بی بی جان کو روکنے ٹوکنے کی بہت بری عادت تھی۔ شاید وہ کسی کی رضا میں راضی ہی نہ تھیں. آج کل کے دور میں جب کوئی اپنے بزرگوں کو نہیں پوچھتا، وہ اتنے آرام اور ٹھاٹ سے اپنے بیٹے کے گھر رہ رہی تھیں. بہوبچے سب ان کی عزت کرتے، ایک علیحدہ ملازمہ انکی خدمت کے لئے تھی۔ بیماری میں علاج، وقت پر دوائیں ، پرہیزی غذا، اور کیا چاہیے ہوتا ہے اس عمر میں؟ لیکن بات تو وہی ہے نا، خوش وہ ہوتا ہے جو ہونا چاہتا ہے. جسے عادت ہو مین میخ نکالنے کی اس کا کوئی کیا کرے.
بیٹے کا اچھا کاروبار تھا، بہو بھی کیرئیر وومن تھی اور وہ بجائے معاشی خوشحالی پر اللہ کا شکر ادا کرنے کے ہر وقت بہو کی نوکری پر کڑھتیں.کبھی گھر کی دیکھ بھال کا مسئلہ اٹھاتیں جو کہ ملازم اور ان کی بڑی پوتی عافیہ کے سر بسہولت چل رہا تھا. عافیہ کون سا چھوٹی بچی تھی. اب کالج میں آگئی تھی. طبعاً بہت ذمہ دار، سمجھدار تھی. گھر کے ہر فرد سے محبت کرنے والی، کچھ عرصے میں شادی بھی ہو جاتی تو اس کا گھر سنبھالنا ایسا کیا انہونا تھا، جو ان کے حلق میں اٹکتا. کبھی بی بی جان کو اور کوئی بہانہ نہ ملتا تو بچوں کی تربیت کو مسئلہ بنا کر بیٹھ جاتیں-
بچے بھی کون، بڑے بھیا، عافیہ، اور پھر بنٹی اور ہنی جو دونوں بھی تیرہ، چودہ کے لگ بھگ تھے. اب ان ٹین ایجرز کو ماں کی گود میں گھسنا خود پسند نہ تھا، ان کے اپنے مشاغل تھے. بچوں کو لیکن بی بی جان کے بر عکس اپنی ماں سے کوئی شکایت نہ تھی. اچھے سے جانتے تھے کہ ماں نے ان کے لئے کتنی قربانی دی ہے. اگر ان کے بچپن میں وہ نوکری چھوڑ کر گھر نہ بیٹھ جاتیں تو آج کہاں ہوتیں. ابھی بھی یہ مقام، یہ سب پیسہ، یہ محنت بچوں کے لئے ہی تھی.
لیکن بی بی جان کا کیا کیا جاتا، روایتی مشرقی عورتوں کی طرح وہ بہو کے نقائص بیان کر کے فارغ ہوتیں، تو ملازمین کی شامت آتی.
صفائی والی ملازمہ رو پڑتی جب بی بی جان فرنیچر ہٹا ہٹا کر کچرا نکلواتیں. کچن میں چلی جاتیں تو ایسے چیک کرتیں کہ کیا ہوٹل میں انسپکشن کمیٹی والے چیک کرتے ہوں گے. انہیں تو روٹی کے سائز سے لے کر، اس کی موٹائی اور تعداد تک میں اعتراض ہوتا. سب ملازم آ آ کر عافیہ کے سامنے دکھڑے روتے. ممی بھی عاجز آ جاتیں . بھروسے کے ملازم ملنا آج کل کونسا آسان ہے. اتنی اتنی تنخواہیں نہ دے رہے ہوتے تو کب کہ چھوڑ کر چلے جاتے. اب نوکر ذات ہے کام میں ڈنڈی تو مارے گی نا.
عافیہ کو پھر بھی ان سے محبت تھی لیکن ان کے ناقدانہ مزاج سے باقی سب بے زار تھے. بنٹی ، ہنی تو خاص کر چڑتے جب وہ ان کےانٹر نیٹ استعمال کرنے پر، دوستوں کے ساتھ آؤٹنگ پر، فلم دیکھنے پر، غرض یہ کہ ہر چیز پر اعتراض کرتیں.
عافیہ بھی لاکھ سمجھاتی کہ " بی بی اب یہ بڑے ہو گئے ہیں۔ انٹر نیٹ پڑھائی کی ضرورت ہے تو تفریح نفسیاتی ضرورت ہے " لیکن وہ باز نہ آتیں.
بنٹی تو کبھی کبھی بہت چڑ کر کہتا " بی بی جان کو چند دن کسی اولڈ ہوم میں گزارنے کی ضرورت ہے. پھر ہی انہیں ہماری قدر آئے گی. "
عافیہ کبھی تو ہنس پڑتی اور کبھی اسے پیار سے سمجھانے کی کوشش کرتی. قصور اس کا بھی نہ تھا، اتنی نکتہ چینی جوان ہوتا خون اپنے ماں باپ کی برداشت نہ کرتا وہ تو پھر دادی تھیں.
عافیہ کو بھی ہمہ وقت ساتھ بٹھائے جانے کیا کیا نصیحتیں کرتی رہتیں. عافیہ کی یہ عادت اچھی تھی کہ بحث نہ کرتی، عمل کرے نہ کرے اس وقت خاموشی سے سن لیتی، تب ہی وہ عافیہ سے بہت خوش تھیں. پھر یوں ہوا کہ جو ذی روح اس دنیا میں آیا ہے اسے واپس تو جانا ہی ہے. تو ایک دن بی بی جان بھی اپنے خالق حقیقی سے جا ملیں. صدمے والی بات تو تھی نہیں ، اتنی عمر ہو گئی تھی جانا تو تھا ہی. سو دو چار دن سب نے رسمی سوگ منایا اور روٹین لائف میں واپس. ویسے بھی کون سا ان کے جانے سے کسی کے کام رک گئے تھے بلکہ ایک لحاظ سے دیکھا جاتا تو سب نے زمانے بعد کھل کر سانس لی تھی.عافیہ اکثر دکھ سے سوچتی کیسے بد نصیب ہوتے ہیں وہ لوگ، جن کی موت پر ان کے ارد گرد کے لوگ سکون کا سانس لیتے ہیں۔ اب تو وہ خود بھی ہنی، بنٹی کو زیادہ ٹوکتی نہیں تھی. وہ بی بی جان نہیں بننا چاہتی تھی. ممی، ڈیڈی بھی تو تھے ، ان کی اولاد ان کے روئیے کی وجہ سے ہی ان سے کتنی محبت کرتی. جبکہ ڈیڈی تو بی بی جان سے بس فرض نبھا رہے تھے. اب روز کی چخ چخ سے جان چھوٹی تو اور دھیان سے کاروبار کی طرف متوجہ ہوئے.
بس یہ ضرور ہوا تھا کہ اب گھر پہلے جیسا چمکتا، دمکتا نہ تھا. کچن میں کام کرنے والی بھی اللہ جانے چیزیں چوری کرتی تھی یا ضائع کہ ہر وقت سودا ختم ہی رہتا. جان چھڑانے کو ایسی موٹی سی چند روٹیاں بنا کر رکھ دیتی کہ کسی کا کھانے کو جی نہ چاہتا. لیکن ممی ان مسائل کو زیادہ سر پر سوار نہیں کرتیں تھیں. کبھی ہفتے، دو ہفتے بعد وقت نکال کر وہ ملازمین کے سر پر کھڑی ہو کر صفائی کرا لیتیں. بنٹی تو بہت خوش تھا بھلے کمرہ گندہ پڑا رہے لیکن اب کوئی اس کی نیند صفائی کروانے کے لئے تو خراب نہیں کرتا نا.
کھانے کا کیا تھا یوں بھی اب وہ ہوٹلنگ اور ہوم ڈیلیوری کے عادی ہو گئے تھے. بندہ کماتا کس لئے ہے خرچ کرنے کے لئے ، اپنے آرام و سکون کے لئے.
بس کبھی کبھی عافیہ کو بی بی جان یاد آتیں جب بھیا باہر سے آتے ہوئے اس کے من پسند ریستوران سے چپلی کباب پیک کرا لا ئے تھے. وہ گھر میں نہ تھی اور کسی کو اس کے لئے رکھنے کا بھی خیال نہ آیا، کھایا، پیا، ضائع کیا. بی بی جان ہوتیں تو گھر کے ایک ایک فرد کا الگ سے حصہ رکھتیں، چاہے وہ کھاتا یا نہ کھاتا. عافیہ نے بھی بعد میں خود ڈرائیور سے منگوا کر کھا لیا لیکن ایک لمحے کو بی بی جان بہت یاد آئیں. پھر وہ بھی اپنی دنیا میں محو ہو گئی . وہ یوں بھی آج کسی اور ہی دنیا میں تھی. بی بی جان کی موت نے اسے بہت اچھا دوست دیا تھا. حماد ان کا پڑوسی اس کا کلاس فیلو بھی تھا. وہ اکثر اس سے تعلقات بڑھانے کی کوشش کرتا لیکن بی بی جان ایک تو عافیہ کو ہر جگہ جانے کی اجازت بھی نہ دیتیں بلکہ گھر میں بھی کوئی آتا تو خود ضرور سر پر سوار رہتیں. اب ان کے انتقال کے بعد عافیہ بہت تنہا پڑ گئی تھی. باقی سب کو جہاں کھل کر آذادی ملی تھی وہیں اسے اندازہ ہوا تھا کہ نہ چاہتے ہوئے بھی وہ بی بی کے ساتھ عادی تھی. اب سارا دن کالج سے آنے کے بعد وہ بے زار بیٹھی ہوتی. ایسے میں حماد نے اسے بہت سہارا دیا تھا. وہ اس کے ساتھ ہی اس کے گھر آ جاتا، اس کی تنہائی بانٹنے کی کوشش کرتا. وہ لوگ کوئی اچھی مووی دیکھتے، باتیں کرتے اور اگر عافیہ اداس ہوتی تو وہ اس کی اداسی دور کرنے کی کوشش کرتا. اس کے ہاتھ تھام کر اس کے کانوں میں پیار بھری سرگوشیاں کرتا، اس کی ڈریسنگ، اسکے انداز کی یوں تعریف کرتا کہ اس کا دل خوش ہو جاتا. ان کا تعلق بہت جلد دوستی سے بڑھ کر محبت تک پہنچ گیا تھا. حماد نے اسے چاہے جانے کا جو احساس دیا تھا. وہ بالکل الگ تھا. بی بی جان زندہ ہوتیں تو کبھی بھی اسے اتنی چھوٹ نہ دیتیں لیکن ایسا بھی نہ تھا کہ عافیہ اپنی اقدار یا حدود کو بھولی ہو. وہ دونوں ملتے، انجوائے کرتے ، لیکن عافیہ نے حماد کو کبھی بے دریغ آذادی بھی نہ دی تھی. جانتی تھی کہ ہر چیز کا ایک وقت ہے، اگر وقت سے پہلے چیز مل جائے تو قدر کھو دیتی ہے. وہ اپنی قدر کم نہیں کرنا چاہتی تھی لیکن اکیسویں صدی میں اب وہ پردے کی بو بو بن کر بھی تو نہیں رہ سکتی تھی. زندگی کی خوشیوں پر اس کا بھی تو حق تھا. عافیہ کو کھل کر ہنستے مسکراتے دیکھ کر ممی، ڈیڈی بھی بہت خوش ہوتے. باقی اور کسی سے اتنی ملاقات ہی نہ ہوتی.
بنٹی نے اب ضد کر کے گھر پر ٹیوٹر سے پڑھنے کی بجائے کسی دوست کے گھر اس کے ٹیوٹر سے پڑھنے کا فیصلہ کر لیا تھا. سو وہ وہاں چلا جاتا، اکثر کمبائن اسٹڈی کے لئے رک بھی جاتا اور ایسے ہی عادتاً کبھی کبھی عافیہ کو خیال آتا کہ اگر بی بی جان ہوتیں تو وہ کبھی بنٹی کو یوں دن رات گھر سے باہر رہنےکی اجازت نہ دیتیں . وہ کھلاؤ سونے کا نوالہ ، دیکھو شیر کی آنکھ سے کی قائل تھیں . وہ اکثر عافیہ کو بھی کہتیں " چھوٹے بہن بھائیوں سے دوستی رکھو . یہ عمر بہت خطرناک ہوتی ہے . ان کے دوستوں پر نظر رکھو ، صحبت کا بہت اثر آتا ہے "
ان کے کہنے پر وہ جا کر ان کے پاس بیٹھ جاتی لیکن اب تو وقت ہی نہ ملتا. ان کے اپنے مشاغل، اس کی اپنی مصروفیات.
اب بھی کتنے ہی دن سے وہ اپنے امتحانات کی تیاری میں لگی دنیا بھولی ہوئی تھی.
اب بھی پڑھتے پڑھتے وہ ایک پوائنٹ پر اٹک گئی . بہت مغز ماری کی لیکن کچھ سمجھ نہ آیا تو چائے پینے کا سوچ کر اٹھ گئی. گھر میں خاموشی طاری تھی . ڈرائنگ روم کا دروازہ بھی بند تھا، شاید ہنی کے ٹیوٹر پڑھا رہے تھے. بے اختیار بی بی جان کی یاد نے ذہن کے دریچوں پر دستک دی. بی بی یوں دروازہ بند کر کے پڑھانے کے سخت خلاف تھیں. بنٹی ان کے ہر وقت سر پر سوار رہنے سے چڑتا، اس کا موقف تھا باہر سے آتی آوازیں ارتکاز میں خلل ڈالتی ہیں اور پڑھا نہیں جاتا اور وہ اسکے چڑنے کو ذرا خاطر میں نہ لاتیں . مجال ہے جو کبھی دروازہ بند کر نے دیں. اب تو کوئی منع کرنے والا نہ تھا. یوں تو گھر میں شور بھی نہ تھا لیکن شاید عادتاً دروازہ بند تھا.
اسے خیال آیا کہ وہ بھی ہنی کے ٹیوٹر سے ہی پڑھ لے، اتنی دماغ کھپائی تو کر چکی پہلے ہی، اب اور کیا کرے گی.
اس نے ملازمہ کو اچھی سی چائے تیار کرنے کا کہا اور خود کتاب اٹھانے اپنے کمرے میں چلی گئی۔ اپنی چیزیں لے کر وہ ڈرائنگ روم کی طرف آئی، دروازہ کھول کر جیسے ہی اندر آئی، اندر کا منظر اس کے ہوش اڑانے کو کافی تھا. اس کے سر پر پہاڑ ٹوٹ گیا گویا. ہنی کے ٹیوٹر اور ہنی کی اتنی قربت بتا رہی تھی کہ یہ سب نیا نہ تھا . ہنی میں چلانے کی ہمت نہ تھی یا شاید وہ عادی ہو گئی تھی. ٹیوٹر ایک دم بوکھلا کر کھڑا ہوا اور اس کے برابر سے گزر کر تیزی سے باہر چلا گیا. چند لمحے وہ ساکت کھڑی رہی تھی اور پھر سر پر ہاتھ رکھ کر زمین پر بیٹھ کر اتنے زمانے بعد بین کرنے لگی.
" بی بی جان، میری پیاری بی بی جان، آپ کیوں چلی گئیں. "
https://www.facebook.com/groups/1690875667845800/permalink/1742162119383821/
“