ایک ریٹائرڈ ہیڈ ماسٹر صاحب نے اے جی آفس کے کلرکوں کے منہ پھاڑ کر "مٹھائی" کے مطالبوں سے زچ ہوکر اسی دفتر کی اوپر کی کسی منزل سے چھلانگ لگا کر خود کشی کرلی تھی.
پنجاب کے سکول ایجوکیشن کے وزیر ڈاکٹر مراد راس نے سفید پوش اساتذہ کو ان کلرکوں سے بچاکر ایک کارنامہ انجام دیا ہے.
پنجاب کے سکولوں کے 378933 اساتذہ کے تمام کاغذات اور ریکارڈ کمپیوٹر پر محفوظ کرلیا گیا ہے. وہ اساتذہ اب ہرقسم کی رخصت، تبادلے اور ریٹائرمنٹ کی درخواست گھر سے آن لائن بھیج سکتے ہیں. کہیں آنے جانے کی ضرورت ہے نہ کسی کلرک یا افسر کا سامنا کرنے کی.
مقررہ میرٹ کے مطابق اب تک 70 ہزار حسب منشا تبادلے آن لائن ہی ہوچکے ہیں.
ریٹائرمنٹ کی درخواست پر ایک ہفتے کے اندر ریٹائرمنٹ کا نوٹیفکیشن، پنشن کا پے آرڈر، جی پی فنڈ اور لیو انکیشمنٹ کی سینکشن آن لائن جاری ہوجاتی ہے، چاہے استاد پنجاب کے اِس سرے کے گاؤں کا ہو یا اُس سرے کا. اب تک 6 ہزار اساتذہ پنشن اور دوسرے واجبات گھر بیٹھے حاصل کرچکے ہیں.
یہ سب کچھ دوسرے محکموں میں بھی ہوسکتا ہے. اسی محکمہ تعلیم کے دوسرے حصے میں تو ضرور ہوجانا چاہیے تھا کہ اس کے وزیر راجہ یاسر ہمایوں سرفراز تو ہیں بھی کمپیوٹر کمیونیکیشن میں اعلیٰ تعلیم یافتہ اور سافٹ ویر کے ماہر. پھر کالج اساتذہ کی تعداد بھی سکول اساتذہ سے بہت کم ہے. لیکن میرے علم میں ہے کہ بعض کالج اساتذہ کے پورے واجبات تین چار سال تک بھی ادا نہیں ہوئے.
کالج اساتذہ ویسے کے ویسے کلرکوں کے رحم و کرم پر ہیں.
ریٹائرمنٹ پر ساٹھ ستر صفحات کی فائل بناکر واجبات کیلئے درخواست دینی پڑتی ہے. وہ کاغذات بھی مانگے جاتے ہیں جو ملازمت کے آغاز پر جمع کرائے ہوتے ہیں. مثلاً میٹرک کا سرٹیفیکیٹ… تاریخ پیدائش چیک کرنے کے نام پر . حالانکہ شناختی کارڈ اس سلسلے میں سب سے authentic دستاویز ہے اور اس کی نقول ان کے پاس موجود ہوتی ہیں،ایک کلک سے نادرا سے اس کی تصدیق بھی کی جاسکتی ہے. ان کے ریکارڈ میں جگہ جگہ تاریخ پیدائش درج ہوتی ہے، شاید ہر پے سلپ پر بھی ہوتی ہے. اسی عمر کی بنیاد پر تو ریٹائرمنٹ کا نوٹیفکیشن جاری ہوا ہوتا ہے.ایسی باتوں کےسرٹیفیکیٹ بھی مانگے جاتے ہیں، جن کی وہ اپنے ریکارڈ سے بہتر تصدیق کرسکتے ہیں، مثلاً تصدیق شدہ پے سلپ جو وہ اپنے کمپیوٹر سے بھی دیکھ سکتے ہیں. اس بات کا تصدیق نامہ مانگا جاتا ہے کہ اس سے پہلے کوئی ادائیگی نہیں ہوئی. حالانکہ ادائیگی کرنی ہی انہوں نے ہے، بالا بالا نہیں ہوسکتی. اپنا ریکارڈ دیکھ لیں ہوئی ہے یا نہیں. جس ریکارڈ کی بنیاد پر کسی کو تیس پینتیس سال تنخواہ دیتے رہے ہیں، اسی پر پنشن بھی دے دیں، جس بنک اکاؤنٹ میں تنخواہ بھیجتے رہے ہیں، اسی میں پنشن بھیجنا شروع کردیں. یہ جو جعلی ghost پنشنرز کی خبریں آتی رہتی ہیں، وہ اسی نئے سرے سے اپلائی کرنے کے طریق کار کی وجہ سے جعلسازی اور ملی بھگت سے بن جاتے ہیں. اگر خودکار کمپیوٹرائزڈ طریقے سے تنخواہ والے اکاؤنٹ میں پنشن جانی شروع ہوجائے تو جعلی پنشنرز کیسے بنیں گے؟
کلرک کس طرح تنگ کرکے مٹھائی دینے پر مجبور کرتے ہیں، ان میں سے ایک یہ ہے کہ ان ساٹھ ستر کاغذوں میں سے ایک دو پھاڑ کر پھینک دئیے اور رابطہ کرنے پر کہا کہ فلاں کاغذ تو ہے ہی نہیں. اکاؤنٹس آفیسرز پوری طرح کلرکوں پر تکیہ کرتے ہیں. ایسے کاغذات بھی دیکھے جن پر کلرک نے واضح طور پر غلط کیلکولیشن کی تھی، لیپ سال کے فروری کے 28 دن لکھے تھے، اکاؤنٹس آفیسر نے دیکھے بغیر دستخط کئے ہوئے تھے.
جب بھی مکمل کمپیوٹرائزیشن کی بات ہوتی ہے کلرکوں کی تنظیم اس کی مخالفت کرتی ہے. کالج اساتذہ کے ایک رہنما نے بتایا کہ یہ ان کی مجبوری ہے کیونکہ جلسے جلوسوں دھرنوں کیلئے زیادہ نفری وہی فراہم کرتے ہیں.
مراد راس کو سلام کہ وہ کسی مخالفت کو خاطر میں نہیں لائے.
سکول ایجوکیشن کا یہ سسٹم تمام محکموں میں فوری اختیار کرنا چاہیے.
“