انتظار حسین کو رخصت ہوئے ایک برس بیت گیا۔
ڈبائی ضلع بلند شہر، یوپی کے میاں بیوی منذر علی اور صغریٰ بیگم کے ہاں چار بیٹیاں ہوچکی تھیں اور ظاہر ہے کہ اب شدت سے بیٹے کا انتظار تھا ۔ با لآخر دسمبر 1925 میں بیٹا ہوا، طویل انتظار کی نسبت سے نومولود کا نام انتظار حسین رکھا گیا۔
انتظارحسین نے ابتدائی تعلیم گھر پر ہی حاصل کی ۔ان کے والد سکول بھیجنے کے سخت خلاف تھے، چاہتے تھے کہ وہ روایتی مذہبی تعلیم حاصل کریں ۔ ان کی بڑی بہن نے اصرار کرکے ان کو اسکول میں داخل کروایا ۔
انتظار حسین نےڈبائی سےپرائمری، ہاپوڑ سےمیٹرک اور میرٹھہ کالج سے 19422 میں گریجویشن کی۔ اسی کالج سے 1946 میں ایم اے اردو کیا۔(بعض پنجاب یونیورسٹی سے بتاتے ہیں)
اپنے کالج کے زمانے کے اساتذہ میں انتظار حسین نے خصوصیت کے ساتھہ پروفیسر کرار حسین کا ذکر کیا ہے کہ ان سے انہوں نے گہرا اثر قبول کیا۔
انتظار حسین کے معنوی اساتذہ میں اہم نام محمد حسن عسکری کا ہے ۔ عسکری صاحب سے ان کی ملاقات میرٹھہ میں ہوئی عسکری صاحب کے بلاوے پر ہی انہوں نے پاکستان ہجرت کرنے کا ارادہ کیا۔ جنہوں نے لاہور آکر ریڈیو پاکستان کے اعلانات کے ذریعے سے پیغام بھیجا اور یہاں آنے کی دعوت دی۔عسکری صاحب کے توسط سے وہ ناصر کاظمی سے بھی ملے جو ان کے گہرے دوست بن گئے۔
لاہور آئے تو کچھہ عرصہ محکمہ خوراک میں ملازمت کی۔اس کے بعد پہلے ہفت روزہ ’’نظام‘‘ اور اس کے بعد روزنامہ ’’امروز‘‘ لاہور میں بہ حیثیت سب ایڈیٹر 1949 ء تا 1953 ء روزنامہ ’آفاق‘‘ لاہور میں بہ حیثیت سب ایڈیٹر اورکالم نگار 1955 ء تا 1957ءروزنامہ’’مشرق‘‘ لاہور میں بہ حیثیت کالم نگار 1963 ء تا 1988 ء کام کیا۔ کچھہ عرصہ ماہ نامہ ’’ادب لطیف‘‘ کی ادارت بھی کی۔ 1958 میں ناصر کاظمی کے ساتھہ مل کر ادبی جریدہ’’ خیال‘‘جاری کیا۔۔ جس کے صرف 3 پرچے شائع ہوسکے۔ حلقہ اربابِ ذوق میں سرگرم رہے ۔ جوائینٹ سیکریٹری اور مجلسِ عاملہ کے رکن بھی رہے۔
انتظار حسین نے اپنی ادبی زندگی کی ابتداء شاعری سے کی تھی ۔ ن م راشد کی ’’ماورا‘‘ سے گہرا اثر قبول کیا اور اس انداز میں آزاد نظمیں لکھنے کا آغاز کیا۔ لیکن جلد ہی وہ شاعری سے افسانہ نگاری کی طرف آگئے۔انتظار حسین نے اپنی پہلی کتاب تقسیم اور ہجرت سے قبل مکمل کرلی تھی اور حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اس کتاب کا موضوع لسانیات تھا۔ وہ اس کتاب کے مسودے کے ساتھہ بابائے اردو مولوی عبدالحق کے پاس گئے جن سے وطنی تعلق کی نسبت بھی تھی۔ اس کتاب کے بعض حصے ایک یا دو مضامین کی صورت میں جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی کے رسالے ’’جامعہ‘‘ میں شائع ہوئے۔ انتظار حسین نے اس کتاب کے مسودے یا مطبوعہ مضامین کی کوئی نقل بھی محفوظ نہ رکھی اور لسانیات سے ان کی دلچسپی بھی اس کے ساتھہ ختم ہوگئی۔
اننتظار حسین کا افسانہ نگاری میں منفرد مقام کلاسیکی بامحاورہ زبان تمثیلی،اساطیری،علامتی انداز کے علاوہ ہجرت کے تجربےکی وجہ سے ناسٹلجیا بھی ہے۔ ان کے ہجرت کے تجربے کی معنویت تہ در تہ اور نشیلی اذیت لئے ہوئے ہے۔ وہ نئے افسانہ نگاروں سے یوں مخاطب ہوتے ہیں۔۔۔
’’جو چھوٹی سی اذیت اس فقیر کے نصیب میں لکھی گئی ہے،وہ تمہیں عطا نہیں ہوئی۔ میںاپنی مصیبت میں زمینوں اور زمانوں میں آوارہ پھرتا ہوں۔ کتنے دن اجودھیا اور کربلا کے بیچ مارا مارا پھرتا رہاہوں، یہ جاننے کیلئے کہ جب بھلےآدمی اپنی بستی کو چھوڑتے ہیں توان پر کیا بیتتی ہےاور خود پر کیا بیتتی ہے۔‘‘
انتظار حسین کی طویل ترین وابستگی روزنامہ ’’مشرق‘‘ سے رہی جہاں وہ شہر کے حوالے سے مستقل کالم’’ لاہور نامہ‘‘ اور ادبی فیچر لکھتے رہے۔ ان تحریروں کا انتخاب کتابی شکل میں شائع ہوچکا ہے۔ 1988 ء میں وہ روزنامہ ’’مشرق‘‘ سے ریٹائر ہوگئے اور اس کے بعد پہلے روزنامہ آج کل لاہور اور پھر روزنامہ ایکسپریس میں کالم لکھتے رہے۔
وہ انگریزی میں بھی کالم لکھتے رہے۔ پہلے 1962 ء میں لاہور کے روزنامہ ““Civil and Military Gazzette” روزنامہ میں ’’دیوجانس‘‘(Diogenes) کے نام سے لکھے۔ روزنامہ ’’مشرق‘‘ سے علیحدہ ہونے کے بعد وہ لاہور کے روزنامہ Frontier Post میں 1989 ء سے فروری 1994 ء تک ہفتہ وار کالم لکھتے رہے۔ اس کالم کا عنوان Point Counter Point تھا۔
1994 ء سے انہوں نے کراچی کے روزنامہ Dawn کی ہفتہ وار اشاعت کے لیے Point of view کے عنوان سے مستقل کالم لکھنا شروع کیا۔ ۔
انتظار حسین کی شادی مارچ 1966 ء میں عالیہ بیگم سے لاہور میں ہوئی۔ جن کا انتخاب انتظار حسین کی والدہ اور بڑی بہن نے کیا۔عالیہ بیگم گھریلو خاتون تھیں۔ وہ کہتی تھیں شادی سے پہلے ’’مشرق‘‘ اخبار میں ان کا کالم دیکھہ کر سوچا کرتی تھی کہ یا اللہ یہ شخص کیا کبھی گھر میں بھی ٹکتا ہے۔ اس وقت انہیں اندازہ نہیں تھا کہ گھر میں نہ ٹکنے والے اس آدمی کا گھر انہی کو بسانا ہے۔
انتظار حسین نے اپنے کالموں کے مجموعے میں ذکر کیا ہے کہ ان کے تراشے ان کی بیگم نے سنبھال کر رکھے تھے۔ بیگم عالیہ انتظار حسین جنوری 2005 ء میں انتقال کر گئیں۔ان کی کوئی اولاد نہیں ہوئی۔
انتظار حسین کی تصانیف میںآگے سمندر ہے،بستی ، ۔دناور داستان، چاند گہن، آخری آدمی ،خالی پنجرہ ،خیمے سے دور ،شہر افسوس ،کچھوے ،کنکری ،گلی کوچے ، سمندر اجنبی ہے،چراغوں کا دھواں ، شہر زاد کے نام ، نئی پرانی کہانیاں ،جنم کہانیان،قصہ کہانیاں،سنگھاسن بتیسی، قطرے میں دریا،دلی تھا جس کا نام ، ہزار داستان ،جل گرجے خوابوں کے مسافر،سعید کی پراسرار زندگی،شکستہ ستون پر دھوپ ،علامتوں کا زوال،اپنی دانست میں، فلسفے کی نئی تشکیل،جستجو کیا ہے،شہر افسوس، ہزار داستان، کلیلہ دمنہ،ملاقاتیں،نظرئیے سے آگے ،اجمل اعظم ،قائداعظم کے ابتدائی حالات،گھاس کے میدان سے، بوند بوند،نیا گھر، نائو (امریکی افسانے)ہماری بستی( تھارنٹن وائلڈکا ڈرامہ)سرخ تمغہ( اسٹیفن کرین کا ناول )نئی پود( ترگنیف کا ناول) شامل ہیں۔
ان کی باقی تحریریں ڈاکٹر آصف فرخی مرتب کرکے شائع کرا رہے ہیں۔
انتظار حسین نے ہندوستان‘ نیپال‘ ایران‘ ترکی‘ عرب امارات‘ جرمنی‘ ناروے‘ انگلستان‘ امریکا اور کینیڈا کا سفر کیا اور ان میں سے بیشتر کے بارے میں اپنے تاثرات قلم بند کئے
انتظار حسین کو ستارۂ ا متیاز،،کمال ِ فن ایوارڈ، بابائے اردو مولوی عبدالحق ایوارڈ، فروغِ ادب ایوارڈکے علاوہ فرانس کا اعلیٰ ادبی اعزازOrdre des Arts et des Lettres اور بھارت کا یاترا ایوارڈ بھی ملا۔ وہ بکر پرائز کے لئے نامزد ہونیوالے اردو کے واحد ادیب تھے۔
انہوں نے 2 فروری 2016 کو لاہور میں وفات پائی ۔
[سید قاسم محمود ، سید شہزاد ناصر اور ڈاکٹر انوار احمد سے استفادہ]
https://www.facebook.com/permalink.php?story_fbid=463319754057894&id=100011396218109
“