لال ڈھول اور پنجاب پولیس کی نئی وردی
بہت سال پہلےمحکمہ ڈاک کے ایک ڈائریکٹر جنرل نے لیٹر بکسوں کا رنگ بدل دیا تھا۔
بعد میں اس ڈی جی پر کرپشن کے کئی کیس بنے تھےلیکن میرے نزدیک اس کا سب سے بڑا جرم لیٹر بکسوں کا رنگ بدلنا تھا۔
لاکھوں لیٹر بکسوں کا رنگ سرخ سے زرد کرنے پر کروڑوں روپے ضائع کئے گئے( یقیناَ کس کے فائدے کیلئے)
بالآخر لیٹر بکسوں کا روایتی رنگ بحال کرنا پڑا تھا کہ ان کا رنگ ہی ان کی پہچان ہے۔
ضلع بہاولپور کے ایک دور افتادہ علاقے میں رہنے والی میری ان پڑھ نانی کسی سے خط لکھوا کرہمیں بھجوانےکیلئےاونٹ والے کو کئی کلو میٹر دور واقع ریلوے ستٹیشن بھیجتی تھی تو اسے بار بار بتاتی تھی کہ ’’ٹیشن دےباہر پنساری دی ہٹی نال جیہڑا لال دول کھڑے،چٹھی اوندے اچ سٹیں ‘‘ (سٹیشن کے باہر پنساری کی دکان کے ساتھہ جو ’’سرخ ڈھول‘‘ کھڑا ہے ، خط اس میں ڈالنا)
اب خبر آئی ہے کہ پنجاب پولیس کی یونیفارم کا رنگ تبدیل کیا جارہا ہے۔ قریباََ پونے دو لاکھہ کی فورس کی موجودہ تمام وردیاں بیکار ہو جانے پر نئی وردیاں فراہم کرنا اربوں روپے کی ’’معاشی سرگرمی‘‘ ہوگی، جس سے کپڑے کی سپلائی اور سلائی کے ٹھیکیدار اور نجانے کون کون مستفید ہوگا۔
یہ نہیں بتایا گیا کہ وردی کا رنگ اور ڈیزائن بدلنے سے پولیس کی کارکردگی کیسے اور کتنی بہتر ہوگی، لیکن یہ خدشہ ہے کہ دور دراز علاقوں میں جانے والی اوپری سی وردی والی پولیس کو ’’جعلی‘‘ سمجھہ کر دیہاتی اس پر حملہ آور ہو سکتے ہیں اور جواب میں فائرنگ سے جان سے بھی جاسکتے ہیں۔
اصلی پولیس کو پشت ہا پشت سے لوگ اس کی وردی سےہی پہچان رہے ہیں۔ اس کی رنگت تبدیل کرنے کا بہت بڑا فیصلہ اسمبلی اور میڈیا میں بحث مباحثے کے بعد ہونا چاہئیے تھا۔
اس سے پہلے قلیوں کی یونیفارم تبدیل کرنے کاغیر دانشمندانہ (اور بالکل غیر ضروری) فیصلہ ہو چکا ہے۔
نئی وردی میں ملبوس قلیوں کے ہجوم کولوگ ٹرین پر سفر کرنے والی کوئی ہاکی ٹیم سمجھہ کر سرخ قمیصوں والے قلی تلاش کرتے رہتے ہیں۔
آخر ہمیشہ سے ریلوے کے قلی کی وردی کا رنگ سرخ ہی چلا آرہا ہے ۔
یہ کالم فیس بُک کے اس پیج سے لیا گیا ہے۔
“