سروے کے مطابق 80 فی صد برطانوی اس طرح کا کالم ضرور پڑھتے ہیں۔ ہمارے ہاں بھی تعداد اس سے کم کیا ہوگی۔ میں بچپن سے اخبار پڑھتا آرہا ہوں۔ یہ کالم بھی ضرور پڑھتا تھا۔
روزنامہ امروز میں اس کالم پر نادر حسین نام درج ہوتا تھا۔ تھرڈ ایر میں تھا کہ ایک ہفتے اپنے سٹار کے خانے میں پڑھا کہ ہفتے کے وسط میں غیر متوقع طور پر رقم ہاتھ آئے گی۔ پھر یوں ہوا کہ عین وسط ہفتہ، بدھ کے روز کالج آفس والوں نے بلاکر بتایا کہ میرا سکالر شپ آیا ہے۔ پچھلے آٹھ نو ماہ کا اکٹھا تھا، اس لئے بھاری رقم ملی۔ سکالر شپ ملنا میرے خواب وخیال میں بھی نہیں تھا۔ فرسٹ ڈویژن تو تھی لیکن نمبر اتنے غیر معمولی بھی نہیں تھے۔ پتہ چلا کہ انٹر آرٹس گروپ میں اتنے نمبر بلکہ فرسٹ ڈویژنز بھی کم ہی ہوتی ہیں۔ سو اس نجومی پر یقین پختہ ہوگیا۔ اس کو ٹھیس چند سال بعد اس وقت پہنچی جب میں اسی اخبار کا سب ایڈیٹر بنا۔
ایک دن سنڈے میگزین تیار ہوتے دیکھا تو پتہ چلا کہ انہی نادر حسین صاحب کا کوئی تین چار سال پرانا آپ کا ہفتہ والا کالم پرانی کاپی سے کاٹ کر لگایا جارہا ہے۔ پوچھا، یہ کیوں؟ تو بتایا گیا کہ یہ کالم نیشنل پریس ٹرسٹ سے آتا تھا، اب نہیں آرہا، پتہ نہیں ان کا معاہدہ ختم ہوگیا ہے یا مرکھپ گئے۔ اس کالم کی ریڈرشپ بہت ہے، اس لئے پرانے لگادیتے ہیں، کبھی ایک سٹار کا احوال دوسرے میں، اور کبھی یہ تکلف بھی نہیں۔۔۔۔ اس کا کبھی کسی کو پتہ نہیں چلا۔
درمیانی عرصے کی ایک بات رہ گئی۔۔ یونیورسٹی پہنچے تو دیکھا کہ کوئی کسی لڑکی سے سٹار پوچھتا اور بتانے پر کہتا، میرا پہلے ہی یہی اندازہ تھا، اتنی خوبصورت آنکھیں اسی سٹار والوں کی ہوتی ہیں۔ یہ کمپلیمنٹ عموما" بہت مفید ثابت ہوتا۔ اور اگر سٹار ایک ہی نکل آتا تو پھر تو ویسے ہی دوستی پکی۔ پھر ایک دفتر میں دیکھا کہ افسر مجاز کا جو سٹار تھا، ہر خوشامدی نے وہی اختیار کرلیا۔ اس سٹار والوں کا ایک کلب بھی بن گیا۔
لیکن ۔۔۔۔
برطانیہ میں ماہرین نے ایک ہی وقت پیدا ہونے والوں کے بارے میں ایک سٹڈی کی ہے۔ بنیادی طور پر تو یہ طبی مقاصد کیلئے تھی لیکن پھر اسے وسیع کردیا گیا۔
مارچ 1958 کےاوائل کے دنوں میں منٹوں کے حساب سے ایک ہی وقت پیدا ہونے والے 2000 بچوں کے کئی گروپ بنائے گئے۔ پھر ان ایک ہی سٹار اور برج والوں کو اگلے پچاس سال سے زیادہ عرصہ زیر مطالعہ رکھا گیا۔ پیشے، طبیعت، مزاج، ازدواجی تعلقات، غصے، سوشل ہونے، آئی کیو لیول،آرٹ، سپورٹ، ریاضی، مطالعے کے حوالے سے صلاحیتوں سمیت کوئی100 خصائص کا جائزہ لیا گیا جو ماہرین نجوم یاHoroscope بنانے والوں کے لحاظ سے یکساں ہونے چاہئیں تھے۔
حاصل ہونے والے ڈیٹا کا آسٹریلیا کی ایک یونیورسٹی کے سائنسدان اور سابق آسٹرولوجر اور کینیڈا کی یونیورسٹی کے نفسیات کے پروفیسر نے تجزیہ کیا۔
نتائج نے علم نجوم والوں کے اس دعوے کے غبارے سے ہوا نکال دی کہ پیدائش کے وقت چاند، سورج اور ستاروں کی پوزیشن ہی ہمارے characteristics تشکیل دیتی ہے۔
ایک ہی وقت پیدا ہونے والوں میں کچھ بھی مشترک نہیں نکلا !
اتنی بڑی اور پوری احتیاط سے کی گئی اس سائنٹیفک سٹڈی کے نتائج آئے کافی عرصہ ہوگیا لیکن اس کا میڈیا میں اتنا چرچا کیوں نہیں ہوا؟
اس لئے کہ اس ریسرچ اور اس کے نتائج کو جان بوجھ کر دبا دیا گیا، یا پردہ ڈالا گیا۔ وجہ یہ ہے کہ یہ ہاروسکوپ، آج کا دن، ہفتہ کیسے گزرے گا، اربوں کا دھندا ہے۔ روزانہ ٹیلی فون، ویب سائٹس اور اخبار رسالوں کے کالموں میں کروڑوں لوگ یہ تلاش کرتے ہیں کہ کیا ہونے والا ہے۔ سالانہ کتابیں الگ چھپتی ہیں۔
کوئی طبقہ بھی اس سے محفوظ نہیں۔ سروے کے مطابق سائنس کے طلبا میں سے بھی ایک تہائی یہ دیکھتے ہیں۔
“