کرونا نے دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے وہاں ہمارے وطن عزیز کو بھی اپنے شکنجے میں جکڑ لیا جو کہ پہلے ہی معاشی سماجی بحرانوں میں پہلے سے جکڑا ہوا ہے جن سے نمٹنے کیلئے کوئی خاطر خواہ حکمت عملی نظر نہیں آرہی تھی وہاں کرونا کی وبا نے حکمت عملی کے ساتھ ساتھ عقل مندی کے فقدان کو بھی ظاہر کردیا ہے
پاکستان خطہ کا ایسا ملک ہے جو ہمیشہ کسی نا کسی بحران میں پھنسا ہوا ملتا ہے کبھی توانائی کا بحران کبھی زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی کا بحران کبھی سیلاب زدگان کبھی زلزلہ زدگان تو کبھی دہشت گردی سمیت مختلف آٹا چینی سمیت دیگر بحران درپیش ہوتے ہیں لیکن بحیثیت مجموعی ہم نے کبھی بھی کوئی جامع حکمت عملی نہیں بنا سکے سوائے الزامات کے جو کہ اب ہمارے قومی اثاثوں میں شمارہونا لگ گیے ہیں اسی طرح جہاں کرونا لاک ڈاون کے بے شمار نقصانات تھے وہاں حکمت عملی اور عقل مندی سے اس لاک ڈاون کے اثرات کو کم سے کم کرنے کے لیے جامع حکمت عملی بھی بنائی جا سکتی تھی جس میں سب سے زیادہ خطرناک رجحان جو کہ ہمارے ملک میں اپنی جڑیں مضبوط کرچکا ہے وہ آدھا دن گزرنے کے بعد کاروبار کا آغاز کیا جانا ہے جس سے پاکستان جیسے غریب ملک میں توانائی کا استعمال بڑھ جاتا ہے
کرونا لاک ڈاون میں اگر ہم اپنے تمام کاروباری سرگرمیوں کو مرحلہ وار شروع کرتے تو ہم لاک ڈاون کے سبب پیدا ہونے والے معاشی مسائل کو کم کر سکتے تھے جیسے صبح 5 بجے سے لیکر 12 بجے تک کریانہ و جنرل اسٹور ڈیری کو اجازت دیتے اور 12 بجےکے بعد دیگر روزمرہ کے معمولات سے جڑے کاروباری سرگرمیوں کو اجازت دی جاتی تو اس سے عوام کو جلدی اٹھ کر معمولات زندگی کا آغاز کرنے کی عادت پڑھ جاتی جیسے دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں روزمرہ کا معمول ہے اور اس طرح توانائی کی بچت ہوتی اور قدرتی توانائی کا بھی بھرپور فائدہ اٹھاتے لیکن ایک بار پھر ہم نے جہاں کرونا کے نقصان تھے وہاں فوائد بھی موجود تھے لیکن ہم نے صرف لاک ڈاون کے سبب پیدا ہونے معاشی مسائل سے نمٹنے کیلئے امداد اور قرض کی ادائیگی میں تاخیر کے فائدے کو عظیم سمجھا اور اپنی قومی قیادت کو سرخ سلام پیش کیے لیکن کسی نے بھی دورس حکمت عملی بنانے پر زور نہیں دیا اور نہ ابھی تک لاک ڈاون کے حوالے سے متفقہ و جامع حکمت عملی بناسکے ھیں
کرونا نے من الحیث قوم ثابت کردیا ہے کہ ابھی بھی ہم اکیسویں صدی میں داخل نہیں ہوسکے ہیں ابھی بھی وقت ہے کہ تمام اسٹیک ہولڈر بیٹھ کر اکیسویں صدی کے تقاضوں کے مطابق کرونا سے نمٹنے کیلئے معاشی سماجی اخلاقی و سیاسی میثاق بنا لے تو شاید اس کرونا کے شر میں سے خیر کا معاملہ ہوجاۓ
“