جب پہلی دفعہ Transplanting کرتے ہیں تو بیڈز کے اوپر ایک دفعہ پانی چڑھانا پڑتا ہے تاکہ پودوں کی جڑیں اچھی طرح Establish ہو جائیں پھر اُس کے بعد کھیلی میں پانی دیا جاتا ہے تاکہ روٹس اپنے نیٹ ورک کو Establish کر لیں آگے بڑھ کر پانی تاکہ خود اپنی رسائی پیدا کر لیں۔ اس سے ہی بہتر خوراک اور غذائیت حاصل ہو سکتی ہیں، اس وجہ سے ہی پودے صحت مند ہوتے ہیں۔
دھان کے ساتھ میرا تعلق 2007 میں قائم ہوا جب مجھے FAO نے اپنے ہیڈ کواٹر میں مدعو کیا تھا کہ چاول جو دُنیا بھر کی دوسری بڑی اہم غذائی جزو ہے اور ہم 5 سے 7 ہزار لیٹر میٹھا پانی اس کے ایک کلو گرام چاول پیدا کرنے کے لیے استعمال کر رہے ہیں، جس طرح سے دنیا بھر میں پانی کی شدید ترین کمی کا مسئلہ پیدا ہو رہا ہے اس میں ہم کس طرح سے اس کو جاری رکھ سکیں گے۔ وہاں دنیا بھر سے سائنٹسٹ آئے ہوئے تھے اور میں ایک کاشت کار کی حیثیت سے وہاں موجود تھا
ان سے سوال کیا کہ چاول کا پودا Aquatid ہے، Aquatid وہ جانور ہوتے ہیں جو پانی ہی میں زندہ رہتے ہیں، جیسے کہ مچھلی ہے اور اگر ہم اس کو پانی سے نکالیں گے تو یہ مر جائے گی، انہوں نے کہا کہ نہیں، تو پھر میرا اگلا سوال تھا کہ آپ اس کو باقی فصلوں کی طرح کیوں Grow نہیں کرتے تو ان کے پاس کوئی جواب نہیں تھا، اس کی پوری History ہے جو میں آگے وضاحت کرنے والا ہوں کہ جو چاول کو سمجھا جاتا ہے پانی اس کی اتنی ہی ضرورت ہے جتنی دوسرے پودے کو ہوتی ہے۔
2007 میں مجھے یہ اسائنمنٹ دی گئی کہ ایسی ٹیکنالوجی Develope کی جائے کہ ہم کم سے کم پانی کے ساتھ اچھی پیداوار لے سکیں۔
میں دھان کی فصل کا کاشت کار نہیں میری اپنی فصلیں تو کاٹن، گنا اور آلو اور مکئی وغیرہ ہیں، ہم نے چاول کو Study کرنا شروع کیا اور بالآخر 80 فیصد پانی کی بچت کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ پیداوار بھی کافی بہتر لی، بہت سے ادارے جو پرائیویٹ کام کر رہے ہیں پاکستان میں اور دنیا کے دیگر ممالک میں اُن کے لیے بھی حیران کُن تھا کہ ہم بغیر پانی یعنی صرف نمی میں ہی چاول کاشت کر سکتے ہیں، لیکن اب بہت سارے ممالک میں Drip کے ذریعے کاشت ہو رہا ہے اس کی بھی وضاحت کی جائے گی۔