱۹۸۹ء)،ص ۴۸۱۔
۲۶۔ ایضاً،جلد بیست و دوم،ص۱۲۷۔
۲۷۔ ایضاً،جلد دہم،ص ۲۴۸۔
۲۸۔ ایضاً،جلد بیست و دوم،ص۲۸۰۔
۲۹۔ ایضاً ،ص۳۵۵۔
۳۰۔ ایضاً،جلد بیست و یکم،ص ۱۱۴۔
۳۱۔ ایضاً،جلد چہار دہم،ص ۷۹۔
۳۲۔ ایضاً،جلد پانز دہم(کراچی: اردو لغت بورڈ،۱۹۹۳ء)،ص ۸۷۴۔۸۷۵۔
۳۳۔ ایضاً،جلد بیست و یکم،ص ۳۲۔
۳۴۔ ایضاً،جلد بیست و دوم،ص ۵۹۹۔
۳۵۔ ایضاً،جلد دوم(کراچی: ترقیٔ اردو بورڈ،۱۹۷۹ء)،ص ۵۰۹۔
۳۶۔ ایضاً،جلد نوز دہم(کراچی: اردو لغت بورڈ،۲۰۰۳ء)،ص ۹۲۵۔
۳۷۔ ایضاً،جلد دو از دہم،ص ۵۳۷۔
۳۸۔ ایضاً،جلد چہار دہم،ص ۸۴۶۔
۳۹۔ ایضاً،جلد ہژدہم،ص ۶۳۳۔
۴۰۔ ایضاً،جلد بیست و دوم،ص ۴۴۷۔
۴۱۔ ایضاً،جلد اول ،ص ۹۴۱۔
۴۲۔ ایضاً،جلد دوم،ص۱۴۲۸۔
۴۳۔ ایضاً،جلد چہارم،ص۲۱۲۔
۴۴۔ ایضاً،جلد ششم،ص۴۵۔
۴۵۔ ایضاً،جلد دہم،ص ۲۴۹۔
۴۶۔ ایضاً،جلد چہار دہم،ص ۶۵۴۔
۴۷۔ ایضاً،جلد شانز دہم،ص ۷۳۳۔۷۳۴۔
۴۸۔ ایضاً،جلد ہفت دہم،ص۲۲۴۔
۴۹۔ ایضاً،جلد ششم،ص ۶۳۳۔۶۳۴۔
۵۰۔ ایضاً ،ص ۶۳۵۔
۵۱۔ ایضاً،جلد سوم،ص ۶۵۔
۵۲۔ ایضاً،جلد اول ،ص ۲۳۵۔۲۳۶۔
۵۳۔ ایضاً،جلد بیست و یکم،ص ۴۱۴۔۴۱۵۔
مآخذ:
اردولغت(تاریخی اصول پر)۔جلد اول۔کراچی:ترقیٔ اردو بورڈ،۱۹۷۷ء۔
ایضاً ۔جلد دوم۔کراچی: ترقیٔ اردو بورڈ،۱۹۷۹ء۔
ایضاً ۔جلد سوم۔کراچی: اردو لغت بورڈ،۱۹۸۱ء۔
ایضاً ۔جلد چہارم۔کراچی: اردو لغت بورڈ،۱۹۸۲ء۔
ایضاً ۔جلد ششم۔کراچی:اردو لغت بورڈ،۱۹۸۴ء۔
ایضاً ۔جلد ہشتم۔کراچی: اردو لغت بورڈ،۱۹۸۷ء۔
ایضاً ۔جلد دہم۔کراچی: اردو لغت بورڈ،۱۹۸۹ء۔
ایضاً ۔جلد یازدہم۔کراچی: اردو لغت بورڈ،۱۹۹۰ء۔
ایضاً ۔جلد دو ازدہم۔کراچی: اردو لغت بورڈ،۱۹۹۱ء۔
ایضاً ۔جلد سیز دہم۔کراچی: اردو لغت بورڈ،۱۹۹۱ء۔
ایضاً ۔جلد چہار دہم۔کراچی: اردو لغت بورڈ،۱۹۹۲ء۔
ایضاً ۔جلد پانز دہم۔کراچی: اردو لغت بورڈ،۱۹۹۳ء۔
ایضاً ۔جلد شانز دہم۔کراچی: اردو لغت بورڈ،۱۹۹۴ء۔
ایضاً ۔جلد ہفت دہم۔کراچی: اردو لغت بورڈ،۲۰۰۰ء۔
ایضاً ۔جلد ہژدہم۔کراچی: اردو لغت بورڈ،۲۰۰۲ء۔
ایضاً ۔جلد نوز دہم۔کراچی: اردو لغت بورڈ،۲۰۰۳ء۔
ایضاً ۔جلد بیستم۔کراچی: اردو لغت بورڈ،۲۰۰۵ء۔
ایضاً ۔جلد بیست و یکم۔کراچی: اردو لغت بورڈ،۲۰۰۷ء۔
ایضاً ۔جلد بیست و دوم۔کراچی: اردو لغت بورڈ،۲۰۱۰ء۔
“