جی چاہ رہ تھا کہ پھوٹ پھوٹ کر روؤں تاکہ اُن لوگوں پر یہ آنسو بادل بن کر پھٹ پڑیں جو اس بوریت کا سبب بنے تھے۔ کسی کام میں دل نہیں لگ رہا تھا۔ نظریں اخبار پر ٹکی تھیں اور سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ میں اخبار پڑھ رہا ہوں، اونگھ رہا ہوں یا ہفت اقلیم کی سیر کررہا ہوں۔ بار بار دل گھبرا رہا تھا کہ اچانک آنکھوں نے دل کا ساتھ دے دیا۔ ہم تو بھونچکا رہ گئے کیوں کہ اچانک ہی آنسو ہماری بھولی بھالی آنکھ کو داغ مفارقت دینے لگے۔
ذہن میں آیا کہ شاید اخبار کی کوئی خبر اثر کر گئی ہو ۔ اخبار پر نظر دوڑائی مگر ایسا کچھ سمجھ میں نہیں آیا۔ ہاں زیادہ تر وہی مہاجر مزدوروں کی کہانیاں تھیں۔ ہم نے سوچا کہ شایدان کہانیوں کا اثر ہوگیا ہوگا۔دل ہی دل میں خوش بھی ہوئے کہ ہم کسی کے معتقد نہیں ہیں کہ پیرومرشد کی چشم و اَبرو کے محتاج رہیںکہ جب جس بات کا حکم ہوا وہی کیا۔۔۔۔۔ جب حکم ہوا ہسپتالوں میں شریک مریضوں کو کان پھاڑ دینے والامدھر سنگیت سُنا دیا جب حکم ہوا خود کا گھر جلا بیٹھے ۔۔۔۔۔۔۔پہلے بھی ہمارا دل ان مہاجر مزدوروں کے لیے رویا تھامگر ہمیں لگا کہ ابھی ان خبروں کےاثر سے آنسو نہیں نکل رہے ہیں۔
دل میں برے برے خیال آنے لگے کہ کہیں کوئی انہونی نہ ہوجائے۔۔۔۔ ۔ پھر اپنے ہی خیال پر لاحول پڑھا کہ ۔۔۔۔۔۔ کبھی ، کہیں، کسی کے ساتھ ایسا بھی ہوا ہے کہ آنسو ایڈوانس میں بہہ کر اپنا کام پورا کرلیں اور بوقت ضرورت ’’اسٹاک میں نہیں ہے ‘‘ کا جواب ملے ۔ ۔ ۔ شاید اسی لیے کہا جاتا ہے کہ دل کی آواز نہ سنیں۔ بیچارا۔۔۔۔ بہکا ہی دیتا ہے۔
ہم سر جھکائے سوچتے رہے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ آنکھوں میں مرچیں سی بھری جارہی ہیں۔۔۔۔۔۔ ۔ اسی وقت اخبار میں ڈاکٹروں کے چند اشتہار بھی نظر آگئے۔ اسے دیکھ کر منّابھائی ایم بی بی ایس کی یاد آگئی اور ذہن میں شک کے ناگ پھنکارنے لگے کہ کہیں ہمیں بھی تو کوئی کیمیکل لوچا نہیں ہوگیا ہے۔ دل میں وسوسے اٹھنے لگے کہ کہیں آنکھوں میں سلفیورک ایسڈ تو نہیں پڑگیا۔اسی وقت چھینکیں بھی آنے لگیں تو دل اور دہل گیا اور کرونا وائرس آنکھوں کے سامنے آکر دعوت دینے لگا کہ ’’ چلو اب رقص کرتے ہیں۔‘‘
سر جھٹک کر شک کے ان سنپولیوں کو بھگانے کی کوشش کرنے لگا۔ مگر اسی وقت سمجھ میں آگیا کہ یہ تو واقعی آنکھوں کاکیمیکل لوچا ہے۔ ہوا یوں کہ مجھے چھینکتے اورسر جھٹکتے دیکھ میری بیٹی زور سے بولی، ’’ ابّو! باہر چلے جائیں۔۔۔۔ پیاز کاٹ رہی ہوں اور ابھی بہت ساری پیازکاٹنا باقی ہے۔۔۔۔ ‘‘
“