جب سے کورونا کا پھیلاؤ شروع ہوا ہے ۔ سوشل میڈیا پر’ بل گیٹس‘ کا نام بہت زیادہ تیزی سے گردش کررہا ہے۔اردو ۔ہندی زبان میںتو کم لیکن انگلش زبان میں یہ نام کافی شہرت بٹور چکا ہے۔بی بی سی نے yougov.comنامی ویب سائٹ کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ ۲۸ ؍فی صد امریکن نوجوان کے ذہن میں یہ بات موجو د ہے کہ’ بل گیٹس کورونا منفی کے سرٹیفکیٹ کے لیے چپ (Chip)کا استعمال کرے گا۔ ‘پس پردہ نظریات کا کہنا ہے کہ ہمارے ہاتھ میں ایک چپ لگائی جائے گی جس کے ذریعہ یہ ثابت ہوسکے گا کہ ہم کورونا مریض ہیں یا نہیں ۔ جب یہ نظریہ عروج پر پہنچا تو بل گیٹس نے واضح طور پرایسا کرنے سے منع کردیا حالانکہ اب بھی کچھ لوگوں کا ماننا ہے کہ چِپ کا ہمارے ہاتھ میں لگایاجانا ضروری ہے۔ دیر چاہے سویر ۔ کورونا کی خاطر ہو یا دیگر مقاصد کے لیے۔ اس کی وجہ ہماری آسانیوں کو بتایا جارہا ہے۔ اس کے ذریعہ ہم خریداری کرسکیں گے اور کہیں بھی کسی شناخت کی ضرورت پیش نہیں آئے گی۔ جیسے ہی ہاتھ پر بار کوڈ مشین دکھائی ، ساری حیثیت اسکرین نمایاں ہوجائے گی۔ یہ ہوئی مثبت بات مگر کچھ لوگوں نے اسے منفی نظریات اور غلامی کے تصور سے بھی جوڑا ہے۔ان کا ماننا ہے کہ اس چِپ کے ذریعہ ہم ایک خاص گروہ کی نگرانی میں ہوں گے ۔ اگر ان کے خلاف کوئی اقدام کیا تو ہمارے سارے کاروبار حیات ایک کلک پر بند ہوجائیں گے اورجیتے جی گویامر جائیں گے۔ بہرکیف، اس طرح کی باتیں ہر گزرتے دن کے ساتھ زور پکڑتی جارہی ہیں ۔
اس کے ماسوا سوشل میڈیا پر گیٹس کے ماضی میںدیئےگئے بیانات کے سبب اسے ٹرول کیا جارہا ہے۔ دراصل مسئلہ یہ ہے کہ اس نے’ ٹیڈ ٹاک‘ پر ویکسن اور آبادی کم کرنے کے تعلق سے بہت سے باتیں کی ہیں۔ ویکسن بنانے کی بات تو ایک زمانہ سے چل رہی ہے۔ اسی طرح ایک عالمی وبا کی بھی۔ساتھ ہی آبادی کم کرنے کی بھی۔ اگر ہم ان تینوں کو یکجا کرتے ہیں تو اسے کورونا کی شکل میں دیکھتے ہیں۔ اس لیے لوگوں نے اس بیماری کے پھیل جانے پر مائیکروسافٹ کے کو فاؤنڈر پر نشانہ سادھا ہے۔ اس نے ۲۰۱۰ء میں ایسی ہی باتیں کی تھیں۔ اس کے علاوہ بھی کئی حضرات کی زبان پر آبادی کم کرنے کی باتیں چلتی رہتی ہیں۔
آبادی کم کرنے کا پس منظر یہ ہے کہ ایک گروہ کا ماننا ہے کہ اس وقت دنیا کی آبادی کہیں زیادہ بڑھ گئی ہے ، سو قدرتی وسائل ناکافی ہورہے ہیں۔ اس لیے آبادی کم کرنے کی پالیسی اپنا نانہایت ضروری ہوا جاتاہے۔ خود بل گیٹس کا کہنا ہے کہ ’ہم ویکسن کے ذریعہ غربت اور طفلانہ موت کی شرح کم کریں گے۔ چوں کہ یہ دونوں چیزیں زیادہ اولاد کے جنم دینے کا باعث ہیں۔ جب انسان غریب ہوتا ہے تو اسے فکرلاحق ہوتی ہے کہ اگر ایک بچہ نالائق نکل گیا اور زندگی کے سفر میں تنہا چھوڑ گیا تو کم از کم دوسرے سے تو توقع کی گنجائش رہ جائےگی۔ اسی طرح جب بچپن کے عالم میں موت کی شرح کم ہوجائے گی تو والدین خودبخودکم اولاد کی پیدائش پر راضی ہوجائیں گے۔‘
مذکورہ نظریہ کو بل گیٹس نے اپنی بیان میں جگہ دی تھی لیکن تاحال دونوںنظریات پرکوئی کام شروع نہیں ہوا ہے۔ ہاں ! آبادی کم کرنے کی دیگر راہیں فعال ہیں۔ ایجنڈا ۔۲۰۳۰ اس کی ایک شاخ ہے۔ یہ ۱۹۹۲ء میں منعقدایک کانفرنس کا حصہ ہے جس کا نام ایجنڈا ۔۲۱ تھا مگر جب یہ ناکام رہا تو اسے ایجنڈا۔ ۲۰۳۰ میں تبدیل کردیا گیا ۔پہلی نگاہ میں اس میں ساری باتیں مثبت نظر آئیں گی مگر در حقیقت اس کا نتیجہ منفی ہے۔
بہرحال ، اس وقت کورونا نے پورے عالم کو اپنے قبضہ میں لے لیا ہے۔ لاکھوں لوگوں لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ اس کے سامنے ساری بیماریاں ہیچ نظر آتی ہیںجبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔بہت سے رپورٹ سہارادیتی ہیں کہ مرس ، ایبولا، ایڈس، ہیپاٹائی ٹیزاورانفلوئنزا، یہ سب کورونا سے زیادہ قاتل بیماریاں تھیںلیکن اس وقت اتنا شور نہیں تھااور نہ ہی کاروبار حیات پر تالے لٹکے ہوئے تھے۔ہاں!مگر فی الحال صورت حال تو یہ ہے کہ سارے اسپتال اور ڈاکٹر ز صرف کورونا کی مالا جپ رہے ہیں ۔ اگرکسی کودیگر امراض لاحق ہوجاتے ہیں تواسپتال میں جگہ ندارد۔ وہ یوں ہی اللہ کو پیار ا ہوجا تاہے۔عجیب مرض ہے ، آٹھ ماہ سے زائد کاعرصہ گزر چکا ہے ، ابھی تک اس کی تشخیص کا کوئی معیار معین نہیں ہوا ہے اور نہ ہی دواآئی ہے۔ اس لیے اب لوگوںکے ذہن میں جہاںخوف بیٹھ گیا ہے وہیںلوگ کی چھٹی حس بھی جاگ گئی ہے کہ معاملہ کچھ اور ہی ہے ۔ لوگ طرح طرح کی باتیں کررہے ہیں ۔ کوئی اسے ’نیوورلڈ آرڈر‘ سے جوڑرہا ہے تو کوئی اسے آبادی کم کرنے اور ذہنی غلام بنانے سے۔
اتنی بات تو واضح ہے کہ اس بیماری نے کروڑوں لوگوں کو بے روزگار کردیا ہے۔ غربت کا گراف بہت تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ کنگس کالج، لندن اور آسٹریلین نیشنل یونیورسٹی کی رپورٹ کے مطابق عالمی سطح پر ایک بلین سے زائد لوگ غریب ہوجائیں گے۔اس وقت اتنے برے حالات ہیں جبکہ ابھی دوا نہیں آئی ہے ۔ جب دواآجائے گی تو اس وقت شرح غربت میں مزید اضافہ ہوگا ۔ چوں کہ اس وقت ہر انسان کو جان کے لالہ پڑے ہوںگے اورہر انسان دواکے حصول کی دوڑ میں خود کو کامیاب ہوتا ہوادیکھنا چاہے گا۔اڑتے اڑتے یہ بات بھی پہنچی ہے کہ خود ویکسین میں’ سائڈ ایفکٹ‘ رہے گااورجس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ کورونا سے نجات دلاکر کسی اور مرض میں لا کھڑ اکردے گی۔ بہرکیف، پس پردہ کیا عزائم ہیں ۔ان لوگوں کا کیا ارادہ ہے اور مستقبل میں کیا کچھ ہونے کوہے، سوائے معبود حقیقی کےاس کی تفصیل کوئی نہیں جانتا ۔ ہاں ! اس کے برے اثرات تو پوری دنیا پر نمایاں نظر آرہے ہیں ۔ بس دوا کا انتظار ہے پھردیکھئے ، آگے آگے ہوتا ہے کیا…!
“