اُردو شاعری میں طنزومزاح کی روایت بہت پُرانی ہے اساتذاےءسُخن نے بھی جُزوی طور پر اسے وقتِ ضرورت استعمال کیا ہے – لیکن با قائدہ طور پر اس کا چلن بہت بعد میں ہُوا – اساتذہ کی سنجیدہ شاعری میں طنزومزاح کے نمونے ہی در اصل بُنیاد بنے – بعد کی نسلوں میں کچھ شعراء نے مُستقل طور پر اس فن کو اپنایا اس سلسلے میں کئی نام لیے جا سکتے ہیں لیکن یہاں مجھے طنزیہ و مزاحیہ شاعری کی نہ تاریخ بیان کرنی ہے اور نہ تحقیقی مقالہ لکھنا ہے – مجھے تو آج کے دور کے معتبر مزاحیہ شاعر نشتر امروہوی کے کلام پر اظہارِ خیال کرنا ہے جن کا مجموعۂ کلام "پوسٹ مارٹم " کے نام سے منظرِ عام پر آیا ہے – کتابی پیراہن میں ان کے کلام کو بہت پہلے ہی آجانا چاہیے تھا – کیونکہ نشتر کافی عرصے سے مشقِ سُخن کر رہے ہیں نشستوں اور مُشاعروں کے حوالے سے عوام میں شہرت بھی پا چُکے ہیں اور خواص میں بھی اس لیے قبول کیے جاتے ہیں کہ یہ فنِ شاعری کے اصولوں کی پابندی کرتے ہوےء طنزومزاح کے مضامین اپنی شاعری میں باندھتے ہیں پابند نظم ان کا خاص میدان ہے – تضمین اور قطعات بھی خوش اسلوبی سے کہتے ہیں – اور طنز یا مزاح کے اظہار کے لیے تضحیک یا پھکڑ پن کا سہارا نہیں لیتے اور اپنی شاعری میں یہ سماج میں پھیلی ہوئی بد امنی ، بے دردی، نا انصافی کے ساتھ ساتھ انسانی ہمدردی کی بھی بات کرتے ہیں لطیف طنز اور شستہ مزاجی ان کی شاعری کا وصف ہے – "پوسٹ مارٹم " کے پشت پر چھپی احمد فراز کی راےء ان کی شاعری کے بارے میں مُلاحظہ فرمائیے -*
" حسن آرا ٹرسٹ کے زیرِ اہتمام ہونے والے پروگرام میں دہلی
( انڈیا ) آنا ہُوا – جس میں طنزومزاح کے منفرد شاعر نشتر امروہوی کا کلام سُننے کو ملا ، مرحوم دلاور فگار کی یاد تازہ ہوگئی – حیرت ہوئی لوگ کہہ رہے تھے کہ انڈیا میں جناب ساغر خیامی مرحوم اور جناب عادل لکھنوی مرحوم کے بعد طنزومزاح کا میدان بالکل خالی ہے – مگر نہیں نشتر کے کلام نے مجھے بیحد متاثر کیا اب مجھے انڈیا میں طنزومزاح کا میدان خالی ہونے کا کوئی خدشہ نہیں –
میری دعائیں ان کے ساتھ ہیں "—
اس کتاب کی شروعات میں " تقدیم " عنوان کے تحت پروفیسر
اختر الواسع نے ایک مُختصر مضمون لکھا ہے – اقتباس مُلاحظہ فرمائیں – *
" آجکل طنزومزاح کے نام پر پھکّڑ پن اور پھوہڑ پن آ چُکا ہے
اس نے طنزومزاح کی شاعری کی روایت ہی بدل دی ہے – ان حالات میں ڈاکٹر نشتر امروہوی اپنے طنزومزاح کی شاعری سے لوگوں کو احساس دلاتے ہیں کہ طنزومزاح کسے کہتے ہیں " –
محمود حسن قیصر ، مُجیب شہزر ، اور عزیز بلگامی نے بھی نشتر امروہوی کی شاعری کی خوبیاں اپنے مضامین میں بیان کی ہیں مضمون " می گویم " میں شاعر کے خاندان کا اور اس کا تعارف ہے – یہ سارے مضامین شاعر کے بارے میں راےء قائم کرنے کے لیے کافی ہیں –
نشتر امروہوی کی شاعری کا مُطالعہ میرے لیے خوشگوار
تجربہ رہا – عام طنزیہ مزاحیہ شاعروں سے الگ ان کی شاعری ہے – مصرعوں کی ہییت ان کے طے شدہ مضامین کا ساتھ دیتی نظر آتی ہے – الفاظ ان کے خیالات کے ترجمان ہوتے ہیں – ان کے کلام میں طنزومزاح شیروشکر سے ہوگئے ہیں کچھ ہزلوں کے نمونے مُلاحظہ فرمائیں –
تھانے میں اسپتال میں ، تحصیل و کورٹ میں
کچھ ہے یہاں پہ کام تو رشوت کی بات کر
میں آپکے لیے نہ زمانے کے واسطے
مُلّا بنا ہُوں صرف کمانے کے واسطے
چاہ میں بیٹے کی پیدا ہو گئیں چھ بیٹیاں
دیکھئے اس بار کیا موجوں کی طغیانی کرے
دن میں تو کہہ رہی تھی کہ تم میرے شیر ہو
اور اس کے بعد اُلّو بنایا تمام رات
وقتِ نکاح جیب مری صاف ہو گئی
سالوں کا تھا کمال پتہ چل گیا مجھے
بظاہر ہیں سیاست داں سبھی ہمدرد جنتا کے
یہ باطن کوئی دولت کا کوئی کرسی کا شیدائی
میری نیّت بھی بُری ہے تیری فطرت بھی غلط
اس لیے پھولا پھلا میں بھی نہیں تو بھی نہیں
نشتر امروہوی کی شاعری میں موضوعات کی
کمی نہیں اور نہ ہی تیرونشتر کی کمی ہے جہاں بھی کسی سماجی بُرائی کی بات ان کے سُخن میں آئی ہے ان کے لفظوں کے تیروں کا حدف بنی ہے اور جہاں کہیں سماجی سیاسی ناسور کی بات کی طرف انھوں نے اشارہ کیا ہے فوراﹰ نشتر کا ضرب بھی لگا ہے – اس کتاب کے مطالعے کے وقت قاری کی نظر سرسری نہیں گزر جاتی بلکہ کہیں رکتی تھمتی ہے تو کہیں ٹک جاتی ہے – تو کہیں پیچھے کی طرف جاکر آگے بڑھتی ہے – جب کہ ایسا مزاحیہ کلام پڑھتے ہوئے کم کم ہی ہوتا ہے – یہ اعزاز نشتر امروہوی کے کلام کو حاصل ہے کہ ان کی مزاحیہ شاعری کا مطالعہ بھی سنجیدہ معیاری شاعری کی طرح کرنا پڑتا ہے –
نشتر امروہوی " تضامین " کے فن کے بھی ماہر ہیں
جب کہ یہ صنفِ سُخن بھی شاعر کا امتحان لیے بغیر نہیں رہتی – بعض اوقات تو مزاج بھی پوچھ لیتی ہے – نشتر نے تضمین کے تقاضوں کا پورا خیال رکھا ہے مثلاﹰ –
اب غزل پڑھنے لگے ہیں ہم بھی کمیشن دے کر
یوں فروغ اُردو کا ہوتا ہے تو ہو جانے دو
وہ کمیشن کے طلبگار ہیں ہم اُردو کے
" خوب گزرے گی جو مل بیٹھیں گے دیوانے دو "
یہ سوچ سوچ کر میں پریشاں ہوں آج کل
بس یہ خیال ہے مجھے حیراں کیے ہوئے
جانے کا نام ہی نہیں لیتا کسی طرح
" مدّت ہوئی ہے یار کو مہماں کیے ہوئے "
اپنی شاعر برادری کو بھی نشتر امروہوی نے نہیں بخشا – ان
کی فطرت ، جلن ، سازش اور کرتوتوں کو قطعات کے سانچے میں ڈھال کے دنیا کو بتا دیا – مُلاحظہ فرمائیں –
ایک سے زائد غزل پڑھنے پہ ہوں پابندیاں
اب ہر اک محفل میں یہ اعلان ہونا چاہیے
سات سے زائد ترنّم میں اگر ہوجائیں شعر
ایسے شاعر کا تو پھر چالان ہونا چاہیے
جو داد پاتے ہیں محفل بھی لوٹ لیتے ہیں
گلے کے زور پہ رکھتے ہیں دھار غزلوں پر
جو بحر میں نہیں کہہ سکتے ایک بھی مصرعہ
وہ ہوکے آ گئے بحرین چار غزلوں پر
محفلِ شعرو سُخن میں کل یہ ہنگامہ ہُوا
پڑھ کے بے بحری غزل بھی سب گویئے چھا گئے
اور تحت الفظ جتنے بھی تھے سب اُستادِ فن
اس قدر ہوٹنگ ہوئی گھبراکے واپس آ گئے
یہ بھی ان کے سُخن کی خوبی ہے کہ انھوں نے
غلط کار سیاستدانوں ، تاجروں اور قانون کے رکھوالوں کی حرکتوں کو بیان کرتے ہوئے نشتر زنی کرکے انھیں ان کی اوقات دکھا دی ہے اور اپنے قارئین اور سامعین کو ان کی حرکتوں اور چالاکیوں سے آگاہ کر دیا ہے – اصل میں نشتر امروہوی کی شعر گوئی مقصدی اور صالح ہے – اس لیے ان کی شاعری تُک کی ہے بے تُکی نہیں – ان کی شاعری کا فن ان کی نظمیہ شاعری میں خوب خوب رنگ جما تا ہے – کچھ نظمیں تو انہوں نے بہت ہی لا جواب کہی ہیں – مثلاﹰ ۵ شعر والی نظم ہے " اتحادی " پہلا شعر ہے
نہ ہم ہیں اہلِ سیاست نہ ہم فسادی ہیں
حُسین والے ہیں ہم لوگ اتّہادی ہیں
اور اس کا آخری شعر ہے
جنابِ حضرتِ عبّاس کی قسم نشتر
خُدا کے فضل سے ہم ضبط کے بھی عادی ہیں
ان کی نظمیں شکوہ اور جوابی شکوہ گھر آنگن ، رشتوں ناطوں کی شاعری ہے – مزاح کے رنگ میں مسائل اور سماجی الجھنوں کو بتایا گیا ہے – فوراﹰ ہونٹوں پہ مسکراہٹ تو پھیل جاتی ہے مگر دل پر آرے چلنے لگتے ہیں – چاپلوسی اور کثرتِ اولاد میں گہرے گہرے طنز ہیں – شادی سے پہلے اور شادی کے بعد دلچسپ نظمیں ہیں – بیوی کو موضوع بنا کر نشتر امروہوی نے بہت ساری تلخ و شیریں خیالات کا اظہار کیا ہے –
مجموعی طور پر " پوسٹ مارٹم " کا مُنتخبہ کلام سماج کے مُختلف پہلوؤں کو دلچسپ ڈھنگ سے پیش کرتا ہے اور اُردو قاری کو تفریح کے ساتھ ساتھ اصلاح کے بلیغ اشارے بھی دیتا ہے – آخر میں نشتر امروہوی کا مُختصر ترین منظوم تعارف انھیں کے چار مصرعوں میں مُلاحظہ فرمائیے – *
ہیں پدر راہی ، نقی دادا تو پر دادا اسد
میں بھی ہُوں نشتر اسی اُجڑے ہوےء گُلشن کا پھول
خدمتِ اُردو کا جذبہ بھی وراثت ہے مری
شاعری بھی ہے مرے اجداد کے قدموں کی دھول
“