جانے والے تجھے روئےگا زمانہ برسوں!
لکھنؤ کو علم و ادب کا گہوارہ کہا جاتا ہے۔ اس کی وجہ علمائے کرام اور نوابین اودھ کاوجود تھا۔وہاں قدیم زمانہ سے خاندان اجتہاد کا علمی سکہ چلتا آرہا ہےاور ہر دور میں اس خاندان نے قوم و ملت کو ایسے گہر دیئے ہیں جو وقت کی ضرورت قرار پائے ۔ حکیم امت مولانا سید کلب صادق نقوی نے اسی خاندان اجتہاد میں ۲۲ جون ۱۹۳۹ءآنکھ کھولی ۔ ان کے دادا قدوۃ العلماء مولانا سید آقاحسن اپنے زمانہ کے مجتہدعالم دین تھے ۔ ان کے والد مولانا سید کلب حسین بھی ایک عظیم عالم دین تھے۔ابتدائی تعلیم گھر میں اپنے والد گرامی سے حاصل کی اوراعلیٰ تعلیم کے لیے جامعہ سلطانیہ سلطان المدارس کار خ کیا ۔ وہاں سے صدر الافاضل کی سند حاصل کی ۔ساتھ ہی عصری تعلیم میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے بی اے کیا ۔ اس کے بعد عربی زبان و ادب میں اسی یونیورسٹی سے ایم اے کی سند بھی حاصل کی اوپھر ڈاکٹریٹ کی ڈگری بھی حاصل کرلی۔
چوں کہ ان کا تعلق ایک علمی اور دینی گھرانہ سے تھا، اس لیے ذہنی طور پر وہ بھی دین کی جانب مائل تھے۔ انہوں نے اپنے والدگرامی کے دور میں ہی ذاکری اورخدمت دین کا آغاز کردیا تھا۔ انہوں نےاپنی مجالس میں قرآنی آیات اور احادیث و تاریخ کےساتھ ساتھ عصری مسائل اور سائنس و ٹیکنالوجی کو بھی شامل کرلیااور یوں خود کو دوسروں سے ممتاز کرلیا۔ ان کا یہ طرز بیان نہایت پسند کیا گیا ۔ خاص طور سے بیرون ممالک میں ۔جہاں دین کے ساتھ سائنس کے مسائل کو نہایت دلچسپی سے سناجاتاتھا۔
مولانا کلب صادق صاحب نے ہمیشہ ہی لوگوں کو علم حاصل کرنے اور علمی میدان میں ترقی کرنے کی تاکید کی ہے۔ وہ کہاکرتے تھے کہ خو دبھی تعلیم حاصل کرو اور اپنے بچوں کو بھی بہتر سے بہتر تعلیم دلاؤ۔ کیوں کہ جہالت ہماری سب سے بڑی دشمن ہے۔ اسی لیے انہوں نے اپنے آبائی وطن لکھنؤ میں توحیدالمسلمین ٹرسٹ نامی ادارہ کھولا تاکہ اس تنظیم کے ذریعہ ضرورت مند طالب علموں کی مدد کی جاسکے۔ اس کے علاوہ یونٹی کالج ، یونٹی مشن اسکول اورمدینۃ العلوم وغیرہ بھی قائم کیا۔
انہوں نے اپنے بیان میں اتحاد بین المسلمین پر ہمیشہ زور دیاہے ۔ وہ کہا کرتے تھےکہ یہ جہالت ہے جو ہمیں لڑاتی ہے۔ ورنہ نہ تو شیعہ ۔سنی کا دشمن ہے اور نہ ہی سنی۔ شیعہ کا ۔ وہ وقت کو بہت اہمیت دیتے تھے ۔ مجالس اور دیگر پروگرامز کو بالکل اپنے وقت پر شروع کردیتے۔ چاہے سامعین کی تعداد کم ہی کیوں نہ ہو۔اسی طرح سماج میں ناسور بنی رسم جہیز اور شادی بیاہ میں آرائش و زینت کے بھی مخالف تھے۔
اپنے برادر بزرگ مولانا سید کلب عابد صاحب کے۱۹۸۶ءمیں انتقال کے بعد آل انڈیامسلم پرسنل لاء بورڈ کے نائب صدر منتخب ہوگئےاور عمر کے آخری لمحات تک مسلمانوں کے مسائل کو حل فرماتے رہے۔ لکھنؤ کی عزاداری کے سلسلے میں بھی کوشاں رہے۔وقف کی حفاظت کے سلسلے میں بھی کامیاب اقدام بھی کئے۔اس کےعلاوہ ایراز میڈیکل کالج بھی ان کی خدمات کا نمایاں حصہ ہے۔
مولانا کلب صادق صاحب ایک زمانہ سے بیمار تھے اور ان کو ایرا ز میڈیکل میں ایڈمٹ کرایا گیا تھا ۔ وہاں ان کا علاج ہورہا تھالیکن یہ بھی ایک کڑوا سچ ہے ۔ جویہاں آیا ہے ، اسے جانا ہے ۔ اللہ کی مرضی کے آگے کس کا بس چلا ہے۔ ہم اسی کی طرف سے آئے ہیں اور پھر اسی کی جانب جانا ہے۔افسوس…! حکیم امت ۸ ربیع الثانی ۱۴۴۲ مطابق ۲۴ نومبر ۲۰۲۰ کو ہم سے جدا ہو گئے۔
“